نذیراں بی بی اپنے دس سالہ بیٹے کا ہاتھ پکڑے مایوسی کی تصویر بنی فیصل آباد کے ہاکی سٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے مرکز کے باہر کھڑی ہیں۔
وہ اپنے خاوند کے شناختی کارڈ پر مفت آٹا لینے کے لیےآئی ہیں لیکن انہیں یہ کہہ کر آٹا نہیں دیا جا رہا کہ جس فرد کا شناختی کارڈ ہے اسی کو آٹا ملے گا۔
نذیراں کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر مزدوری کرتے ہیں۔ اگر وہ آٹا لینے آئیں تو انہیں ایک دن کی اجرت سے محروم ہونا پڑے گا۔
"میں نو والے پھاٹک سے ڈیڑھ سو روپے کرایہ خرچ کر کے یہاں آئی ہوں اور اب واپسی پر پھر ڈیڑھ سو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ میرے پاس یہی پیسے تھے، سوچا تھا کہ آٹا مل جائے گا تو عید تک گزارا ہو جائے گا۔"
جڑانوالہ روڈ پر ایک کچی بستی سے آنے والی بیوہ خاتون عصمت بی بی کو آٹا مرکز پر بتایا گیا کہ وہ مفت آٹے کا دوسرا تھیلا لینے کی اہل نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں ہر کاؤںٹر سے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ وہ ایک تھیلا لے چکی ہیں اور اگر مزید آٹا لینا چاہتی ہیں تو پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر جا کر اپنی رجسٹریشن کرائیں۔
''میرے شوہر وفات پا چکے ہیں اور میں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے تین بچوں کو پالتی ہوں۔ میرے جیسے لوگ ہی مفت آٹے کے حق دار ہیں اور مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ میں دوسرا تھیلا نہیں لے سکتی۔''
محلہ محمد آباد کے جمیل احمد ان لوگوں میں شامل ہیں جو مفت آٹا لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مفت آٹا دے کر اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن آٹا تقسیم کرنے کے مراکز زیادہ ہونے چاہئیں۔
"میں موٹرسائیکلوں کو پنکچر لگانے کا کام کرتا ہوں۔ میں علی الصبح ہی یہاں آ گیا تھا اور اب آٹے کے دو تھیلے لے کر جار ہا ہوں۔ رش میں آٹا لینا قدرے مشکل کام ہے لیکن کچھ فائدہ تو ہوا۔''
فیصل آباد میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ 11 لاکھ افراد کو فی کس 30 کلوگرام آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا
فیصل آباد میں مفت آٹے کی تقسیم کے مراکز پر رش اور بدنظمی کے باعث اب تک تین شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں نڑوالا روڈ کے سردار محمد، دھنولہ کے اصغر علی اور جڑانوالہ کی مجیداں بی بی شامل ہیں۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ آٹے کی تقسیم کے دوران کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔
ضلعی انتظامیہ کے ڈائریکٹر اطلاعات محمد اویس عابد کے مطابق "اصغر علی کا انتقال آٹا لے کر واپس گھر جاتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے ہوا جبکہ مجیداں بی بی بھی آٹا لے گئی تھیں اور ان کا انتقال بھی گھر پر ہی ہوا۔''
حکام کے مطابق سردار محمد کا انتقال بھی کلیم شہید پارک میں مفت آٹے کی تقسیم کے مرکز سے کچھ فاصلے پر ہوا تھا۔
ہاکی سٹیڈیم میں آٹا مرکز کے انچارج اور ڈپٹی کمشنر دفتر کے ایڈمن افسر ریاض انجم بتاتے ہیں کہ ابتدائی دنوں میں آٹا لینے کے لیے آنے والوں کا رش بہت زیادہ تھا اس لیے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
"پہلے دو ہفتوں میں یہاں یومیہ 25 سے 30 ہزار افراد آٹا لینے آ رہے تھے اب یہ تعداد کم ہو کر یومیہ پانچ سے چھ ہزار تک رہ گئی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق پہلے صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو ہی مفت آٹا دیا جا رہا تھا لیکن اب ان لوگوں کو بھی ایک ایک تھیلہ دیا جا رہا ہے جو اس پروگرام میں رجسٹر نہیں ہیں۔
"ایسے افراد کو آٹے کا ایک تھیلہ فراہم کرنے کے بعد یہ بتا دیا جاتا ہے کہ وہ مزید دو تھیلے حاصل کرنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اپنی رجسٹریشن کرائیں لیکن اس کے باوجود لوگ بار بار یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں۔"
پنجاب حکومت نے رمضان پیکیج کے تحت فیصل آباد میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ 11 لاکھ افراد کو فی کس 30 کلوگرام آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فیصل آباد میں مفت آٹے کی تقسیم کے مراکز پر رش اور بدنظمی کے باعث اب تک تین شہری جاں بحق ہو چکے ہیں
اس سلسلے میں مفت آٹے کی تقسیم کے لئے 23 مراکز قائم کر کے گریڈ 18 کے افسروں سے لے کر درجہ چہارم کے نائب قاصد عہدے کے 700 سے زیادہ سرکاری ملازمین تعینات کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ سکیورٹی ڈیوٹی پر ایک ہزار سے زیادہ افراد تعینات ہیں جن میں پولیس ملازمین، سول ڈیفنس کے رضا کار اور پارکنگ کمپنی کے ملازمین شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر وقار یوسف نے 'سجاگ 'کو بتایا کہ مفت آٹا سکیم کے تحت فیصل آباد میں 10 کلو والے 36 لاکھ تھیلے فراہم کیے جانا ہیں اور چھ اپریل تک 17 لاکھ تھیلے تقسیم کئے جا چکے تھے۔
"فیصل آباد میں مفت آٹے کی فراہمی کے لئے ڈسٹرکٹ فوڈ ڈیپارٹمنٹ سے ضلع کی 48 فلور ملوں کو اب تک 50 کلو گرام والی گندم کی تین لاکھ 25 ہزار بوریاں فراہم کی جا چکی ہیں اور 25 اپریل تک مزید ایک لاکھ 75 ہزار بوری گندم اس مد میں ریلیز کی جائے گی۔ "
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کے مطابق مفت آٹا سکیم کے علاوہ ضلعے میں سستے آٹے کے دس کلو والے 35 ہزار تھیلے یومیہ فراہم کئے جا رہے ہیں جو مارکیٹ میں 1158 روپے فی تھیلہ فروخت ہو رہا ہے۔
تاہم اتنی بڑی مقدار میں شہریوں کو مفت اور سبسڈائزڈ آٹے کی فراہمی کے باوجود عام مارکیٹ میں آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔
رمضان شروع ہو نے سے پہلے 15 کلو فائن آٹے کے تھیلے کی قیمت 1650 روپے تھی جو کہ مفت آٹا سکیم کے بعد بڑھ کر2200 روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں گندم کی قلت تھی اس لیے فائن آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
فیصل آباد میں مفت آٹے کی تقسیم کے لئے 23 مراکز قائم کئے گئے ہیں
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے گندم آنے کے بعد مارکیٹ میں فائن آٹے کی قیمت میں کمی شروع ہو گئی ہے۔ جیسے ہی فیصل آباد میں کٹائی شروع ہو گی آٹے کی قیمت مزید کم ہو جائے گی۔
فیصل آباد فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری شفیق انجم بتاتے ہیں کہ حکومت نے مارکیٹ میں 1158 روپے والے دس کلو گرام آٹے کے تھیلے کی فراہمی 31 مارچ سے بند کر دی ہے۔
"مارکیٹ میں گندم کی قیمت پانچ ہزار روپے فی من تک پہنچ چکی ہے اور فلور ملز وہی گندم خرید کر اس کا آٹا مارکیٹ میں فراہم کر رہی ہیں جس کا ریٹ 150 سے 160 روپے فی کلو گرام تک ہے۔"
ان کا کہنا تھا، چونکہ اس سال گندم کی پیداوار کم رہنے کا اندیشہ ہے اس لیے ریٹ مسلسل بڑھ رہا ہے اور نئی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد بھی آٹے کا ریٹ کم ہونے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔
''مفت آٹا سکیم سے زیادہ تر وہی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔ ایسے حالات میں سفید پوش طبقہ بہت مشکلات کا شکار ہے جو پہلے عام دکانوں سے سبسڈائز سرکاری آٹا خرید کر گزارا کر لیتا تھا۔''
چوہدری شفیق نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں جب نئی فصل آنے سے قبل مارکیٹ میں گندم کا ریٹ بڑھنا شروع ہوتا تھا تو محکمہ خوراک فلور ملز کو گندم کی فراہمی شروع کر دیتا تھا لیکن اس مرتبہ گندم صرف مفت آٹا سکیم کے لیے جاری کی جا رہی ہے جس سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ میں سستے آٹے کے حصول کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟
گورننس میں شفافیت اور بہتری کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر فیصل منظور کہتے ہیں کہ آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قیمتوں کی نگرانی کرنے والی ضلعی انتظامیہ مفت آٹے کی تقسیم میں مصروف ہے اور دکاندار من مانی کر رہے ہیں۔
"ہر یونین کونسل میں لوکل گورنمنٹ کا دفتر اور عملہ موجود ہے۔ دیہات میں نمبردار اور پٹواریوں کے ذریعے بھی مفت آٹا تقسیم کیا جا سکتا تھا۔ تقسیم کے مراکز کم ہیں اور آٹا لینے والوں تعداد بہت زیادہ ہے جس سے دھکم پیل اور ہلاکتوں کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔''
ان کا کہنا ہے کہ رمضان کے مہینے میں حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو رمضان کی آمد سے قبل ہی بینکوں کے ذریعے نقد رقم ادا کر دیتی۔ اس طرح مفت آٹا سکیم کے لیے ڈسٹری بیوشن مراکز اور انتظامات کی مد میں ہونے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کی بچت ہو سکتی تھی اور سرکاری امور کی انجام دہی میں آنے والے خلل سے بھی بچا جا سکتا تھا۔"
تاریخ اشاعت 8 اپریل 2023