راولپنڈی کے علاقے مسلم ٹاون کی رہنے والی شازیہ بی بی کے تینوں بچے مارچ 2020 کے بعد سکول نہیں جا سکے۔
ڈیڑھ سال پہلے ان کے شوہر جوتوں کی دکان پر سیلز مین تھے اور 18 ہزار سے 20 ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ اس قلیل آمدن کو بہتر بنانے کے لیے 45 سالہ شازیہ بی بی فارغ وقت میں محلے والوں کے کپڑے سی لیا کرتی تھیں۔ لیکن جب کورونا وبا کی روک تھام کے لیے حکومت نے صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی لگائی تو ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی۔ یوں گھر چلانے کی ساری ذمے داری ان کے کندھوں پر آ پڑی اور ان کا کپڑے سینے کا مشغلہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ بن گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کام کے عوض ملنے والا معاوضہ اس قدر قلیل ہے کہ انہیں گزر بسر کرنے کے لیے کئی گھریلو خرچے بہت کم کرنا پڑے ہیں جن میں بچوں کی تعلیم پر ہونے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق پچھلے سال ستمبر میں چھ ماہ کی بندش کے بعد جب سکول دوبارہ کھلے تو ان کے پاس بچوں کی فیس دینے کے لیے پیسے نہیں تھے لہٰذا انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو سکول سے نکال کر اپنے گھر کے قریب ایک سستے ٹیوشن سنٹر میں بھیجنا شروع کر دیا۔ وہ اس وقت نویں اور دسویں جماعت میں پڑھ رہے تھے اس لیے شازیہ بی بی کو فکر تھی کہ ان کی تعلیم کو بالکل منقطع کر دینا کہیں ان کے مستقبل پر بہت منفی اثر نہ ڈالے۔
لیکن اپنی 10 سالہ بیٹی کی پڑھائی انہوں نے بالکل ختم کرا دی۔
راولپنڈی ہی کے نورانی محلہ کی شاہ خالد کالونی میں رہنے والی شازیہ طاہر نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان کے شوہر 2018 کے آخر میں دِل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ تب سے وہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں۔
پچھلے سال جب کورونا وبا کی وجہ سے ان کی آمدن میں کمی آ گئی تو انہیں انتخاب کرنا پڑا کہ وہ اپنے چھ سالہ بیٹے اور 13 سالہ بیٹی میں سے کس کی تعلیم کا خرچہ برداشت کریں۔ انہوں نے فیصلہ بیٹے کے حق میں دیا اور بیٹی کا سکول چھڑا دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اپنی آٹھویں پاس بیٹی کو مزید پڑھانے کے بجائے اب وہ اس کی شادی کی تیاری کریں گی۔
لاہور کے جوہر ٹاؤن میں شوالہ روڈ پر واقع ایک کچی بستی میں رہنے والی جمیلہ بی بی اور ان کے رکشا ڈرائیور شوہر طالب حسین کی کہانی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ محدود ذرائع آمدن کے باوجود انہوں نے اپنی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرایا ہوا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے ان کی آمدن میں کمی ہو گئی تو انہیں اپنی بیٹیوں کو سکول سے نکالنا پڑ گیا۔
طالب حسین کا کہنا ہے کہ وبا کے ابتدائی مہینوں میں لگنے والے لاک ڈاؤن میں نہ صرف وہ کافی عرصہ بے روزگار رہے بلکہ ان کی جمع پونجی بھی روز مرہ کے اخراجات کی نذر ہو گئی۔ اس دوران جب ستمبر 2020 میں بند شدہ تعلیمی ادارے کھلے تو ان کے پاس چاروں بچوں کی فیس دینے کے پیسے نہیں تھے چنانچہ انہوں نے صرف اپنے بیٹے کی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا حالانکہ اس کی ماہانہ فیس ان کی تینوں بیٹیوں کی مجموعی ماہانہ فیس سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
اسی بستی سے کچھ دور ایک جھونپڑی میں نادر علی کا خاندان آباد ہے۔ وہ دس سال قبل فیصل آباد سے روزگار کی تلاش میں لاہور آئے تھے اور 2020 کے وسط تک ایک نِجی کاروباری ادارے میں بطور سکیورٹی گارڈ ملازم تھے۔ کورونا وبا کی وجہ سے وہ نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کے نتیجے میں ان کے خاندان کی گزر بسر اب اُن کی بیوی مصباح کی کمائی پر ہے جو کپڑے سینے کا کام کرتی ہیں۔
ان کے دونوں بیٹے نِجی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جبکہ بیٹی ایک دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم ہے۔ نادر علی کہتے ہیں کورونا وبا سے قبل ان کی پانچ سالہ بیٹی بھی سکول میں داخل تھی لیکن پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے دینی تعلیم دلوائیں گے کیونکہ، ان کے بقول، "لڑکیوں کو گھرداری چلانے کے لئےجو ہنر درکار ہوتے ہیں انہیں سیکھنے کے لیے گھر اور مدرسہ ہی کافی ہیں"۔
لڑکیوں کی تعلیم: اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے پاکستان میں دو کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بچے سکول نہیں جا رہے تھے جن میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 50 لاکھ پاکستانی بچے پرائمری سکول جانے کی عمر میں تھے لیکن وہ کسی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں تھے۔ ایسے ہر دس بچوں میں سے چھ لڑکیاں تھیں۔ اسی طرح ایسے بچے جو مڈل سکول جانے والی عمر میں تھے مگر پڑھتے لکھتے نہیں تھے ان میں سے 59 فیصد لڑکیاں تھیں۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہائی سکول پہنچنے والے ہر 100 بچوں میں لڑکیوں کی تعداد صرف 13 تھی۔
لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کورونا کے پھیلنے کے بعد سکول نہ جانے والے بچوں کی مجموعی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہی ہے اس میں سے لڑکیوں کی تعداد اور بھی تیزی سے بڑھی ہے۔
وفاقی محکمہِ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری محی الدین احمد وانی تسلیم کرتے ہیں کہ وبا کی وجہ سے لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعلیم زیادہ متاثر ہوئی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ "یہ طے کرنا ابھی مشکل ہے کہ ان میں سے کتنی طالبات مستقل طور پر تعلیم چھوڑ چکی ہیں اور کتنی کچھ عرصے بعد دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیں گی"۔
ان کے مطابق اس مسئلے کی نوعیت اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے وسیع پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے "تا کہ معلوم ہو سکے کہ کن طبقات اور کن علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کورونا کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئی ہے"۔
تاہم ان عوامل کا جائزہ لینے کے لیے کچھ ادارے پہلے ہی کچھ نہ کچھ تحقیق کر چکے ہیں۔ ان میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا ملالہ فنڈ بھی شامل ہے جس نے نومبر 2020 میں اس موضوع پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔
اس رپورٹ کی بنیاد پاکستان کے چاروں صوبوں میں جولائی-اگست 2020 میں کئے جانے والے ایک سروے پر رکھی گئی ہے جس میں 16 سو بالغ افراد اور 15 سو 92 بچوں نے حصہ لیا تھا۔ ان بچوں میں سے 65 فیصد لڑکے اور 35 فیصد لڑکیاں تھیں۔
سروے میں حصہ لینے والے 57 فیصد بالغ افراد کا کہنا تھا کہ انہیں کورونا کے دوران مالی مشکلات کا سامنا رہا (جس کے باعث ان میں سے کئی ایک کو اپنے بچوں کی تعلیم چھڑانا پڑی)۔ اس سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے دیہی اضلاع میں رہنے والے ایسے بچے جو کورونا کے دوران سکولوں سے نکال لیے گئے وہ اپنی تعلیم کے دوبارہ شروع ہونے کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بلوچستان کے دیہی علاقوں کی طالبات شہری علاقوں کی طالبات کی نسبت زیادہ پر امید ہیں کہ ان کا منقطع تعلیمی سلسلہ جلد ہی پھر سے چل پڑے گا۔
اس سروے میں حصہ لینے والی بہت سی طالبات کا کہنا تھا کہ والدین کی طرف سے سکول جانے کی اجازت کا نہ ملنا، تعلیمی اخراجات ادا کرنے میں مشکلات اور سکولوں میں اساتذہ اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی ان کی تعلیم کے تسلسل میں پیش آنے والی بڑی رکاوٹیں ہیں۔
نِجی سکولوں کی تنظیم آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نے بھی حال ہی میں اس حوالے سے کچھ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق ایک کروڑ 30 لاکھ ایسے بچے نومبر 2020 کے بعد سکول نہیں جا رہے جو کورونا وبا سے پہلے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ان میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔
لیکن سجاگ کے بار بار استفسار کے باوجود فیڈریشن نے یہ وضاحت نہیں کی یہ اعداد و شمار کس طرح، کب اور کس نے اکٹھے کیے ہیں۔ اسی لیے لاہور میں مقیم تعلیمی اور سماجی کارکن بیلا رضا جمیل انہیں درست نہیں مانتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اعدا و شمار سے یہ بھی واضح نہیں ہوتا کہ آیا لڑکیوں کی تعلیم عارضی طور پر منقطع ہوئی ہے یا وہ مستقلاً سکول چھوڑ چکی ہیں۔
وہ بہرحال مانتی ہیں کہ کورونا کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں نے بہت سے لوگوں کو مالی طور پر شدید متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے "کم آمدنی والے گھروں میں بہت سے ماں باپ کو بیٹوں اور بیٹیوں میں سے کسی ایک کو تعلیم دلانے کا انتخاب کرنا پڑا ہے"۔ ان کے بقول، اس انتخاب کا سامنا کرنے والے والدین نے عموماً بیٹوں کی تعلیم کو ترجیح دی ہو گی کیونکہ "بیٹیوں کی تعلیم پر پیسہ لگانا غیر اہم سمجھا جاتا ہے"۔
بیلا رضا جمیل کے بقول حکومت اس تعلیمی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے جن میں سب سے اہم احساس ایجوکیشن پروگرام ہے جس کے تحت لڑکیوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی وظائف دیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر والدین کو ایسے وظائف کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ "ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرنا بہت ضروری ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں ان سے مستفید ہو سکیں"۔
تاریخ اشاعت 4 اکتوبر 2021