لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ کے مہتمم سرفراز نعیمی 2009 میں یہاں ہونے والے دہشت گردی کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تحریکِ طالبان پاکستان نامی عسکری تنظیم نے کہا کہ اس کی وجہ ان کا وہ فتویٰ بنا ہے جس میں انہوں نے خودکش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
سنی بریلوی فرقے سے منسلک اس مدرسے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب طلبا پڑھتے ہیں اور اس کا شمار لاہور کی قدیم ترین اسلامی درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ حالیہ موسمِ خزاں کی ایک دھندلی سہ پہر کو سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک نوجوان دو پرجوش افراد کے ہمراہ اس کے بلند و بالا دروازے سے داخل ہو کر استقبالیے پر بیٹھے ایک باریش شخص کو اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ایک "قادیانی" ہے اور یہاں اسلام قبول کرنے آیا ہے۔
'قادیانی' کا لفظ احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے تحقیراً استعمال ہوتا ہے۔ اس مذہب کو چھوڑ کر مسلمان ہونے کے خواہش مند شخص کا تعلق لاہور کے نواحی شہر نارووال سے ہے۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلیِ مذہب اس کا اپنا فیصلہ ہے اگرچہ اس کے بقول اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے اس کے مسلمان دوستوں اور نارووال کے ایک مقامی مبلغ نے اس کی "رہنمائی" کی ہے۔
جامعہ نعیمیہ کا عملہ اسے بتاتا ہے کہ قبولِ اسلام کی سند حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی تصویر، اپنے شناختی کارڈ کی نقل اور ایک سٹامپ پیپر پر لکھا گیا ایک ایسا حلف نامہ فراہم کرنا ہو گا جس پر دو گواہوں کے دستخطوں کے ساتھ واضح طور پر درج ہو کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا مذہب ترک کر کے مسلمان ہو رہا ہے۔
جامعہ نعیمیہ کے مہتمم راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ یہ درس گاہ 1970 سے ایسے تمام لوگوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھ رہی ہے جو یہاں اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہر سال تین سو کے لگ بھگ غیر مسلم ان کے ہاں اسلام قبول کرتے ہیں جنہیں تبدیلیِ مذہب کی سند جاری کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کہیں جبراً تو ایسا نہیں کر رہے ہیں۔
قبولِ اسلام کی سندیں کتنی مستند؟
پچھلے چند ہفتوں میں سجاگ نے قبولِ اسلام کی 27 مختلف اسناد جمع کی ہیں۔ ان میں سے کچھ جامعہ نعیمیہ کی طرح کے اسلامی مدارس نے جاری کی ہیں، کچھ مذہبی جماعتوں اور انجمنوں نے اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے۔ ان میں جامعہ دار الحفاظ فیصل آباد، جامعہ رضویہ مظہر اسلام، جامعہ اسلامیہ کراچی، جامعہ دارالعلوم کریمیہ سندھ اور دارالافتاء اہلسنت پنجاب جیسے تعلیمی اور مذہبی ادارے، پاکستان سنی تحریک اور انجمن غلامانِ مصطفیٰ پاکستان جیسے سیاسی گروہ اور حقوق الناس ویلفیئر فاؤنڈیشن اور بزمِ افادات خلیل پاکستان جیسی سماجی تنظیمیں شامل ہیں۔
ان سندوں کے مندرجات بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
اگرچہ راغب نعیمی تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر میں خامیاں موجود ہیں جیسا کہ ان میں اسلام قبول کرنے والے شخص کا شناختی کارڈ نمبر یا اس کی تصویر شامل نہیں لیکن اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ "قبولِ اسلام کی سند کوئی شخص بھی جاری کر سکتا ہے" کیونکہ، ان کے مطابق، "اسلامی شریعت ہر مسلمان کو پابند بناتی ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے خواہش مند شخص کی مدد کرے"۔
دوسری طرف فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مسیحی سماجی کارکن سنیل ملک کہتے ہیں کہ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو یہ طے کر سکے کہ مذہب کی تبدیلی کی سند کون جاری کر سکتا ہے، اس کے لیے کس قسم کی شہادتیں اور دستاویزات چاہئیں اور اس سند میں کیا لکھا ہونا چاہیے۔
سجاگ کے پاس کم از کم تین ایسی سندیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے اجرا کے لیے ایک یکساں قومی معیار موجود نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم پاکستانیوں کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ نچلی سطح کی عدالتوں نے ان تینوں سندوں کو درست تسلیم کیا تھا لیکن اعلیٰ عدالتوں نے بعد میں انہیں یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کے تحت مسلمان قرار دیے گئے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور زور زبردستی سے اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
لاہور میں کام کرنے والی قانون دان سمیرا ملک ان میں سے ایک مقدمے میں وکیل رہ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نچلی سطح کی عدالتوں کو مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق بہت سی سماجی اور قانونی باریکیوں کے بارے میں بہت کم آگاہی ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے آج کل وہ وکلا اور سیشن ججوں کے لیے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کر رہی ہیں جن میں ان کا زور اس بات پر ہے کہ تبدیلیِ مذہب کے مقدمات میں پیش کی جانے والی ہر سند کو بغیر کسی تفتیش اور تصدیق کے درست نہ مانا جائے۔
سُجاگ کی اپنی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی کم از کم چار کمسن مسیحی لڑکیوں -- فرح شاہین، شارلٹ جاوید، کرن مسیح اور مائرہ شہباز – کو ایسی ہی اسناد کی بنیاد پر پولیس اور مقامی عدالتوں نے انہی لوگوں کی تحویل میں دے دیا تھا جنہوں نے انہیں اغوا کر کے زبردستی اسلام قبول کرایا تھا۔ لیکن بعدازاں اعلیٰ سطح کی عدالتی کارروائیوں میں ان کے لواحقین یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کا مذہب جبراً تبدیل کرایا گیا تھا۔ چنانچہ بالآخر انہیں ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا۔
گوجرانوالا سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ شمع بی بی کے ساتھ پیش آنے والے حالات بھی ثابت کرتے ہیں کہ محض قبولِ اسلام کی سند پر ایسے مقدمات کا فیصلہ کرنا کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔
پچھلے سال گرمیوں میں وہ ایک نجی بینک میں ملازمت کر رہی تھیں جب محمد عمران ورک نامی ایک شخص بیمہ پالیسی کے بارے میں معلومات لینے کے لیے ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کی اہلیہ رخسانہ بھی بیمہ پالیسی خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے اس لیے اس نے تجویز پیش کی کہ متعلقہ کاغذات پر دستخط لینے کے لیے شمع اس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئیں۔ چونکہ عمران شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا اس لیے وہ اس کے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اپنے گھر لے جانے کے بجائے وہ انہیں کھیتوں میں لے گیا جہاں اس نے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ اس کے ایک ساتھی نے اس پورے عمل کی ویڈیو بنائی۔ اگلے کئی ہفتے اس ویڈیو کی بنیاد پر وہ انہیں بلیک میل کر کے ان سے مزید زیادتی کرتا رہا۔ نتیجتاً وہ حاملہ ہو گئیں۔
اکتوبر 2020 میں عمران نے شمع کو ان کے گھر سے اغوا کر کے اپنے گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران اس نے ان کے قبولِ اسلام کی سند اور ان کے ساتھ نکاح کا ثبوت بھی بنوا لیا (حالانکہ وہ کہتی ہیں کہ نہ تو انہوں نے اسلام قبول کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ نکاح کیا)۔
جب شمع کو قید میں پڑے تین روز گزر گئے تو عمران کی بیوی رخسانہ نے فرار ہونے میں ان کی مدد کی چنانچہ وہ بھاگ کر اپنے بہنوئی کے گھر پہنچ گئیں۔ لیکن 16 اور 17 اکتوبر 2020 کی درمیانی رات عمران مسلح ہو کر چند دیگر افراد کے ہمراہ ان کے گھر آیا اور ان پر شدید تشدد کر کے انہیں دوبارہ اپنے گھر لے گیا۔ اس تشدد کی وجہ سے ان کا ٹخنہ ٹوٹ گیا (جس کی تصدیق 31 اکتوبر 2020 کو جاری ہونے والی ان کی سرکاری طبی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے)۔
ابتدائی طور پر ان کے اغوا کا مقدمہ گوجرانوالہ کی ایک مقامی عدالت میں چلا جس نے قبولِ اسلام کی سند اور نکاح نامے کو درست مانتے ہوئے عمران اور شمع کو میاں بیوی تسلیم کر لیا۔ لیکن ان کے خاندان والوں نے اس فیصلے کو فوراً لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا جہاں 29 اکتوبر 2020 کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں انہوں نے کہا کہ ''میرے پیٹ میں عمران کا بچہ ہے لیکن نہ تو میں عمران کی بیوی ہوں اور نہ ہی میں مسلمان ہوں"۔
تاہم راغب نعیمی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح کے زیادہ تر مقدمات میں "کوئی حقیقت نہیں ہوتی" بلکہ، ان کے مطابق، بہت سی مسیحی لڑکیاں مسلمان مردوں سے شادی کرنے کے لیے اپنے گھر سے بھاگ جاتی ہیں جبکہ ان کے خاندان والے اپنی عزت بچانے کے لیے جبری تبدیلیِ مذہب کی جھوٹی شکایات درج کرا دیتے ہیں۔
اس کے برعکس انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگ ایسے بہت سے واقعات کے بارے میں جانتے ہیں جن میں اتنی کم عمر لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے کہ انہیں ابھی اپنے اچھے برے کی تمیز بھی نہیں تھی۔
مذہبی حقوق کا عدم تحفظ
مارچ 2019 میں صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں رینا اور روینا نامی دو ہندو بہنوں کے قبولِ اسلام اور مسلمان مردوں سے شادی کا معاملہ سامنے آیا جس کے نتیجے میں پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا کام صوبے میں ایسے واقعات کی تحقیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی نے بعد ازاں ایک ذیلی کمیٹی بنائی جس کے ذمے ایک ایسا مسودہِ قانون بنانے کا کام لگایا گیا جو جبری تبدیلیِ مذہب کے واقعات کی روک تھام کر سکے۔ اس ذیلی کمیٹی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سکندر میندھرو، پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر رانا مقبول، پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر لال چند ملہی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر محمد علی سیف شامل تھے۔
اس کمیٹی کے تیار کردہ مسودے میں:
• آزادانہ ماحول میں برضا و رغبت مذہب تبدیل کرنے والے فرد کی کم از کم عمر کا تعین کیا گیا۔
• تبدیلی مذہب کی تصدیق کرنے اور قبول اسلام کی سند جاری کرنے کا اختیار سیشن جج کو دینے کی تجویز دی گئی۔
• تبدیلی مذہب کے خواہاں شخص کو اختیار دیا گیا کہ وہ ایک سیشن جج کے پاس اپنا مذہب چھوڑنے کی درخواست جمع کرانے کے بعد 90 دن تک اپنے فیصلے پر غور و فکر کر سکتا ہے۔
• جبر، دھونس اور طاقت سے کی جانے والی شادی کو آزادانہ سوچ اور رضامندی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
• کسی بچے/بچی کا مذہب جبراً تبدیل کرانے میں ملوث لوگوں کے لیے کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی۔
لیکن جب یہ مسودہ بحث مباحثے کے لیے سینیٹ میں بھیجا گیا تو وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سال اگست میں انہوں نے اس پر غور و فکر کے لیے اسلام آباد میں ایک اجلاس بھی بلایا جس میں صرف مسلمان عُلما کو مدعو کیا گیا تھا۔ انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق ان عُلما نے متفقہ طور پر اس قانون کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
راغب نعیمی بھی اس مجوزہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی منظوری سے غیرمسلموں کے لیے اسلام قبول کرنا قریباً ناممکن ہو جائے گا۔ وہ تبدیلیِ مذہب کی توثیق کے لیے تجویز کی گئی 90 دن کی مدت کے بھی مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ "مذہب تبدیل کرنے والے لوگوں کو عام طور پر ان کے خاندانوں کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس مدت کے دوران یہ دباؤ اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ ہی تبدیل کر سکتے ہیں"۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بعد ازاں اسی طرح کا ایک اجلاس صوبہ سندھ میں بھی منعقد کیا جہاں ہندو لڑکیوں کو مسلمان کر کے ان کے ساتھ شادی کرنے کے واقعات عام ہیں۔ اس اجلاس کی سربراہی مبینہ طور پر میاں عبدالحق عرف میاں مٹھا نامی ایک سیاسی اور مذہبی شخصیت نے کی جن کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام ہے کہ وہ کم عمر لڑکیوں کے اغوا اور انہیں جبراً مسلمان بنانے میں ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
انتظامی غفلت یا مذہبی تعصب: نادرا ریکارڈ میں مسیحیوں کے مذہب کی تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں؟
میاں مٹھا نے مسودہ قانون کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس پر 42 اعتراضات کیے۔ ان کا ایک اہم اعتراض یہ تھا کہ اس میں جبری تبدیلیِ مذہب میں معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے جو انہیں قابلِ قبول نہیں۔
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ مجوزہ قانون پر مشاورت کا یہ طریقہِ کار درست نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس پر متوازن مشاورت چاہتی ہے تو اس کا مسودہ مسلمان عُلما کی طرح مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی دکھایا جانا چاہیے۔
سینیٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ غیر مسلم سینیٹروں نے بھی مسلمانوں کی طرف سے اس مسودے کو مسترد کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ "اگر مسلم سینیٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسودہ شریعت کے خلاف ہے تو وہ اس میں ترمیم کر کے اسے شریعت کے مطابق بنا سکتے ہیں لیکن اسے مسترد نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہو گا"۔
لیکن جب انہوں نے چیئرمین سینیٹ سےکہا کہ وہ اس مسودے پر ووٹنگ کرائیں تو انہیں جواب ملا کہ ایسا کرنا "عوامی مفاد" میں نہیں۔ چیئرمین نے یہ بھی قرار دیا کہ اس مسودے پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
سندھ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن پشپا کماری اس صورتِ حال پر مایوسی اور افسوس کا اظہار کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے پارلیمان کے ارکان "انتہا پسند عناصر سے خوفزدہ ہیں"۔
سندھ ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لال چند ملہی کو بھی شکایت ہے کہ پارلیمان میں ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو ہونے کی بنا پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو درپیش مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار نہیں کرسکتے تو ان کے سینیٹر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
تاریخ اشاعت 6 نومبر 2021