ضلع راجن پور میں لال گڑھ کی نوشین کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ڈاکٹر بنناچاہتی تھیں اور انہوں نے ہر جماعت اچھے نمبر لے کر پاس کی تھی۔ جب وہ نویں جماعت میں پہنچیں تو والد نے انہیں سکول جانے سے روک کر ان کا رشتہ طے کر دیا۔ نوشین کی والدہ کے بقول ان کی بیٹی نے والد کو قائل کرنے کی بہتیری کوشش کی کہ اس کی جلد شادی نہ کی جائے اور تعلیم مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ تاہم اپنی بات نہ سنے جانے پر دلبرداشتہ ہو کر 25 اکتوبر 2021 کو انہوں نے خودکشی کرلی۔
ایسی ہی ایک کہانی راجن پور کے علاقے میراں پور کی رہائشی فاطمہ کی بتائی جاتی ہے۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ فاطمہ ہونہار طالبہ تھیں۔ بھائیوں اور والد نے انہیں بمشکل دسویں جماعت تک پڑھنے دیا جس سے دل برداشتہ ہو کر 15 مئی 2022ء کو ا نہوں نے خودکشی کر لی۔
ضلع راجن پور کی لڑکیوں میں شرح تعلیم بہت کم ہے۔ بہت سی لڑکیوں کو ان کی خواہش کے برعکس تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے اور ایسی کئی لڑکیاں دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لیتی ہیں۔
سماجی زندگی اور رہن سہن کے معیار سے متعلق 2022 کے قومی جائزے کے مطابق ضلع راجن پور میں شرح خواندگی 34 فیصد ہے جس میں مردانہ خواندگی کی شرح 43 فیصد اور زنانہ شرح 23 فیصد ہے۔ دیہات میں دیکھا جائے تو مردوں میں خواندگی کی شرح 37 فیصد اور خواتین میں 16 فیصد ہے۔
پورے پنجاب میں شرح تعلیم 67.32 فیصد ہے جن میں 74 فیصد مرد اور 61 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔
تعلیمی میدان میں صنفی تفریق سے متعلق حکومت پنجاب کی جانب سے 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق راجن پور تعلیم سے محروم 5 سے 9 سال عمر کے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے بھی صوبے میں سب سے پیچھے ہے۔ یہاں سکول جانے کی اس عمر کے 58 فیصد لڑکے اور 64 فیصد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں جبکہ پورے صوبے میں یہ شرح 46 فیصد ہے۔
سماجی تنظیم 'زندگی ویلفیئر سوسائٹی' سے منسلک روح اللہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ نامی منصوبے کے تحت درامندی والا میں سکول کے بچوں کی تعلیم پر کام کر چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ راجن پور کے متعدد علاقوں میں لڑکیوں کے حصول تعلیم کو غلط خیال کرتے ہوئے انہیں اس سے روکا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو صرف گھریلو کام کاج تک محدود رکھا جاتا ہے اور ان کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔
رہبر ویلفیئر فاﺅنڈیشن نامی سماجی تنظیم وابستہ محمد اسلم راجن پور کے علاقوں بنگلہ دھینگن اور کوٹلہ نصیر میں بچوں کے تعلیمی منصوبے پر کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق فرسودہ رسم و رواج لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
"لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ ان کے خاندان میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج نہیں ہے اس لیے وہ بھی تعلیم حاصل نہ کریں۔"
راجن پور میں لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر بستی اعوان اور کوٹلہ اندرون کے گرلز ایلیمنٹری سکولوں کے اساتذہ کے مطابق پہلی سے تیسری جماعت تک تقریباً 60 فیصد لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں جبکہ تیسری سے پانچویں جماعت تک90 فیصد لڑکیاں تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔
سرسید سکول فاضل پور اور خواجہ فرید گرلز سکول راجن پور کی انتظامیہ نے بتایا کہ ان سکولوں میں بچیوں کا داخلہ تو کرایا جاتا ہے لیکن بیشتر کو دو تین جماعتیں پڑھانے کے بعد گھر بٹھا لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر راجن جگہوں پر بہت کم تعداد میں لڑکیوں کو سکول بھیجا جاتا ہے۔
"ہم نے ایک ٹیم تشکیل دی جو گھر گھر جا کر لوگوں کو بچیوں کی تعلیم کے بارے میں آگاہی دیتی ہے۔ اس مہم سے بعض علاقوں میں صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔"
راجن پور کے علاقے حاجی پور میں گورنمنٹ ڈگری کالج کے پروفیسر شاہ نواز نے کہا کہ بہت سی بچیاں محنتی اور ہونہار ہوتی ہیں لیکن انہیں تعلیم مکمل نہیں کرنے دی جاتی۔ کم عمری میں شادی ہونے سے بھی سلسلہ تعلیم رک جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ نے خود گھروں میں جا کر والدین کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن اس میں ٹرانسپورٹ جیسے مسائل بھی آڑے آجاتے ہیں۔
محمد اسلم ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولیات اور سکولوں کے دور واقع ہونے کو بھی لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
راجن پور کی بستی اعوان کے گرلز ایلیمنٹری سکول میں صرف 184 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح کوٹلہ اندرون کے ایلیمنٹری سکول میں 204اور میراپور کے گرلز ایلیمنٹری سکول میں 170طالبات زیرتعلیم ہیں۔ بستی اعوان کی آبادی تقریباً 17ہزار ہے۔کوٹلہ اندرون کی 26 ہزار اور میرا پور کی آبادی 11ہزار کے قریب ہے۔ آ بادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو طالبات کی یہ تعداد بہت کم ہے۔ اسی تناسب سے ہائرسیکنڈری سکولوں میں بھی طالبات کی تعداد بہت کم ہے۔
گاؤں سکھانی والا کی رہائشی حنا نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ہی گاؤں کے سکول سے میٹرک کیا لیکن انٹرمیڈیٹ کے لیے انہیں شہر کے کالج جانا پڑتا۔ ان کے مطابق سکھانی والا میں ٹرانسپورٹ کا بہت مسئلہ ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی اور اب گھر کے کام کاج کرتی ہیں۔
بستی سراں کے اقبال نے بتایا کہ اس علاقے میں بس، ویگن وغیرہ کی صورت میں ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ وہ اپنے کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے دور نہیں بھیج سکتے اس لیے انہوں نے پانچویں جماع کے بعد اس کی تعلیم چھڑوا دی۔
یہ بھی پڑھیں
کوہلو گرلز کالج کا قیام: لڑکیوں کو تعلیم کے بہتر مواقعے کب میسر آئیں گے؟
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی سردار حفیظ الرحمٰن دریشک سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے تو انہوں نے کہا کہ ان کی کوششوں سے تین گرلز سکول قائم کیے گئے۔
اس کے علاوہ بعض سکولوں کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سروے بھی کروایا گیا لیکن ان حکومت کا آخری سال ؛پانامہ کیس' جیسے مسائل کی نذر ہو گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ آئندہ انتخابات میں برسراقتدار آئے تو ان تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ضلع راجن پور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کی مجموعی تعداد 389 ہے جن میں سے 336 پرائمری، 25 ایلیمنٹری اور 28 گرلز ہائر سیکنڈری ہیں۔ ان میں پرائمری سکولوں میں پڑھنے والوں کی تعداد 35200 ہے، ایلیمنٹری سکولوں میں 3612 زیر تعلیم ہیں جبکہ ہائر سکینڈری سکولوں میں 1736 طلبہ و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ نجی شعبے میں بچیوں کے 112 سکول کام کر رہے ہیں جن میں 62320 طالبات زیر تعلیم ہیں۔
تاریخ اشاعت 25 ستمبر 2023