روجھان پر پانی کا دوطرفہ حملہ: 'لوگوں کو غربت اور پسماندگی سے بچانے کے لیے شہر کو سیلاب سے بچانا ہو گا'

postImg

عمیراختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

روجھان پر پانی کا دوطرفہ حملہ: 'لوگوں کو غربت اور پسماندگی سے بچانے کے لیے شہر کو سیلاب سے بچانا ہو گا'

عمیراختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

مغرب میں کوہ سلیمان سے بارشوں کا پانی بڑی مقدار میں بہہ کر آئے یا مشرق میں دریائے سندھ میں طغیانی ہو، دونوں صورتوں میں راجن پور کی تحصیل روجھان میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی یہی کچھ ہوا جب دونوں اطراف سے آنے والے سیلاب پانی نے اس تحصیل میں تباہی مچا دی۔

کوہ سلیمان پر 27 جولائی کو ہونے والی شدید بارشوں سے رودکوہی کے سیلاب نے روجھان کی متعدد بستیوں کو ڈبو دیا۔ اس سے  موضع کُن، واہ بمبلی اور واہ چک خاص طور پر متاثر ہوئے۔

موضع کُن میں میں سڑک زیر آب آنے سے علاقہ مکینوں کی آمد و رفت تقریباً معطل ہو گئی۔ ان مواضعات کے بہت سے لوگوں کو جان بچانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت راجن پور شہر اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔

اس سیلاب میں 12سالہ شمیم بی بی، 14 سالہ نسرین اور 24 سالہ بلاول عباس جاں بحق ہو گئے۔ شمیم بی بی کے والد اللہ دتہ نے بتایا کہ سیلاب اچانک آیا اور اس سے نکلنے کی کوشش میں جب وہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر باہر جانے لگے تو پانی کا دباؤ زیادہ ہونے سے ان کی بیٹی کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ پانی میں بہہ گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ کئی روز تلاش بسیار کے بعد اس کی لاش ملی۔

 24 سالہ بلاول عباس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی 14 سالہ بھانجی نسرین کو بچانے کوشش کر رہے تھے کہ تیز سیلابی پانی دونوں کو بہا لے گیا۔ دونوں کی لاشیں قریبی گاؤں سے ملیں۔

سات اگست کو دریائے سندھ کے پانی نے ہیرو بند میں شگاف ڈالا۔ وقت کے ساتھ اس شگاف کی چوڑائی بڑھتی رہی اور کئی سو فٹ تک جا پہنچی۔ اس کے بعد قریبی بستیوں میں پانی گھس آیا۔

بند ٹوٹنے سے موضع ہیرو، اعظم گڑھ اور موضع برخوردار  کے سیکڑوں مکین بے گھر ہوئے۔ ان کی فصلیں تباہ ہو گئیں اور مال مویشی ہو گئے۔

سیلاب سے متاثرہ بستی گوپانگ کے رہائشی عارف گوپانگ نے بتایا کہ بند ان کے گھر کے قریب ہے جو دریا میں پانی کے تیز بہاؤ سے ٹوٹ گیا۔ اس سے ان کا گھر اور فصلیں ڈوب گئیں۔ موضع ہیرو کے طالب احمد کا کہنا ہے کہ سیلاب میں ان کا گھر بھی بہہ گیا اور کپاس کی فصل زیرآب آ گئی۔
دریائے سندھ میں معمول سے زیادہ پانی آنے سے تحصیل روجھان کے مواضعات مندری، چک اڑیا، ڈیرہ دلدار اور ڈیرہ جیون کے بھی زیر آب آئے۔ ان علاقوں کے لوگوں کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ یہاں بڑی تعداد میں کچے مکانات گر گئے اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی کپاس اور مونگ کی فصلیں تباہ ہوئیں۔

 موضع ڈیرہ دلدار کے مکین پیر بخش نے بتایا کہ وہ دو سال سے کپاس کی فصل اگا رہے ہیں لیکن یہ سیلاب کی نذر ہو جاتی ہے۔

راجن پور کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر منصور احمد بلوچ اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کیپٹن (ر) دوست محمد نے سیلاب کی صورت حال کا جائزہ لیا۔ علاقے میں ریسکیو اہلکار تعینات کیے گئے۔ ریسکیو گاڑیاں اور فرسٹ ایڈ کا سامان بھی پہنچایا گیا۔ پولیس اور سول ڈیفنس اہلکاروں کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور سیلاب متاثرین کے لیے بوائز ہائر سیکنڈری سکول کوٹلہ مغلاں جام پور میں فلڈ ریلیف کیمپ قائم کیا گیا۔

2010ء میں دریائے سندھ اور رودکوہیوں دونوں میں اونچے درجے کے سیلاب سے اس تحصیل کا 71 فیصد علاقہ متاثر ہوا تھا۔ 2022ء میں سیلاب نے ایک بار پھر 2010ء کی طرح تباہی مچائی۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق  روجھان کو زیادہ تر درہ کاہ اور درہ چھاچھڑ سے آنے  والے سیلاب متاثر کرتے ہیں۔ مغرب میں واقع کوہ سلیمان سے آنے والا پانی کاہ اور چھاچھڑ رودکوہیوں میں کئی کلومیٹر سفر کے بعد دریائے  سندھ میں گرتا ہے۔ پانی زیادہ ہونے کی صورت میں یہ اردگرد کے میدانی علاقوں میں پھیل جاتا ہے۔

درہ کاہ سے گزرتے ہوئے سیلابی پانی ٹبی لنڈان اور پھر روجھان میں داخل ہوتا ہے جبکہ درہ چھاچھڑ کا پانی براستہ بندھو والی ٹاور چوک روجھان کی طرف آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سیلابی گزرگاہوں پر قبضہ مافیا کا کنٹرول اور ناقص منصوبہ بندی: 'بارشیں ہوئیں تو سیلابی ریلا سیدھا راجن پور شہر کا رخ کر لے گا'

روجھان شہر کو رود کوہی کے سیلاب سے بچانے کے لیے سوا بارہ کلومیٹر طویل بند موجود ہے لیکن یہ بند اسے بچانے میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوا۔

انچارج سول ڈیفنس فیاض نے بتایا کہ رود کوہی کے سیلاب سے متاثر ہونے والوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے کشتیاں چلائی گئیں اور میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے جن میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین بھی موجود رہی۔

سماجی کارکن خضرخان مزاری تحصیل روجھان کی پسماندگی کی بڑی وجہ بار بار آنے والے سیلاب کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی محنت پر سیلاب نے ایک مرتبہ پھر پانی پھیر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک روجھان کو سیلاب سے بچانے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جاتا اس وقت تک یہ علاقہ غربت اور پسماندگی سے بھی نہیں نکلے گا۔

تاریخ اشاعت 8 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمیراختر کا تعلق راجن پور سے ہے۔ عمیراخترگزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پراردو بلاگ بھی لکھ رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.