عام انتخابات قریب آ رہے ہیں اور دیگر علاقوں کی طرح گوجرانوالہ میں بھی پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ نوجوان رہنما انتخابی اکھاڑے میں اترنے کو تیار ہیں۔ وسطی پنجاب کے اس ضلعے میں ویسے تو پانچ قومی اور 12 صوبائی حلقوں پر چناؤ ہو گا لیکن کچھ حلقے اور رہنما زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع گوجرانوالہ اور ضلع وزیر آباد کے چھ قومی اور 14 صوبائی نشستوں پر تحریک انصاف کی ٹکٹوں کے لیے سینئر لیگی رہنما اسمبلی حامد ناصر چٹھہ امیدواروں سے انٹرویوز کر رہے ہیں۔
وزیرآباد کو کچھ عرصہ پہلے ہی ضلع بنایا گیا ہے پہلے یہ گوجرانوالہ کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔ اس ضلع کو قومی اسمبلی ایک نشست این اے 66 ملی ہے۔
ضلع گوجرانوالہ میں اب قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں ہیں جن کا نمبر این اے 77 سے این اے 81 تک ہے۔
سابق ایم پی اے چودھری ناصر پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے سینئر نائب صدر ہیں۔ وہ خود پی پی 35 وزیرآباد اور ان کے صاحبزادے جمال ناصر اس بار بھی پی پی 59 گوجرانوالہ سے پی ٹی آئی کے امیداوار ہیں۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں امیدواروں کے چناؤ کی ذمہ داری حامد ناصر چٹھہ کو دی گئی ہے۔
گوجرانوالہ نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا حلقہ این اے 80 گوجرانوالہ 2 اب این اے 77 گوجرانوالہ 1 ہے
یہ حلقہ گوجرانوالہ کے شہری علاقوں اور چند نواحی دیہات پر مشتمل ہے اسی حلقے میں گوجرانوالہ کنٹونمنٹ کے علاقے بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں میٹروپولیٹن کارپوریشن گوجرانوالہ کے چارج نمبر 33 اور 35 کو شامل کیا گیا ہے۔
2018 کا حلقہ این اے 81 گوجرانوالہ 3 اب این اے 78 گوجرانوالہ 2 ہے
یہ حلقہ مکمل طور پر گوجرانوالہ کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں میٹروپولیٹن کارپوریشن گوجرانوالہ کے چارج نمبر 3، 4، 9 اور 37 کو شامل کیا گیا ہے۔
2018 کا حلقہ این اے 83 گوجرانوالہ 5 اب این اے 79 گوجرانوالہ 3 ہے
یہ کامونکی تحصیل کا حلقہ ہے۔ جس میں گوجرانوالہ صدر تحصیل کی کچھ آبادی بھی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کی جغرافیائی حدود میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس حلقے میں تحصیل صدر کے قصبے ایمن آباد کی ٹاون کمیٹی شامل ہے، اس کے علاوہ ایمن آباد قانون گو حلقہ کے بیشتر دیہات بھی اس میں شامل ہیں۔
2018 کا حلقہ این اے 82 گوجرانوالہ 4 اب این اے 80 گوجرانوالہ 4 ہے
یہ حلقہ بھی گوجرانوالہ کی شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ کے چارج نمبر 5، 6، 18، 20، 32 اور چارج نمبر 34 کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دس اور سرکلز بھی اب اس حلقے میں شامل کیے گئے ہیں۔
2018 کا حلقہ این اے 84 گوجرانوالہ 6 اب این اے 81 گوجرانوالہ 5 ہے
یہ نوشہرہ ورکاں تحصیل پر مشتمل ہے جس میں گوجرانوالہ کی کچھ شہری آبادی بھی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں گوجرانوالہ صدر تحصیل کے پٹوار سرکل چاہل کہنہ، چک جید اور Khabe Ke کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے چارج نمبر 36 اور چارج نمبر 19 کے 8 سرکلز کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ناصر چیمہ کہتے ہیں کہ سابق سپیکر اگرچہ پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تاہم وہ مشکل حالات میں عمران خان سے ذاتی تعلق نبھا رہے ہیں۔ امیدواروں کے چناؤ میں چٹھہ کی معاونت پی ٹی آئی رہنما رانا بلال اعجاز اور میاں طارق محمود کر رہے ہیں۔
حامد ناصر چٹھہ کا موقف رہا ہے کہ وہ پیدائشی مسلم لیگی ہیں اور مسلم لیگی ہی رہیں گے۔ تاہم ان کے صاحبزادے محمد احمد چٹھہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں اور عمران خان ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
این اے 78 میں ن لیگ کے رہنما و سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر کے مقابلے میں تحریک انصاف سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ کو لا رہی ہے جن کا آبائی علاقہ وزیر آباد ہے۔اس بات پر گوجرانوالہ شہر سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ممکنہ امیدوار پریشان ہیں۔
مقامی پی ٹی آئی رہنما سمجھتے ہیں کہ اگر خرم دستگیر کو کمزور بال کرائی گئی تو وہ یقیناً چھکا مارنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ تاہم تحریک انصاف کے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری بیرسٹر بلال ناصر چیمہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ووٹ ہی پارٹی کو ملنا ہے تو امیدوار کی اہمیت نہیں رہتی اور قائدین نے سوچ سمجھ کر عمر سرفراز چیمہ کا انتخاب کیا ہے۔ پی ٹی آئی یہ سیٹ جیت
کر دکھائے گی۔
اس حلقے میں پیپلز پارٹی سے حارث میراں امیدوار ہیں جو مسلم لیگ ن کے سابق وزیر چودھری اقبال گجر کے بھتیجے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ حارث میراں کے بھائی رضا میراں این اے 79 سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
شہر کے حلقہ این اے 80 میں پارٹی چھوڑنے والے سابق ٹکٹ ہولڈر علی اشرف مغل ایک بار پھر پر اعتماد ہیں کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ انہیں کو ملے گا۔ علی اشرف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی نواسی کے شوہر اور سٹی ہاؤسنگ کے مالک میجر (ر) ملک اسحاق کے داماد ہیں جنہیں پہلے بھی مبینہ طور پر اسی وساطت سے ٹکٹ ملا تھا۔
اس قومی حلقے سے ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر بیرسٹر عثمان ابراہیم چار بار صوبائی اور تین بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ سیاست سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں ان کا بیٹا شاہد عثمان امیدوار ہو گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی قیادت نے ان کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار چودھری ذیشان الیاس ہیں جن کے بھائی گوہر زمان ضلعی نائب ناظم تھے، انہیں عدالت میں قتل کردیا گیا تھا۔ ذیشان الیاس ارائیں برادری کے سرکردہ لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ ان کے سگے بھائی مہر افضل ن لیگی امیدوار عثمان ابراہیم کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
شہر میں صوبائی حلقہ پی پی 64 بھی زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے یہ حلقہ این اے 80 میں شامل ہے۔ یہاں چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور نون لیگ کے رہنما شعیب بٹ امیدوار ہیں لیکن اس نشست پر عمر فاروق ڈار نے اچانک انٹری ڈال دی ہے۔
عمر فاروق ڈار کے بڑے بھائی احسن ڈار لندن میں میاں نواز شریف کے سکیورٹی انچارج تھے۔ سابق رکن قومی اسمبلی عثمان ابراہیم ان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ خرم دستگیر ان کے مخالف شعیب بٹ کو اعلانیہ سپورٹ کر رہے ہیں۔
گوجرانوالہ کی نشست این اے 79 یوں اہم ہو گئی ہے کہ یہاں استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سےن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔
یہ حلقہ زیادہ تر تحصیل کامونکی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ کبھی یہاں رانا نذیر احمد خان کا طوطی بولتا تھا جو چار بار خود اور دو مرتبہ ان کے صاحبزادے یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
پارٹیاں بدلنے کے باعث رانا نذیر کی حلقے میں پوزیشن کمزور پڑ گئی ہے۔ وہ پچھلی بار ذوالفقار بھنڈر سے ہار گئے تھے۔اب وہ آئی پی پی میں ہیں اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ رانا نذیر نون لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔
یہ بیل کہاں تک منڈھے چڑھتی ہے یہ تو وقت بتائے گا۔ تاہم ن لیگ کے ذوالفقار بھنڈر کو روزانہ کئی بار تردید کرنا پڑ رہی ہے کہ کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو رہی اور وہ خود اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار ہوں گے۔
اس قومی نشست پر رانا ساجد شوکت اور عثمان بسرا پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ قوی امکان یہی ہے کہ ان دنوں میں سے ایک کو قومی اور دوسرے کو صوبائی حلقے کا ٹکٹ مل جائے گا۔
اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے حبیب سرور سرویا اور چودھری اصغر جٹ امیدوار ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک قومی اور دوسرے صوبائی نشست پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
گوجرانوالہ کے این اے 77 اور پی پی 60 پر ن لیگ میں دلچسپ دھڑے بندی نظر آ رہی ہے جہاں سینئر لیگی رہنماؤں پر بوڑھا ہونے کا "الزام" ہے۔ یہاں سے نوجوان امیدوار میدان میں آ چکے ہیں اور پارٹی ٹکٹوں کے لیے کھلم کھلا لابنگ کر رہے ہیں۔
سابق ایم پی اے اور سینئر ن لیگی رہنما عبدالرؤف مغل کے خلاف پی پی 60 میں پارٹی کارکنوں کی بغاوت دکھائی دے رہی ہے۔یہاں کی13 میں سے 11 یو نین کونسلوں کے چیئرمین اور کونسلر، نوجوان امیدوار عاطف مسعود بٹ کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم عبد الرؤف مغل بتاتے ہیں کہ ان کی جگہ ان کے صاحبزادے معظم رؤف الیکشن لڑیں گے اور پارٹی ٹکٹ بھی ان کے بیٹے کو ملے گا۔
این اے 77 میں ن لیگ کے عطاء اللہ اور محمود بشیر ورک کے درمیان پارٹی ٹکٹ کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ٹکٹ لینے میں کون کامیاب ہوتا ہے یہ تو سامنے آ ہی جائے گا، تاہم اس حلقے کی وجہ سے ضلع بھر میں ن لیگی قیادت دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔
گوجرانوالہ کے اس حلقے میں 40 فیصد شہری اور 60 فیصد دیہی آبادی شامل ہے۔ تارڑ اور ورک دونوں جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں جٹ برادری کی اکثریت ہے۔ تاہم گجر، راجپوت، ارائیں اور سید برادریوں کے ووٹ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
محمود بشیر ورک سینئر قانون دان اور سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ہیں۔ وہ اس حلقہ سے پہلی بار نون لیگ کے ٹکٹ پر 1997ء میں کامیاب ہوئے تھے۔ 2008ء کے بعد مسلسل رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے اور وہ وفاقی وزیر قانون و انصاف بھی رہ چکے ہیں۔
عطاء تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔ مسلم لیگ کے مقامی رہنماؤں کے مطابق اگرچہ یہی "کوالیفکیشن" ان کے پارٹی قیادت تک رسائی کی وجہ ہے تاہم باقی راستہ انہوں نے اپنی محنت سے طے کیا ہےاور وہ ن لیگ میں اپنا نام اور مقام بنا چکے ہیں۔
حلقے میں سیکڑوں انتخابی ہوڈنگز لگے ہوئے ہیں جن پر عطاء تارڑ امیدوار این اے 77 لکھا ہوا ہے لیکن ابھی تک ٹکٹ نہیں ملا۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع گجرات کے انتخابی حلقوں میں توڑ پھوڑ تحریک انصاف کو اعتراضات، فائدہ کسے ہو گا؟
اس ضلعے کے سابق لیگی ارکان اسمبلی میں سے خرم دستگیر، ڈاکٹر نثار چیمہ اور مدثر قیوم ناہرہ اس وقت محمود بشیر ورک جبکہ بیرسٹر عثمان ابراہیم اور ذوالفقار بھنڈر یہاں عطا تارڑ کا ساتھ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ سابق ایم پی ایز بھی اسی طرح تقسیم ہیں۔
عطا تارڑ کے بھائی اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بلال فاروق تارڑ نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ عطا تارڑ پارٹی ٹکٹ کا گرین سگنل ملنے کے بعد ہی یہاں الیکشن لڑنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ کہ محمود بشیر ورک کو اگلے سال سینیٹر بنانے کی تجویز زیر غور ہے۔
سیاسی تجزیہ کار رانا محسن خالد کہتے ہیں کہ عطا تارڑ سے پہلے گوجرانوالہ میں ن لیگ کی سیاست غلام دستگیر خان گھرانے کے گرد گھومتی تھی۔ اب لوگوں کے پاس دوسری مضبوط آپشن آگئی ہے۔اسی بات سے پریشان رہنما، عطا تارڑ کی زبردست مخالفت کر رہے ہیں۔
این اے 77 میں پی ٹی آئی سے سابق ایم این اے میاں طارق محمود اور پیپلز پارٹی سے سابق وزیر مملکت امتیاز صفدر وڑائچ امیدوار ہیں۔
دونوں کے اپنے اپنے سیاسی دھڑے اور ذاتی حلقہ احباب ہے۔ اگر نون لیگ میں ٹکٹ کا معاملہ شدت اختیار کرتا ہے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کا امیدوار اٹھا سکتا ہے۔
این اے 81 نوشہرہ ورکاں میں ن لیگ سے مدثر قیوم یا اظہر قیوم ناہرہ امیدوار ہوں گے۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے رانا بلال اعجاز اور پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عامر علی حسین سے ہو گا۔ ڈاکٹر عامر پنجاب فرانزک لیب کے سابق سربراہ اور سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کے بھائی ہیں۔ ان کے کزن تصدق مسعود 2010ء کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورہ گوجرانوالہ کے بعد پیپلز پارٹی بھی یہاں کچھ فعال نظر آ رہی ہے۔ ان کے متعدد امیدواران میدان میں آ چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار پارٹی کو بلے کا انتخابی نشان ملنے یا نہ ملنے کے باعث تذبذب کا شکار ہیں اور عدالتی فیصلے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
تاریخ اشاعت 21 دسمبر 2023