لالہ موسیٰ کے لنڈا بازار میں آتشزدگی: 'پختونوں کے کاروبار تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے'۔

postImg

کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

لالہ موسیٰ کے لنڈا بازار میں آتشزدگی: 'پختونوں کے کاروبار تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے'۔

کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

جب مظہر سلیمان خیل کو خبر ملی کہ اُن کی دکانوں میں آگ لگ گئی ہے تو وہ اپنی بیوی کا طبی معائنہ کرانے ایک قریبی شہر جارہے تھے۔ وہ فوراً واپس تو مڑے لیکن اپنے کاروبار کو بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور وہ تمام مارکیٹ جہاں وہ لنڈے کے کپڑے بیچتے تھے ان کی آنکھوں کے سامنے جل کر راکھ ہو گئی۔  

یہ واقعہ 11 فروری 2022 کو وسطی پنجاب کے ضلع گجرات کے قصبے لالہ موسیٰ میں جی ٹی روڈ کے کنارے پیش آیا۔ آگ کا شکار ہونے والی مارکیٹ میں دو سو 50 دکانیں تھیں جن میں کاروبار کرنے والے تمام لوگ پختون ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے جہاں 2008 میں مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والے ایک فوجی آپریشن کی وجہ سے انہیں اپنا گھربار چھوڑنا پڑا تھا۔ 

ان میں 40 سالہ لال زمان کا خاندان بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹھ سال پہلے جب وہ روزگار کی تلاش میں پہلی بار لالہ موسی آئے تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کوئی اچھا کاروبار کر سکتے اس لیے شروع شروع میں وہ ایک ریڑھی پر لنڈے کے کپڑے بیچا کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے تین دکانیں کرائے پر لے کر اپنا کاروبار وہاں منتقل کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا کام بہت اچھا تو نہیں چل رہا تھا لیکن اس سے ان کے "گھر کا کرایہ، بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور دیگر خرچہ نکل آتا تھا"۔

ان کا کہنا ہے کہ 11 فروری کو رات دو بجے انہیں مارکیٹ میں پہرا دینے والے چوکیدار کا فون آیا کہ "وہاں آگ لگ گئی ہے"۔ ان کے مطابق اسی چوکیدار نے سرکاری ایمرجنسی سروس، ریسکیو 1122، اور پولیس کو بھی آگ لگنے کی اطلاع دی تھی لیکن وہ کہتے ہیں کہ "پہلے تو ریسکیو 1122 کی ٹیمیں تاخیر سے مارکیٹ میں پہنچیں اور دوسرا یہ کہ وہاں پہنچنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان کے ٹینکروں میں پانی ہی نہیں ہے"۔ چنانچہ، ان کے بقول، مارکیٹ دکان داروں کے سامنے راکھ ہوتی رہی اور وہ اسے دیکھتے رہنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔

<p>متاثرہ پختون تاجروں کا احتجاجی کیمپ۔<br></p>

متاثرہ پختون تاجروں کا احتجاجی کیمپ۔

جلی ہوئی دکانوں کی باقیات دو روز بعد جی ٹی روڈ پر بکھری پڑی ہیں لیکن دکاندار انہیں سڑک سے ہٹا نہیں رہے حالانکہ مقامی انتظامیہ انہیں باربار ایسا کرنے کا کہہ چکی ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لال زمان کہتے ہیں کہ وہ "دنیا کو اپنے ساتھ ہونے والا ظلم دکھانا چاہتے ہیں تاکہ حکومت جلد از جلد اس نقصان کا ازالہ کرے"۔

آگ کا دریا

لالہ موسیٰ سے تقریباً 30 کلومیٹر مغرب میں واقع ڈنگہ نامی قصبے میں تین جنوری 2022 کو رات دو بجے مقامی لنڈا بازار میں اچانک آگ لگ گئی۔ جب تک اسے بجھایا گیا بازار میں موجود تمام 29 دکانیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ ایک نزدیکی عمارت میں لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمرے کے ذریعے ہونے والی ویڈیو ریکارڈنگ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی ایک شخص اپنے سر اور چہرے کو چھپائے لنڈا بازار سے بھاگ کر باہر نکلتا ہے وہاں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ 

ڈنگہ میں جلنے والی زیادہ تر دکانیں باجوڑ، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پختونوں کی تھیں۔ ان میں شامل باجوڑ کے علاقے چارمنگ میں پیدا ہونے والے 32 سالہ عزیز خان پچھلے چھ سال سے اپنے خاندان کے ساتھ ڈنگہ میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لنڈا بازار میں گرم کمبل اور اس طرح کا دیگر سامان بیچتے تھے "جس کی مالیت 28 لاکھ روپے سے زیادہ تھی"۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں رہے کہ وہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کر سکیں۔

ان کے مطابق لنڈا بازار کے سبھی دکان داروں کا یہی حال ہے۔

لیکن انہیں شکایت ہے کہ حکومت نے نہ تو ان کی دکانوں میں لگنے والی آگ کی تحقیقات کی ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی زرِتلافی دی ہے۔ البتہ گجرات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے اپنے طور پر اور کچھ غیرسرکاری سماجی تنظیموں نے انسانی ہمدردی کے تحت انہیں اس قدر مالی امداد ضرور فراہم کی ہے کہ انہوں نے "اپنی دکانیں دوبارہ بنا لی ہیں"۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اپنا کاروبار بحال کرنے کے لیے ہمارے پاس ابھی بھی کوئی پیسے نہیں"۔

<p>قمر زمان کائرہ پختون تاجروں سے اظہار ہمدردی کرنے احتجاج میں شریک ہوئے۔<br></p>

قمر زمان کائرہ پختون تاجروں سے اظہار ہمدردی کرنے احتجاج میں شریک ہوئے۔

ڈنگہ کے لنڈا بازار میں موسم سرما کے دوران سٹال لگا کر پرانے کپڑے بیچنے والے 22 سالہ عرفان وزیر کو عزیز خان سے بھی زیادہ شکایات ہیں۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان تاجر کا خیال ہے کہ بازار کو "جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی"۔ ان کی نظر میں "اس کے پیچھے ان مقامی دکان داروں کا ہاتھ ہے جو ہمارا کاروبار خراب کرنا چاہتے تھے"۔  

لالہ موسی کے 43 سالہ پختون دکان دار شہزاد بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے قصبے کی لنڈا مارکیٹ میں لگنے والی آگ "ایک سازش کا نتیجہ تھی جس کا مقصد یا تو لالہ موسیٰ سے لنڈے کا کاروبار ختم کرنا تھا یا پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان نفرت پیدا کرنا"۔ اپنے موقف کی تائید میں وہ سوال اٹھاتے ہیں: "یہ کیسی آگ تھی کہ اس نے صرف پختونوں کی دکانوں کو جلایا جبکہ ان کے آس پاس کی ساری دکانیں سلامت رہیں؟" 

مظہر سلیمان خیل بھی پچھلے چند ماہ میں وسطی پنجاب کے کچھ علاقوں کے لنڈا بازاروں میں لگنے والی آگ کے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ پنجاب میں پختونوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات کسی منصوبہ بندی کے تحت ہورہے ہیں لیکن حالات کچھ ایسے ہی لگتے ہیں"۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دراصل "پچھلے 10 سالوں سے پنجاب میں رہنے والے پختونوں کے ساتھ سماجی اور انتظامی سطح پر امتیازی سلوک برتا جارہا ہے"۔ 

ان کا آبائی علاقہ بلوچستان کا شمال مغربی ضلع ژوب ہے لیکن، ان کے مطابق، 46 سال پہلے ان کی پیدائش پنجاب میں ہوئی تھی اور پچھلے 35 سال سے ان کا خاندان لالہ موسیٰ میں رہ رہا ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ کبھی خفیہ اداروں کے اہل کار ان کے شناختی کاغذات چیک کرنے کے بہانے انہیں تنگ کرتے ہیں، کبھی پولیس ان سے پیسے اینٹھنے کے لیے انہیں تھانے میں بلا لیتی ہے اور "کبھی ہمیں افغان کہہ کر ہرا ساں کیا جاتا ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاک-افغان سرحد کی بندش: چمن میں سینکڑوں خاندان اور کروڑوں روپے کا سامان تجارت پھنس گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے ان کے 95 سالہ والد کا شناختی کارڈ بھی افغان ہونے کے شبہے میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جسے بحال کرانے کے لیے انہیں متعلقہ سرکاری ادارے کو ان کے پاکستانی ہونے کے "تمام تر ثبوت" فراہم کرنا پڑے تھے۔ 

تحقیقات اور تجزیات

لالہ موسیٰ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ مقامی لنڈا مارکیٹ میں لگنے والی آگ سے متاثر ہونے والے پختون تاجروں سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیے 13 فروری 2022 کو ان کے احتجاج میں شریک ہوئے۔ اس واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں مقامی امن و امان خراب ہو سکتا ہے کیونکہ، ان کے مطابق، ان کے قصبے میں بہت سے پختون طویل عرصہ سے رہ رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں ڈپٹی کمشنر اور دیگر متعلقہ حکومتی اداروں سے بات کی ہے تاکہ "اس کی جامع اور فوری تحقیقات کر کے اس کے اسباب کو منظرِعام پر لایا جائے اور متاثرہ دکانداروں کے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر اس کا مکمل ازالہ کیا جائے"۔ 

لالہ موسیٰ کے تھانہ صدر کے  انچارج آفیسر کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اعلیٰ سرکاری افسران نے بھی انہیں یہی "خصوصی ہدایت" کی ہے کہ آگ لگنے کی وجوہات جلد از جلد معلوم کی جائیں "تاکہ متاثرین کے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے"۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ہدایت پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے وہ "مختلف زاویوں" سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کے مطابق، انہوں نے "جائے وقوعہ کی مٹی کے نمونے" تجزیے کیلئے لاہور میں واقع جدید سائنسی سازوسامان سے آراستہ پنجاب فورینزک سائنسز ایجنسی کو بھیجے ہیں "تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ آگ کس طرح لگی"۔ انہیں امید ہے کہ ان تحقیقات کے ذریعے وہ جلد ہی ایک منطقی نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔ 

ڈپٹی کمشنر گجرات ڈاکٹر خرم شہزاد کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر کھاریاں خالد محمود  کی سربراہی میں سرکاری حکام پر مشتمل ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہےجو لالہ موسیٰ کی لنڈا مارکیٹ میں "آگ لگنے کے واقعہ کی تحقیق کرے گی"۔ ان کے مطابق یہ کمیٹی "دکانداروں کے نقصانات کی مالیت کا تعین کر کے حکومت پنجاب کو ان کے ازالے کے لیے تجاویز بھی پیش کرے گی"۔

تاہم مظہر سلیمان خیل ان سرکاری یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت نہ تو آگ کی وجوہات کا تعین کر پائے گی اور نہ ہی متاثرہ دکانداروں کو زرِ تلافی مل سکے گی۔ چار سال پہلے اسی لنڈا مارکیٹ میں لگنے والی آگ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اُس میں بھی مقامی پختون تاجروں کا وسیع پیمانے پر مالی نقصان ہوا تھا "لیکن اس کی وجوہات جاننے کے لیے سرکاری سطح پر کبھی کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس سے متاثر ہونے والے دکان داروں کے نقصانات کا کوئی ازالہ کیا گیا"۔

تاریخ اشاعت 23 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.