پنجاب کے تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کو گلگت بلتستان میں سیاحت کا سیزن کہا جاتا ہے لیکن رواں سال ان چھٹیوں میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نصف سے سے بھی کم ہے۔
گلگت کی وادی ہنزہ میں ایک ہوٹل کے مالک انعام کریم نومی بتاتے ہیں کہ بے وقت بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ، فلیش فلڈ اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے علاقے میں سیاحت کی صنعت متاثر ہوئی ہے۔
رواں سال جولائی اور اگست کے اوائل میں یہاں لینڈ سلائیڈنگ کے دو بڑے واقعات میں دو اور سکردو میں چار لوگ ہلاک ہو گئے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے 10 مرتبہ مختلف سڑکیں چھ گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت کے لیے بند رہیں۔ جولائی کے آخری ہفتے میں چلاس اور گلگت کو ملانے والی سڑک تتہ پانی دو دن اور کوہستان کے مقام پر سڑک 24 گھنٹے بند رہی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق رواں سال جون سے اگست کے پہلے ہفتے تک ڈیڑھ کلومیٹر سڑک کو نقصان پہنچا۔
گلگت بلتستان ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کوثر حسین کہتے ہیں کہ اس وقت فیری میڈوس جانے والے راستے 10 دن سے بند ہیں جس سے سیاحتی صنعت کو روزانہ اندازاً 50 لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر ظہور الہیٰ کے بقول دو سال قبل جولائی اور اگست کے مہینے میں ہنزہ میں سیاحو ں کا رش ہوا کرتا تھا اور ہوٹل بھرے ہوتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ کئی سیاح سڑک بلاک ہونے سے راستوں میں پھنس گئے اور واپس چلے گئے۔
"ہنزہ میں 80 رجسٹرڈ اور چند غیر رجسٹرڈ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس ہیں۔ رواں سیزن میں کسی نے بھی اچھا کاروبار نہیں کیا۔"
کوثر حسین نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے 10 اضلاع میں مجموعی طور پر دو ہزار رجسٹرڈ ہوٹل ہیں۔ غیر رجسٹرڈ ان کے علاوہ ہیں۔ یہاں کے عوام کا 60 فیصد روزگار سیاحت سے وابستہ ہے۔
"سیاح کے آنے پر ٹیکسی کا پہیہ چلتا ہے۔ اسی کی بدولت ریڑھی اور پھل پھول والے کا سامان بکتا اور ہوٹلوں کا کاروبار چلتا ہے۔ لوگ گلگت بلتستان میں آنا چاہتے ہیں مگر لینڈ سلائیڈنگ اور بے وقت کی بارشوں سے آنے والا سیلاب ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بارشوں کا تو کچھ نہیں ہو سکتا مگر لینڈ سلائیڈنگ کا حل تو موجود ہے۔"
سڑکوں سے آمدورفت کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے کوثر حسین کہتے ہیں کہ تتہ پانی کے مقام پر سڑک عموماً سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے بند ہو جاتی ہے۔ سیاح اور گلگت بلتستان کے لوگ یہ روڈ گرمیوں کے تین چار ماہ استعمال کرتے ہیں پھر برفباری کے باعث یہ بند ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد روایتی شاہراہ قراقرم استعمال کی جاتی ہے۔ شاہراہ قراقرم بھی لینڈ سلائیڈنگ کے سبب کوہستان کے مقام پر اکثر و بیشتر بند رہتی ہے۔
"یہ صورت حال سیاحت کی صنعت کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ گلگت ایئرپورٹ کو زیادہ فعال کیا جائے اور وہاں پاکستان کے تمام بڑے شہروں تک اور بین الاقوامی پروازیں چلائی جائیں۔"
مقامی ماحولیاتی کارکن عامر حسین کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برس میں ملکی سیاحوں نے بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ کیا۔ اس کے بعد یہاں تعمیرات میں بڑی سرمایہ کاری کی گئی۔ مگر یہ اقدامات ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس علاقے میں روایتی تعمیرات پتھر، گارے اور لکڑی سے ہوتی ہیں۔ پتھر مقامی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ لکڑی جنگل کے بجائے اپنے اگائے گئے درخت سے حاصل کی جاتی ہے۔
" ان کا کہنا تھا کہ یہ ماحول دوست تعمیرات مضبوط اور دیرپا ہوتی ہیں۔ مگر اب زیادہ تر سریا اور سیمنٹ استعمال ہو رہا ہے جو ماحول دوست نہیں ہے۔"
ان کے مطابق علاقے میں کنکریٹ کا جنگل پھیل رہا ہے اور قدرتی جنگل سکڑ رہا ہے۔"ماحولیاتی تبدیلی کی ایک اہم وجہ جنگلات میں کمی اور وسیع وعریض چرا گاہوں میں حد سے زیادہ مال مویشی کا چرنا ہے۔"
عامر حسین کہتے ہیں کہ سڑکوں کا جال بچھانے کا کام سوچے سمجھے بغیر کیا گیا ہے۔ سڑک تعمیر کرنے کے لیے دھماکے کیے گئے جس سے پہاڑ اور چٹانیں کمزور ہوئیں۔ اس لیے بارش ہونے پر زیادہ لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پانی کی گزرگاہوں اور نالوں پر عمارتیں بنا دی گئی ہیں۔ گلگت بلتستان میں مون سون کے دوران کم بارشیں ہوتی ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کے باعث اب ہونے لگی ہیں مگر پانی کی قدرتی گزرگاہوں میں یہ عمارتیں رکاوٹ ڈالتی ہیں جس سے یہ تباہی مچاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر یاسر حسین کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ماحولیاتی قوانین موجود ہیں اور تعمیرات کے دوران ان پر عمل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں بہت بڑا رقبہ محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے جس پر تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی منصوبے نہیں ہوں گے تو سیاحت ترقی نہیں کر پائے گی اس لیے حکومت انتہائی احتیاط سے اور ماحولیات کو مدنظر رکھ کر منصوبے ترتیب دیتی ہے۔ پاک چین معاہدے کے تحت تتہ پانی روڈ اور کوہستان کے مقام پر سڑک کو بہتر کیا جائے گا اور سرنگیں بنائی جائیں گی جس سے موجودہ مسائل ختم ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
وسے تہ تھر نہ تہ بر: محکمہ سیاحت کی توجہ کے طالب تھر پارکر کے آٹھ تاریخی مقامات
یاسر کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے دھماکوں یا بلاسٹنگ سے پہاڑ اور چٹانیں کمزور ہوئی ہیں جس سے لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے مگر کچھ عرصے میں یہ ختم ہو جائے گی۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند برس کے دوران اندرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد گلگت بلتستان آ رہی ہے۔ اس سے پہلے غیر ملکی سیاح زیادہ تعداد میں آتے تھے۔ غیر ملکی یا کوڑا کرکٹ کھلے آسمان تلے، سڑک پر یا پارکوں میں نہیں پھینکتے مگر ملکی سیاح ایسی کوئی احتیاط نہیں کرتے۔ اب جگہ جگہ یہاں تک کہ پانی میں بھی پلاسٹک اور کوڑا ملے گا۔ پلاسٹک آسانی سے ختم نہیں ہوتا اور ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔
عامر حسین کے مطابق اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان میں سکون، بہتر موسم اورسبزے کی تلاش میں آئے ہیں۔ مگر اب یہ مری کا مال روڈ اور ایبٹ آباد کا مانسہرہ روڈ بنتا جا رہا جہاں پرسکون، بہترین موسم اور ماحول دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی گلگت بلتستان جائے تو کیوں جائے۔
تاریخ اشاعت 12 اگست 2023