بہتے پانی پہ بنیادِ مکاں رکھ دی: 'سوات میں 2010 کے سیلاب میں تباہ ہونے والی عمارتیں دوبارہ اسی جگہ بن گئیں جہاں انہیں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا'۔

postImg

عمر باچا

postImg

بہتے پانی پہ بنیادِ مکاں رکھ دی: 'سوات میں 2010 کے سیلاب میں تباہ ہونے والی عمارتیں دوبارہ اسی جگہ بن گئیں جہاں انہیں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا'۔

عمر باچا

گُل بَر کا 60 گھروں پر مشتمل پورا محلہ گزشتہ ماہ کے سیلاب میں مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سیلابی پانی نے ان کے محلے کے 14 مکان تو مکمل طور پر ملیامیٹ کر دیے ہیں اور باقی سب کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جبکہ زیادہ تر مکانوں میں موجود سامان بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اب اپنے سسرال کے ہاں رہ رہے ہیں۔ انکے دیگر محلے دار بھی اپنے اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ 

سیلاب سے پہلے وہ خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع سوات کے قصبے مدین کے اینگر آباد نامی محلے میں رہتے تھے جو بِشی گرام نامی نالے کے بلکل کنارے پر واقع ہے۔ یہ نالہ ان کے محلے سے تھوڑے فاصلے پر دریائے سوات میں شامل ہو جاتا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ان کی 44 سالہ زندگی میں انہیں دوسری بار اس نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ 2010 میں آنے والا سیلاب بھی ان کے پورے محلے کو بہا لے گیا تھا۔ اس کے باوجود، ان کے مطابق، انہوں نے اور ان کے محلے میں رہنے والے دیگر لوگوں نے عین اسی جگہ دوبارہ اپنے مکان بنا لیے تھے جہاں وہ سیلاب کا شکار ہوئے تھے۔ چنانچہ 25 اگست 2022 کو بشی گرام نالے میں جیسے ہی سیلاب آیا تو یہ سب مکان پھر سے اس کی زد میں آ گئے۔ 

گُل بَر کا کہنا ہے کہ اینگر آباد کی زمین اس کے رہائشیوں کی ملکیت ہے اس لیے 2010 کے بعد ضلعی انتظامیہ نے انہیں یہاں مکان بنانے سے نہیں روکا تھا بلکہ، ان کے مطابق، ان کے گھروں کو نالے کے پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت نے یہاں ایک حفاظتی پشتہ بھی تعمیر کر دیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اِس بار "سیلاب کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ یہ پشتہ بھی ٹوٹ گیا"۔ 

مینگورہ کے رہنے والے 39 سالہ حیدر علی بھی کہتے ہیں کہ دریائے سوات میں آنے والا سیلابی ریلا اس قدر شدید تھا کہ اس کی وجہ سے 16 کنال اراضی پر پھیلی ان کی تفریح گاہ، سوات ونڈر پارک، کا ایک بڑا حصہ تہس نہس ہو گیا حالانکہ، ان کے مطابق، یہ جگہ دریا کے کنارے سے سات سو فٹ دور تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے ساتھ آنے والا کیچڑ اُن کے جھولوں اور دوسری مشینری میں پھنس گیا ہے اور کئی دیگر آلات اور تنصیبات ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں جس سے انہیں "مجموعی طور پر چار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے"۔ 

رواں ماہ کے شروع میں وہ اپنی تفریح گاہ کی بحالی میں مصروف ہیں اور کہتے ہیں کہ حالیہ سیلاب میں تباہ ہونے والے بہت سے ہوٹلوں اور تفریحی سہولیات کے مالکان کے برعکس انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تفریح گاہ کی تعمیر کے لیے درکار محکمہ آبپاشی، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن اور مقامی پولیس کے اجازت ناموں کے ساتھ ساتھ اس کی زمین کے کرائے کے معاہدے جیسی تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں۔ 

مقامی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے سپرنٹنڈنٹ فضل محمد ان کی بات کی توثیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سوات ونڈر پارک ایک نجی زمین پر قائم کیا گیا ہے جس کی ملکیت کا ریکارڈ صوبائی محکمہ مال کے پاس موجود ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے ضروری تمام حکومتی اجازت نامے بھی حاصل کیے گئے ہیں۔ 

اسی لیے حیدرعلی کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی انتظامیہ کی طرف سے ایسا کوئی نوٹس نہیں ملا کہ وہ اپنی تفریح گاہ کو دوبارہ چالو نہیں کر سکتے۔ تاہم متعلقہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں کام کرنے والے ایک اہل کار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کی طرف سے پچھلے دو سالوں میں ایسے کئی درجن نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں غیرقانونی عمارات اور تنصیبات کے مالکان کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف قانونی اور انتظامی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "ان میں سے اکثر عمارات نہ صرف حالیہ سیلاب میں تباہ ہوئی ہیں بلکہ 2010 کے سیلاب میں بھی ان کے ساتھ یہی ہوا تھا"۔ 

غیر قانونی تعمیرات

خیبر پختونخوا میں 2014 میں دریاؤں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کی رو سے کسی دریا کے کنارے کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے کے لیے محکمہ آبپاشی سے اجازت لینا پڑتی ہے اور ایسی عمارت کا دریا کے کنارے سے کم از کم دو سو فٹ دور ہونا بھی ضروری ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

 دریائے سوات کے کنارے واقع رہائشی عمارات دریائے سوات کے کنارے واقع رہائشی عمارات

لیکن ضلع سوات کے قصبے مدین کے سیون سٹار نامی ہوٹل کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس ہوٹل کو 2010 کے سیلاب میں شدید نقصان پہنچا تھا کیونکہ یہ تقریباً دریا کے اندر واقع تھا۔ اس کے باوجود حکومت نے اس کی تعمیرِنو کے دوران اس کا محلِ وقوع تبدیل کرانے کی کوئی کوشش نہ کی چنانچہ پچھلے ماہ یہ ایک بار پھر دریا برد ہو گیا۔   

ہوٹل کے مالک ساجد شاہ کا دعویٰ ہے کہ اِس کی عمارت دریا  سے قانونی فاصلے پر بنائی گئی تھی لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اس کے تین ٹوٹے ہوئے ستون ابھی تک واضح طور پر دریا کے بیچ میں گڑے ہیں۔ 

مدین کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ایک افسر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ سیون سٹار ہوٹل کی طرح 2010 کے سیلاب میں تباہ ہونے والی کئی عمارتیں "پچھلے 12 سال میں دوبارہ عین اسی جگہ تعمیر ہو گئی تھیں جہاں قانون کی رُو سے انہیں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا"۔ 

تاہم ان میں سے کئی عمارتوں کے مالکان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کی تعمیر کے لیے حکومت سے باقاعدہ اجازت لے رکھی تھی۔ ان میں تحصیل بحرین کے تفریحی مقام کالام میں بنا ہنی مون ہوٹل بھی شامل تھا جس کے دریا میں بہہ جانے کے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں۔ اس کے مالک ہمایوں شنواری کے بیٹے زرمت اللہ شنواری کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کی تعمیر کے لیے حکومت کا جاری کردہ اجازت نامہ موجود تو تھا لیکن اب وہ "اس کے ساتھ ہی سیلاب میں بہہ گیا ہے"۔

بحرین کے تحصیل میونسپل افسر عرفان خان ان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہنی مون ہوٹل کی تعمیر کے لیے کبھی کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔ لیکن سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان کہتے ہیں کہ اس اجازت نامے کی موجودگی بعیدازقیاس نہیں کیونکہ، ان کے مطابق، "سرکاری اداروں کے اہلکار اکثر رشوت لے کر غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دے دیتے ہیں"۔ 

اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ "اگر یہ اہل کار 2010 کے بعد دریائے سوات پر ناجائز تعمیرات نہ ہونے دیتے تو یہاں نہ تو کوئی ہوٹل، کیفے اور ریسٹورنٹ ہوتا اور نہ ہی حالیہ سیلاب سے بڑے پیمانے پر عمارتیں تباہ ہوتیں"۔ 

تجاوزات کے خلاف کارروائیاں

عرفان خان کہتے ہیں کہ "تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن بحرین نے 2020 سے لے کر اب تک دریائے سوات پر قائم 86 غیرقانونی عمارتوں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "جب کبھی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اعلیٰ حکام اسے روک دیتے ہیں"۔ 

ان کے دفتر سے حاصل کی گئی ایک دستاویزات ان کے موقف کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے مطابق اپریل 2021 سے لے کر اب تک تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن بحرین نے مقامی پولیس کو 27 ایسے افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے کا کہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر دریائے سوات پر غیرقانونی تعمیرات کر رکھی ہیں۔ لیکن ابھی تک ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی۔

 سیلاب کی زد میں آنے والا ہوٹل سیلاب کی زد میں آنے والا ہوٹل

عرفان خان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے بحرین کے اسسٹنٹ کمشنر کو دریا پر موجود تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے "اس سلسلے میں آخری خط 7 جولائی 2020 کو لکھا تھا"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ابھی تک اس ضمن میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا"۔ 

دوسری طرف اسسٹنٹ کمشنر بحرین محمد اسحاق خان اس دعوے کو نہ تو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی مسترد۔ اس کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں تمام سوالات کے جواب صرف مالاکنڈ ڈویژن کے کمشنر شوکت یوسفزئی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع کی سول انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔ 

تاہم شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ ان کے ماتحت انتظامیہ وہ تمام اقدامات کر رہی ہے جو دریائے سوات کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اِن کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے فوراً بعد انہوں نے مالا کنڈ ڈویژن کے تمام ڈپٹی کمشنروں کو غیرقانونی عمارات کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں جن کے نتیجے میں "31 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں"۔ 

ان کے بقول انہیں معلوم نہیں کہ 2010 کے سیلاب کے بعد دریائے سوات پر غیر قانونی عمارتیں کیسے بن گئیں کیونکہ وہ اپنے موجودہ عہدے پر "صرف تین ماہ پہلے" تعینات ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے "22 جون 2022 کو بحرین کے اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی تھی جس نے سیلاب سے پہلے ہی غیرقانونی ہوٹلوں اور چائے خانوں کے 31 مالکان کو گرفتار کر لیا تھا اور 60 دیگر افراد کو نوٹس جاری کر دیے تھے کہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے"۔ ان کے مطابق اس طرح کی سرکاری کارروائیوں کے نتیجے میں "بحرین اور مدین کے درمیانی علاقے میں 21 غیرقانونی عمارتوں کو مسمار بھی کیا گیا ہے"۔  

شوکت یوسفزئی اس عزم کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وہ باقی ماندہ تجاوزات کو اپنی نگرانی میں ختم کرائیں گے اور آئندہ "کسی کو دریا کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے"۔

تاریخ اشاعت 15 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.