گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں تقریباً 71 لاکھ افراد ہر سال کسی نہ کسی طرح ایسی قدرتی آفات سے متاثر ہوتے ہیں جو کسی گلیشیئر کے پگھلنے یا پھٹنے کے نتیجے میں شروع ہوتی ہیں۔
یہ انکشاف فہد بشیر بنگش نے کیا ہے جو ان آفات کے نقصانات کو محدود رکھنے کی غرض سے شروع کیے گئے گلاف-دو (GLOF-II) نامی منصوبے کے صوبائی کوارڈینیٹر ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر تقریباً تین ہزار گلیشیئر جھیلیں ہیں۔ ان میں سے 33 ایسی ہیں جن میں پائی جانے والی برف مقامی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی وقت بھی پھٹ کر بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کے تین علاقوں، مڈک لشٹ، ریشون اور آرکاری، ضلع اپردیر کے دو علاقوں، کمراٹ اور بیاڑ، ضلع سوات کے تین علاقوں، مٹلتان، مانکیال اور اتروڑ، ضلع اپر کوہستان کے ایک علاقے کندیاں اور گلگت بلتستان کے سات علاقوں میں گلیشیئر سے بننے والی جھیلیں موجود ہیں۔ ان جھیلوں کے اردگرد رہنے والے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے حکومت نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی مدد سے 2011 میں گلاف-ایک نامی پروگرام شروع کیا۔ 2017 میں اس پروگرام کے دوسرے مرحلے، گلاف-دو، کا آغاز ہوا جس کے تحت نہ صرف قدرتی آفات کے بارے میں وقت سے پہلے آگاہی دینے کا نظام (early warning system) بنایا گیا ہے بلکہ مختلف جھیلوں اور دریاؤں پر موسم کا اندازہ لگانے، بارش کی مقدار ماپنے اور پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے والے آلات بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔
اس نظام کی مدد سے خیبرپختونخوا کی پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے 19 جون 2022 کو انتباہ جاری کیا کہ رواں موسمِ گرما میں صوبے کے کئی علاقوں میں شدید بارشیں پڑنے، ندی نالوں میں سیلاب آنے اور پہاڑوں سے تودے گرنے کا خطرہ ہے۔ اس انتباہ کے پیشِ نظر متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ مقامی آبادیوں کو ان موسمی آفات سے لاحق خطروں سے بچانے کے اقدامات کریں اور سیاحوں کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں جانے سے اجتناب کریں جہاں پہاڑی تودے گرنے یا سیلاب آنے کا خطرہ ہو۔
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
ضلع اپردیر کے علاقے بیاڑ سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ اکرام اللہ ایک مقامی سرکاری کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں 2015 سے اب تک کئی مرتبہ سیلاب آ چکا ہے جس میں بڑے پیمانے پر مکانوں، زرعی زمینوں، پلوں، سڑکوں اور سکولوں کو نقصان پہنچا ہے اور پانچ لوگ ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق چند سال پہلے اسی ضلعے میں واقع شندور جھیل کا گلیشیئر پھٹنے سے بھی مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران انہیں احساس ہوا کہ ان قدرتی آفات کی دو اہم وجوہات مقامی جنگلات کی کٹائی اور ان کے علاقے میں رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے بنائی گئی عمارات کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اپر دیر کے علاقے شرینگل میں قائم شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کے چیئرمین پروفیسر جمعہ محمد بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافے کے باعث تعمیرات اور ایندھن کے لیے درکار لکڑی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے جسے جنگلات سے درخت کاٹ کر پورا کیا جا رہا ہے۔ لیکن، ان کے مطابق، "جب جنگلات سے درخت کاٹے جاتے ہیں تو ان میں جمع شدہ کاربن فضا میں خارج ہو کر فضائی حدت میں اضافہ کر دیتی ہے جس سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور گلیشیئر پگھلنے لگتے ہیں"۔ یہی نہیں بلکہ "جب گلیشیئروں کی برف پگھل کر سیلاب بنتی ہے تو وہ اپنے ساتھ پہاڑی تودوں کو بھی بہا لے جاتی ہے جو انسانی آبادی پر گر کر جانی و مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں"۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ پگھلنے والے گلیشیئر سے ہونے والے نقصان کی نسبت اچانک پھٹ پڑنے والے گلیشیئر سے ہونے والی تباہی کا حجم کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پہاڑی تودے غیر متوقع طور پر اور شدید طریقے سے حرکت میں آتے ہیں۔
ان کے مطابق اپردیر میں ایسے واقعات ابھی کم ہو رہے ہیں کیونکہ یہاں "جنگلات ابھی بھی ایک وسیع علاقے پر موجود ہیں جن کے درخت نہ صرف سیلابی پانی کی رفتار میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ اس پانی کے ساتھ بہنے والے پہاڑی تودوں کو بھی بڑی حد تک روک لیتے ہیں"۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ "اگر جنگلوں سے درختوں کی کٹائی پر قابو نہ پایا گیا تو اس علاقے میں بھی گلیشیئروں کا پھٹنا عام ہو جائے گا جس سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے"۔
زمینی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خدشات بہت جلد عملی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گلگت میں زمین کی ملکیت پر تشدد بھرے جھگڑوں میں اضافہ: 'ان تنازعات سے ایسے فسادات پھوٹ سکتے ہیں جنہیں روکنا آسان نہیں ہو گا'۔
اگرچہ صوبائی محکمہ جنگلات کے اہل کاروں کے پاس ایسے کوئی اعدادوشمار موجود نہیں جن سے پتہ چل سکے کہ اپر دیر میں جنگلات کا کل رقبہ کتنا ہے اور حالیہ سالوں میں اس میں کتنی کمی آئی ہے لیکن مقامی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ مقامی جنگل چھدرے ہوتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔
دیر شہر سے جنوب کی جانب واقع کوچکل نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے 62 سالہ مظفر خان کہتے ہیں کہ تین دہائیاں پہلے جب وہ جوان تھے تو سردیوں میں ان کے علاقے میں کم از کم تین سے چار فٹ برف پڑتی تھی۔ ان کے مطابق اُس زمانے میں "سال کے چھ مہینے اس قدر سرد ہوتے تھے کہ یہاں نظام زندگی مفلوج ہو جاتا تھا"۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ "فروری اور مارچ میں ہی یہاں میدانی علاقوں جیسی گرمی پڑنے لگتی ہے"۔
محکمہ موسمیات کا حالیہ ریکارڈ ان کی بات کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق اِس سال 18 مارچ کو اپردیر اور لوئر دیر کے دونوں اضلاع کا اوسط درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو اس علاقے میں اس مہینے کے دوران پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اگرچہ 31 مارچ 2018 کو بھی یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا تھا لیکن اس سے پہلے 1967 سے لے کر 2010 تک اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ مقامی درجہ حرارت کبھی بھی 23.9 ڈگری سینٹی گریڈ سے نہیں بڑھا۔
تاریخ اشاعت 24 جون 2022