بڑی عمر کے ابراہیم پان بیچتے ہیں۔
دسمبر 2021 کے ایک دن سر پر سفید ٹوپی پہنے وہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی ایک بوسیدہ گلی میں اپنی دکان میں بیٹھے ہیں جس کی چھت کا ایک حصہ ٹوٹ کر جھک چکا ہے اور جس میں پڑی واحد الماری کے سارے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں۔
ابراہیم کی دکان گوادر کے شاہی بازار میں واقع ہے۔ وہ کافی عرصے سے اسی ٹوٹی پھوٹی دکان میں اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور اسے چھوڑ کر شہر کے کسی دوسرے حصے میں نہیں جانا چاہتے حالانکہ اس کے ارد گرد واقع تقریباً تمام دکانیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔
گوادر کے مشرقی ساحل کے متوازی واقع پورے شاہی بازار کا یہی حال ہے۔
اس کی ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں شیعہ اسماعیلی فرقے کی ایک عبادت گاہ اور عمانی طرز پر تعمیر کردہ ایک قلعہ بھی ہے جو اس زمانے کی نشانی ہے جب گوادر سلطنتِ عمان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ (پاکستان نے 1958 میں یہ شہر عمان سے 55 لاکھ ڈالر کے عوض خریدا تھا۔)
شاہی بازار میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار عمارتوں کو دیکھ کر بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے صحن کشادہ اور چھتیں اونچی تھیں۔ ان کے بوسیدہ درو دیوار میں ابھی بھی عمانی طرزِ تعمیر کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ چند جگہوں پر ان میں استعمال شدہ لکڑیوں پر بنے نقش و نگار بھی محفوظ ہیں۔
ان کھنڈرات میں موجود کچھ دکانیں ابھی بھی چل رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چائے خانے اور ریستوران ہیں۔ لیکن ایک زمانے میں یہ بازار ہر قسم کے سامانِ تجارت کی خرید و فروخت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ اس سے متصل بندرگاہ پر بحری جہازوں سے آنے والا سامان اترتا تھا جو خچروں اور گھوڑوں پر لاد کریہاں پہنچایا جاتا تھا۔
گوادر کے رہنے والے سماجی کارکن اور صحافی ناصر رحیم سہرابی کا آبائی گھر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ وہ شاہی بازار کی تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوئے مختلف کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماضی میں ان کی جگہ کون سی عمارات ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "پچھلی کچھ دہائیوں میں گوادر شمال کی طرف پھیلتا گیا ہے جس سے شاہی بازار زوال پذیر ہو گیا ہے"۔ نتیجتاً یہاں کی کاروباری اور سماجی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور اس کے رہنے والے لوگ یہاں سے نکل کر شہر کے دوسرے حصوں میں جانے لگے ہیں۔
بازار کے مشرق میں ایک 19 کلومیٹر لمبی چھ رویہ سڑک، ایسٹ بے ایکسپریس وے، بن رہی ہے جو گوادر کی بین الاقوامی بندرگاہ کو شہر کے شمال سے گزرنے والی کوسٹل ہائی وے سے ملائے گی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر شاہی بازار کی ٹوٹ پھوٹ میں اور بھی اضافہ کر رہی ہے۔
انہیں شکایت ہے کہ اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی بھاری مشینری کی وجہ سے بازار کے اندر واقع گھروں اور دکانوں میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب یہ مشینری کام کر رہی ہوتی ہے تو اس کی گڑگڑاہٹ اور تھرتھراہٹ سے لگتا ہے کہ جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہو۔
مقامی باشندوں کے مطابق حکومت نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ سڑک کی تعمیر کی وجہ سے ان کے گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
گوادر ماہی گیر اتحاد کے جنرل سیکرٹری یونس انور بھی ان لوگوں سے متفق ہیں۔ وہ حکومت کی طرف سے بنائی گئی اس کمیٹی میں شامل تھے جس کا کام سڑک سے متاثرہ گھروں کا سروے کر کے ان کی تعداد اور ان کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سروے مکمل ہو چکا ہے لیکن حکومت نے انہیں ابھی تک اس کی حتمی رپورٹ فراہم نہیں کی۔
گوادر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر انیس طارق ان الزامات کو درست نہیں مانتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اب تک تین سو پانچ متاثرہ گھروں کی نشاندہی کر کے ان کے مالکان کو مجموعی طور پر پانچ کروڑ 35 لاکھ روپے ادا کر چکی ہے۔
ماہی گیروں اور سمندر میں دوریاں
ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کی وجہ سے شاہی بازار کا سمندر سے رابطہ بالکل منقطع ہو گیا ہے اور نتیجتاً اس کی زبوں حالی میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اس وقت سمندر اور بازار کے درمیان سڑک کے علاوہ گندگی کے ڈھیر اور گندے پانی کا ایک نالہ بھی حائل ہیں۔ مقامی باشندوں کو یہ رکاوٹیں عبور کرنے کی اجازت نہیں۔
مقامی آبادی کو شکایت ہے کہ درحقیقت سڑک کی تعمیر سے گوادر کی چار کلومیٹر کے قریب لمبی پوری مشرقی ساحلی پٹی شہر کی آبادی سے بالکل کٹ گئی ہے۔
مزید برآں اس کی جائے تعمیر کی حفاظت کے لیے رہائشی علاقوں اور شہر کے مشرقی ساحل کے درمیان خالی جگہوں پر متعدد ایسے ٹاور بنا دیے گئے ہیں جن پر متعین محافظ ہر قسم کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ اسی طرح سکیورٹی اداروں کی گاڑیاں بھی سڑک کے ساتھ ساتھ مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ماہی گیر اپنی مرضی سے مشرقی ساحل سے سمندر میں داخل نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی آمدورفت کے لیے تین اوقات مخصوص کر دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گوادر کو حق دو تحریک: 'ترقی کے نام پر ہم سے ہمارا سمندر اور پہاڑ چھین لیے گئے ہیں'۔
ان کے مطابق اس پابندی سے ان کا روزگار شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے بشیر ہوتھ نامی مقامی ماہی گیر سوال اٹھاتے ہیں کہ "سکیورٹی کے ادارے یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کس وقت ماہی گیری کرنی چاہیے"۔ اس کے برعکس، ان کے خیال میں، "ایک ماہی گیر ہی جانتا ہے کہ اسے سمندر میں کس وقت اور کس جگہ مچھلی ملے گی"۔
شہر کے مچھیروں کی مختلف تنظیموں کے ادغام سے وجود میں آنے والا گوادر ماہی گیر اتحاد اس طرح کی رکاوٹوں کے خلاف 2018 سے احتجاجی مظاہرے کر رہا ہے۔ ان مظاہروں کے شرکا کا سب سے اہم مطالبہ ہے کہ ایکسپریس وے کے نیچے سے تین ایسی گزرگاہیں بنائی جائیں جن کے ذریعے ماہی گیر آزادی سے اور اپنی مرضی کے اوقات پر اپنی کشتیاں سمندر تک لے جا سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بندرگاہ سے لے کے سمندر میں مشرق کی جانب ایک 15 سو میٹر لمبی دیوار بنائی جائے تا کہ بڑے جہازوں کی آمدورفت سے پیدا ہونے والی طاقت ور لہریں ان کی کشتیوں کی روانی کو متاثر نہ کریں۔
ان مظاہروں کے خاتمے کے لیے حکومت نے ماہی گیروں سے وعدہ کیا ہے کہ جون 2022 تک ان کے دونوں مطالبات پورے کر دیے جائیں گے۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
تاریخ اشاعت 18 جنوری 2022