صنفی تفریق کا شکار یونیورسٹی آف نارووال کی طالبات: گرلز ہاسٹل کے قیام میں اور کتنا عرصہ لگے گا؟

postImg

عابد محمود بیگ

postImg

صنفی تفریق کا شکار یونیورسٹی آف نارووال کی طالبات: گرلز ہاسٹل کے قیام میں اور کتنا عرصہ لگے گا؟

عابد محمود بیگ

شکرگڑھ کے گاؤں اخلاص پور کی 22 سالہ شمائلہ اسلم یونیورسٹی آنے جانے کے لیے روزانہ 104 کلومیٹر سفر کرتی ہیں۔

وہ یونیورسٹی آف نارووال میں بی ایس کمپیوٹر سائنس کے چھٹے سمیسٹر میں پڑھتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی کامران اسلم نویں جماعت کا طالب علم ہے جو سکول جانے سے پہلے انہیں گاؤں سے 10 کلومیٹر دور شکر گڑھ بس سٹینڈ پر چھوڑنے جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ یونیورسٹی تک 42 کلومیٹر کا فاصلہ بس پر طے کرتی اور اسی طرح واپس آتی ہیں۔

طویل مسافت اور بسوں میں مسافروں کے نامناسب رویے نے شمائلہ کے لیے پڑھائی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔

شمائلہ کی طرح نارووال یونیورسٹی کی سیکڑوں طالبات کو روزانہ انہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یونیورسٹی میں گرلز ہاسٹل کی سہولت نہیں ہے اور دور دراز علاقوں میں رہنے والی طالبات کو یا تو طویل فاصلہ طے کر کے یونیورسٹی آنا پڑتا ہے یا وہ نارووال میں مہنگے پرائیویٹ ہاسٹلوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

شمائلہ کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور ان کے والد کاشتکاری کرتے ہیں۔ والدین ان کے لیے پرائیویٹ ہاسٹل کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

وہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی کے پاس چھ بسیں ہیں جو مختلف روٹس پر چلائی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں اس قدر رش ہوتا ہے کہ بیشتر طلبہ موٹرسائیکلوں پر اور طالبات نجی یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔

یونیورسٹی آف نارووال میں پانچ ہزار سے زیادہ طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں طالبات کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ہزار طلبہ کے لیے تو یونیورسٹی میں ہاسٹل موجود ہے لیکن اس سے چار گنا بڑی تعداد میں طالبات کے لیے ہاسٹل نہیں بن سکا۔

یونیورسٹی کی طالبات نے وائس چانسلر کو ہاسٹل بنوانے کے لیے کئی بار درخواستیں دیں مگر انتظامیہ ہر مرتبہ یہی کہتی ہے کہ فنڈز ملتے ہی گرلز ہاسٹل کی تعمیر شروع کرا دی جائے گی۔

20 سالہ عائشہ عزیز تحصیل ظفروال کے گاؤں درمان کی رہائشی ہیں۔ ان کے والد حصول روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں۔ عائشہ یونیورسٹی کے قریب گرلز ہاسٹل میں رہتی ہیں جہاں وہ پہلے 10 ہزار روپے ماہانہ کرایہ دیتی تھیں لیکن اب اسے بڑھا کر 15 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹی میں گرلز ہاسٹل ہوتا تو انہیں یہ بھاری اخراجات نہ کرنا پڑتے۔

2014 تک نارووال کے طلبہ ماسٹرز کرنے یا پروفیشنل ڈگریوں کے حصول کے لیے اسلام آباد، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کو جایا کرتے تھے۔ تاہم اس شہر سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر احسن اقبال نے یہاں گورنمنٹ بوائز گریجوایٹ کالج کی عمارت میں یونیورسٹی آف گجرات کا سب کیمپس قائم کروا دیا جس سے بہت سے طلبہ کی مشکل آسان ہو گئی اور پہلے سال 560 طلبہ و طالبات نے یہاں داخلہ لیا۔

2015ء میں سب کیمپس کی اپنی عمارت کی تعمیر کیلئے نارووال سے دو کلومیٹر دور شکرگڑھ روڈ پر دو سو ایکڑ اراضی خریدی گئی اور عمارت بننے کے بعد 2016 میں یہاں طلبہ و طالبات کی تعداد 3000 سے تجاوز کر گئی۔

2018ء میں یونیورسٹی آف نارووال کے قیام کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر کے سب کیمپس کو یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ اسی دوران یونیورسٹی میں مختلف تعلیمی بلاکس تعمیر کئے گئے لیکن طالبات کی رہائش کیلئے گرلز ہاسٹل کی تعمیر نہ ہو سکی۔

امبر شہزادی اور مہوش علی اس یونیورسٹی میں بی ایس بیالوجی کے پانچویں سمیسٹر میں پڑھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دور دراز علاقوں سے آنے والی بہت سی طالبات یونیورسٹی آتے جاتے حادثات کا شکار ہو چکی ہیں۔

"یونیورسٹی میں شام کی کلاسز لینے والی طالبات کو رات کے اندھیرے میں گھروں کو جانا پڑتا ہے۔2020ء میں ہماری ساتھی طالبہ صائمہ سہیل تلونڈی بھنڈراں سے اپنے بھائی کے ساتھ موٹرسائیکل پر یونیورسٹی آ رہی تھیں کہ راستے میں انہیں ٹرک نے کچل دیا اور وہ موقع پر دم توڑ گئیں۔''

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض طالبات کا کہنا تھا کہ دوران سفر اور پرائیویٹ ہاسٹلوں میں انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے اور وہ خوف زدہ ہونے کے باعث تعلیم پر پوری توجہ بھی نہیں دے سکتیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات: 'غریب طبقے کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا معاشرتی مساوات کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔

طالبات کا کہنا ہے کہ وہ ایسے واقعات کو سامنے لانے سے بھی ہچکچاتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں والدین انہیں یونیورسٹی آنے سے ہی نہ روک دیں۔

ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن ضلع نارووال کے سینئر نائب صدر یاسر شاہین کا کہنا ہے کہ محفوظ تعلیمی ماحول طالبات کا بنیادی حق ہے۔ یونیورسٹی آف نارووال میں گرلز ہاسٹل نہ ہونے سے لڑکیوں کو بہت سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن کا سدباب ضروری ہے۔

گرلز ہاسٹل کی عدم موجودگی کے حوالے سے یونیورستی آف نارووال کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر حسیب سرور کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے بلڈنگ پلان میں گرلز ہاسٹلز بلاکس کے لیے زمین مختص ہے اور ان کی تعمیر بھی جلد شروع ہو جائے گی۔

انہوں ںے یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی میں ابتدائی طور پر 150 طالبات کی گنجائش والے گرلز ہاسٹل کا افتتاح کر دیا گیا ہے اور اس میں داخلے کے لیے طالبات سے درخواستوں کی وصولی بھی شروع ہو گئی ہے۔

تاریخ اشاعت 30 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عابد محمود بیگ 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اردو انگلش الیکٹرانک میڈیا کی صحافت اور انویسٹیگیش نیوز سٹوری پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.