'غلط سمت میں چند میٹر سفر نے خاندان سے چار سال دور کر دیا'

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'غلط سمت میں چند میٹر سفر نے خاندان سے چار سال دور کر دیا'

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

مریاں خوشی سے سرشار ہیں جو ان کی آںکھوں میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ انہوں ںے جھیل کنارے اپنے گھر میں کھلے آسمان تلے چارپائیوں پر خوبصورت رلیاں بچھا رکھی ہیں۔ گھر میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جن کی مٹھائی اور چائے سے تواضع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ اہتمام اپنے شوہر احمد کے لیے کیا ہے جو تقریباً چار برس بھارت میں قید رہنے کے بعد گھر لوٹ رہے ہیں۔

58 سالہ احمد کا تعلق ساحلی سندھ کے ضلع سجاول کے گاؤں الہجڑیو سے ہے۔ دونوں ماہی گیر 20 اکتوبر 2019ء کو سمندر میں حرامی نالہ نامی کھاڑی میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ ان کے ساتھ انہی کے علاقے میں رہنے والے 25 سالہ مددگار حمزہ تھیمور کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

احمد بتاتے ہیں کہ وہ اپنا ہوڑا (بڑی کشتی) چلا رہے تھے اور حمزہ ان کے ساتھ تھا۔ شکار کے دوران اچانک ہوڑے کا انجن بند ہو گیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی مگر انجن دوبارہ سٹارٹ نہ ہوا۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ کشتی آگے چلی گئی جہاں بھارتی فورسز نے انہیں گرفتار کر کے ہوڑا بھی اپنے قبضے لے لیا۔

احمد کے مطابق وہ سمندر میں ان کا دسواں دن تھا اور مطلوبہ مقدار میں مچھلی پکڑنے سے پہلے وہ خود ہی پکڑے گئے۔ انہوں ںے کوئی جرم نہیں کیا تھا بلکہ متنازع سمندری حدود سے واقفیت نہ ہونےکےباعث وہ چند میٹر دور ایسے پانیوں میں چلے گئے تھے جن پر بھارت اپنا دعویٰ کرتا ہے۔

اس طرح غلط سمت میں چند ہی میٹر دور جانے کے نتیجے میں وہ اپنے خاندان سے چار سال تک دور رہے۔

میرا ارادہ تھا اس مرتبہ ایک ماہ تک سمندر میں رہ کر شکار کروں گا اور پکڑی ہوئی مچھلی کسی دوسرے ہوڑے کی مدد سے اپنے ٹھیکیدار کو بھیجتا رہوں گا۔ میں نے یہ آمدن اپنی بیٹی شہنیلا اور بیٹے زاہد کی شادی پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔"

ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز نے انہیں دو دن دیا پور تھانے رکھنے کے بعد مقامی عدالت میں پیش کیا۔ اس کے بعد انہیں ضلع کچھ کی پالارا جیل بھیج دیا گیا۔ انہی دنوں کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی اور ڈیڑھ سال تک ان کے مقدمے پر کوئی کارروائی ہی نہ ہو سکی۔ جب عدالت دوبارہ لگی تو انہیں دو سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ سزا ختم ہونے کے بعد انہیں جوائنٹ انٹیرو گیشن سینٹر میں رکھا گیا جہاں سندھ کے 30 ماہی گیر قید تھے۔  

احمد کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم فشر فوک فورم کے سربراہ محمد علی شاہ سے امید تھی کہ وہ انہیں رہا کروا لیں گے۔ اگست 2021ء میں ایک پولیس اہلکار نے ان کی موت کی خبر سنائی تو یہ امید بھی دم توڑنے لگی۔

"رواں سال مئی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کی اطلاع آئی۔ انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے دو سو ماہی گیروں کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔ یہ خبر پہنچنے پر میں نے سوچا اگر بدلے میں بھارت نے 30، 35 ماہی گیر بھی رہا کیے تو حمزہ اور میرا نام ضرور شامل ہو گا کیونکہ ہماری سزا پوری ہو چکی ہے۔ اگلے دو ماہ میں بھارت سے رہا ہونے والے پاکستانیوں میں ہمارا نام بھی آ گیا۔"

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ 18 دیگر پاکستانی بھی رہا ہو کر آئے جن میں 11 کراچی، سجاول اور ٹھٹہ کے ماہی گیر تھے۔ باقی سات سرحد پار کرنے والے پاکستانی شہری تھے جن کا تعلق پنجاب سے بتایا گیا۔

احمد جیل میں تین ہزارروپے ماہانہ مزدوری پر کچرا اٹھانے اور کھانے پینے کی اشیا قیدیوں تک پہنچانے کے لیے ریڑھا چلاتے تھے۔ انہوں نے فارغ وقت میں موتیوں سے کِی چین، کلائی میں پہنے جانے والے پٹے اور موتیوں کی چوڑیاں بنا کر بیچیں اور پیسے بچا کر رکھے۔

حمزہ نے جیل میں حجام کا کام سیکھا اور اس سے ماہانہ 21 سو روپے کمانے لگے۔ انہوں نے بھی موتیوں کے کِی چین اور چوڑیاں بنا کر بیچیں لیکن آخری دنوں میں فضول خرچی  کے باعث وہ بچت نہ کر پائے۔

احمد کے بقول جس دن ان کی رہائی ہوئی تو پتا چلا کہ حمزہ اپنے ایک ساتھی قیدی کا مقروض ہے۔ چنانچہ اس کے قرض کی رقم بھی احمد کو ادا کرنا پڑی۔

مریاں سرکریک کی سمندری حدود کے تنازعوں سے ناواقف تھیں۔ وہ بس اتنا جانتی تھیں کہ ایک دن پاکستان بھارتی ماہی گیروں کو رہا کرے گا تو اس کے بدلے احمد کو بھی باقی پاکستانی ماہی گیروں کے ساتھ رہا کر دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کراچی کے ساحلی جزیروں پر تعمیرات کا منصوبہ: ماہی گیروں اور قدرتی ماحول کے لیے سنگین خطرہ۔

ڈر کی ماری چھ بچوں کی ماں مریاں نے اب اپنے شوہر کو شکار کے لیے سمندر جانے سے منع کر دیا ہے۔ احمد بھی کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے جوان ہیں اور اب وہی کام پر جائیں گے۔

سرکریک بھارت کے علاقے رن آف کچھ اور پاکستان میں صوبہ سندھ کے درمیان 60 میل طویل ایک دلدلی ساحلی پٹی ہے۔ اس علاقے میں 17 سمندری کھاڑیاں ہیں جنہیں پاکستان اپنی ملکیت قرار دیتا ہے جبکہ ان کے نصف پر بھارت دعویدار ہے۔ دونوں ممالک کے ماہی گیر یہاں کے سمندری میں پکڑے جانے کے بعد سال ہا سال قید رہتے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ مطابق قونصلر رسائی کے معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ایک دوسرے کی قید میں موجود قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔

یکم جولائی تک بھارتی جیلوں میں 74 ماہی گیروں سمیت 417 پاکستانی قید تھے۔ 18 پاکستانیوں کی رہائی کے بعد اب یہ تعداد 399 رہ گئی ہے۔ پاکستان کی جیلوں میں تین سو آٹھ بھارتی قید ہیں جن میں 266 ماہی گیر ہیں جن کی بڑی تعداد کراچی کی ملیر اور لانڈھی جیل میں قید ہے۔

تاریخ اشاعت 22 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.