گوادر کے ساحلی قصبے کلمت ہور کے نودو پچھلے تیس برس سے ماہی گیری کر رہے ہیں۔ یہی ان کے سات افراد پر مشتمل کنبے کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے۔ ان کے پاس مچھلیاں پکڑنے کی اپنی کشتی ہے اور وہ چند سال پہلے تک اس پر شکار کر کے 40 ہزار ماہانہ کما لیا کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے ساحل پر فشنگ ٹرالر آنا شروع ہو گئے اور چھوٹی کشتی والے ماہی گیروں کی روزی تنگ ہونے لگی۔
وہ بتاتے ہیں کہ چند روز قبل سندھ سے آنے والے 30 ٹرالروں نے ساحل کے قریب کھڑی ان کی کشتیوں پر دھاوا بول دیا۔ ان لوگوں نے کلمت کے ماہی گیروں کی کشتیوں کے جال اور لنگروں کی رسیاں کاٹ دیں۔ جس سے سات کشتیاں سمندر برد ہو گئیں۔
گڈانی سے جیوانی تک چھ سو کلو میٹر طویل مکران کے ساحل پر گیارہ بڑی آبادیاں ہیں۔ جن میں گڈانی، اورماڑہ، ماکولا، کلمت، پسنی، چربندن، شمال بندن، کپّر ، سربندن، گوادر پلیری اور جیوانی شامل ہیں۔ یہاں کے 80 فیصد لوگوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ جو لگ بھگ دو لاکھ خاندان بنتے ہیں۔
یہاں کی تمام مچھلی اور جھینگا ایکسپورٹ کے لیے کراچی جاتا ہے۔ ساحلی آبادیوں میں کلمت بھی تحصیل پسنی میں ماہی گیروں کی ایک بستی ہے۔ یہ کوسٹل ہائی وے سے 20 کلومیٹر دور ایک قدرتی جیٹی(کھاڑی) ہے۔ جہاں سے کشتیاں با آسانی سمندر میں آتی جاتی ہیں۔ یہ آبادی تین ہزار کے قریب ماہی گیر گھرانوں پر مشتمل ہے۔
ماہی گیر نودو کا کہنا تھا کہ کلمت اعلیٰ اقسام کی مچھلی اور ٹائیگر جھینگے کے لیے مشہور تھا۔ وہ صبح سویرے جاتے تھے اور شام کو مطمئن واپس لوٹتے تھے۔
"بستی کے بچے ساحل پر کشتیوں کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ ہم 'پاپلیٹ' اور 'مشکا' بچوں کو دے دیتے تھے۔ وہ جا کر یہ مچھلیاں بیچتے تھے اور ان پیسوں سے کئی بیواؤں اور غریبوں کے گھر چلتے تھے"۔
انہوں نے دکھ کا اظہار کیا کہ اس 'ٹرالر دہشتگردی' کی وجہ سے اب ماہی گیر نہ صرف سمندر سے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں بلکہ بختیار، مراد بخش، مولاداد، لیاقت، محبت خان،رحیم داد اور وہ خود کشتیوں سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
رحیم داد بتاتے ہیں کہ پچھلے ماہ انہوں نے ٹھیکیدار سےایک لاکھ روپے ادھار لے کر جال خریدا تھا۔ لیکن سب امیدوں پر پانی پھر گیا۔اب پریشانی یہ ہے کہ وہ ادھار کیسے چکائیں گے اور گھر کا راشن کس طرح پورا کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس روز موسم خوش گوار تھا اور بہتر شکار کی امید تھی۔ وہ اور ان کے ساتھی سمندر میں جال لگا کر بیٹھے تھے۔ اچانک کسی نے آواز دی " ناخدا !دیکھو ٹرالر ہیں۔"
"ٹرالر میرے جالوں کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ ہم نے آوازیں لگانا شروع کیں تو ان ٹرالروں نے چھ اور کشتیوں کو بھی لتاڑ دیا۔ ہمارے احتجاج پر وہ ہم پر پتھر برسا رہے تھے۔"
بلوچستان فشریز آرڈیننس 1971ء کے تحت ساحل سے بارہ ناٹیکل میل تک صوبائی حکومت کی سمندری حدود ہیں۔ یہاں صوبائی حکومت ہی فشنگ کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس قانوں کے مطابق بارہ ناٹیکل میل پر مقامی لوگوں کے حقوق ہیں اور ٹرالر کے شکار کے لیے یہ ممنوع علاقہ ہے۔
کلمت ہی کے رہائشی جمعہ 30 سال سے ماہی گیری کر رہے ہیں۔اب ان کے بیٹے بھی اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ٹرالروں نے مکران کا ساحل تباہ کر دیا ہے اور ان میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ یہ دن دہاڑے آتے ہیں اور مقامی لوگوں کے قیمتی جال اور دیگر سامان کو روند ڈالتے ہیں۔ غریب ماہی گیر اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ مچھیروں کی کشتیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہر کشتی پر تین یا چار لوگ روزی کماتے ہیں۔ ان کے جال بھی چھوٹے اور ہر سیزن کی مچھلی کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن ٹرالر کا ایک ہی بڑا جال سب کچھ تہس نہس کر دیتا ہے۔اب کلمت کے ماہی گیر احتجاجاً سمندر میں نہیں جا رہے۔
عزیز اسماعیل انجمن ماہی گیران پسنی کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فشریز کے ساتھ کوسٹ گارڈز اور ایم ایس میرین بھی اگر چاہیں تو ان ٹرالروں کو روک سکتے ہیں۔
"لیکن ہم ماہی گیروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ با اثر لوگ خود اس غیر قانونی ٹرالنگ میں ملوث ہیں۔ بھتہ خور یہ دھندہ بند نہیں کرانا چاہتے۔ جبکہ ہم بیروزگار ہو رہے ہیں، یہاں لوگوں کا کاروبار ختم اور مقامی فش کمپنیاں بند ہو رہی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ مچھیرے سمندر کے شکار سے دست بردار ہو رہے ہیں۔ ٹرالرنگ کے باعث گڈانی سے جیوانی تک تمام آبادی کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور اس کے ذمہ دار سیاست دان اور محکمہ فشریز ہے۔
محکمہ فشریز کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ سے گفتگو کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ ان ٹرالروں کو روکنے کی دن رات کوشش کر رہا ہے۔ فشریز نے اب تک بیسیوں بار ٹرالرز کو پکڑا ہے مگر یہ لوگ عدالت کے ذریعے نکل جاتے ہیں اور پھر شکار کے لیے واپس آ جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ ٹرالرز کے پاس جدید اسلحہ بھی ہوتا ہے ۔جب اہلکار قریب جاتے ہیں تو وہ فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی طاقتور لوگ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے فش کمپنیاں ملوث ہوں۔ جو ان لوگوں کو برف اور تیل فراہم کرتی ہیں اور وہاں سے مچھلی لیتی ہیں۔
فشریز افسر کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ مقامی لوگ بھی ٹرالر والوں کے مخبر ہیں "جب ہم پٹرولنگ کے لیے نکلتے ہیں تو ٹرالر والے فرار ہوجاتے ہیں۔ ہم چوبیس گھنٹے بھی پٹرولنگ کریں تو وہ ساحل کے قریب نہیں آتے۔ ٹیم واپس آتے ہی ٹرالر ساحل پر آ جاتے ہیں۔ ہم انہیں ایک حد تک ہی روک سکتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
کراچی کا دسترخوان اور ماہی گیروں کے کھانے: ایک ثقافت کی اپنی بقا کی جنگ کی کتھا
کوسٹ گارڈ اور ایم ایس میرین اس معاملے کو سول محکمہ سے متعلقہ قرار دیتے ہیں اور وہ ٹرالرنگ پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
آبی حیات کے ماہرِ اور پی ایچ ڈی سکالر واجد علی بتاتے ہیں کہ فشنگ ٹرالر کا طاقتور جال سمند کی تہہ سے مچھلی کے ساتھ انڈوں کو تباہ کر دیتا ہے۔یہ گہرے پانی میں کچھوے اور دیگر سمندری حیات کو بھی سمیٹ لیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹرالر ساحل کے قریب گہرے پانی میں ایکو سسٹم کو قائم رکھنے والی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ یہ فطرت میں مداخلت اور مچھلیوں کی نسل کُشی ہے۔ اس سے ہر صورت گریز کرنا ہو گا۔
عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان بھی واجد علی سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ٹرالنگ کے آلات سمندر میں جھاڑو پھیر دیتے ہیں اور نیچے سطح کو ہل کی طرح کھود دیتے ہیں، یہ آبی حیات کی تباہی ہے۔
تاریخ اشاعت 26 اکتوبر 2023