بدین میں یوریا کھاد کا بحران اور بلیک مارکیٹنگ: انتظامیہ 'طاقتور ذمہ داروں' کے سامنے بے بس

postImg

رضا آکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بدین میں یوریا کھاد کا بحران اور بلیک مارکیٹنگ: انتظامیہ 'طاقتور ذمہ داروں' کے سامنے بے بس

رضا آکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

"ایک تو نہری پانی تاخیر سے آیا جس سے دھان کی بوائی ایک ماہ لیٹ ہو گئی۔ پھر اگست کا پورا مہینہ زیریں سندھ میں بارش نہیں ہوئی اور اب کھاد کا بحران آگیا ہے۔ اس سال دھان کی پیداوار میں 10 سے 15 من فی ایکڑ کمی واضح نظر آرہی ہے۔"

ان خدشات کا اظہار گولاڑچی کے کاشت کار جاکھرو نوحانی نے کیا ہے جو نواحی گاؤں دھادھرکو کے رہائشی ہیں اور وہیں 40 ایکڑ آبائی زمین پر دھان کاشت کرتے ہیں۔

54 سالہ جاکھرو نوحانی چھوٹے کاشتکاروں کی تنظیم آبادگار ایسوسی ایشن کے مقامی رہنما بھی ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کئی دن سے یوریا کھاد غائب ہے۔بلیک مارکیٹ بھی نہیں مل رہی۔ دھان کو بر وقت کھاد نہ ملنے سے پودے کی نشوونما رک جائے گی۔

زیریں سندھ دھان کی پیداوار کا' لاڑ خطہ'کہلاتا ہے۔یہاں ضلع بدین میں فصل کی کاشت مکمل ہوتے ہی یوریا کھاد نایاب ہوگئی ہے جس کے باعث کسان پریشان ہیں۔

بدین، سیرانی اور کڈھن کے نواحی علاقوں کے کاشتکاروں نے 22 اگست 2023ء کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں ایوان صحافت کے سامنے دو گھنٹے دھرنا دیا۔اس احتجاجی مظاہرے میں کاشت کار کریم سومرو، اقبال ابڑو بھی شامل تھے۔

کریم سومرو نےالزام عائد کیا کہ بھاری منافع کمانے کے لیے کمپنیوں اور ڈیلروں نے ملی بھگت سے کھاد غائب کردی ہے۔ ڈیلر ذخیرہ اندوزی کرکے کاشتکاروں کو لوٹ رہے ہیں۔

 وہ بتاتےہیں کہ یوریا کی بوری کا سرکاری ریٹ ساڑھے تین ہزار روپے ہے۔ مگر یہ لوگ بڑے زمینداروں کو خفیہ طور پر ساڑھے چار ہزار روپے فی بوری بیچ رہے ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو بلیک پر بھی کھاد نہیں دی جا رہی۔

ڈپٹی کمشنر بدین نے اس احتجاج کا نوٹس لیا اور محکمہ زراعت، پولیس، ڈیلروں، کمپنیوں کے نمائندوں اور ضلع کے تمام اسسٹنٹ کمشنروں کی میٹنگ بلالی۔

 ڈی سی بدین نے ڈیلروں اور کمپنیوں کے نمائندوں کو سرکاری ریٹ پر فوری کھاد فراہم کرنے کا پابند بنایا۔ ساتھ ہی محکمہ زراعت پولیس اور ریونیو افسروں کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا۔

 اگلے ہی روزاسسٹنٹ کمشنر گولاڑچی ھاشم مسعود اور ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت امتیاز بھٹونے مقامی پولیس کےساتھ چھاپے مارے اور گولاڑچی، کڑیو گھنور اور ٹنڈو باگو میں چار دکانوں سے سات سو بوری یوریا تحویل میں لے لی۔

بعد ازاں یہ کھاد موقع پر ہی کاشتکاروں میں کنٹرول ریٹ پر تقسیم کر دی گئی۔ دکاندار وں کو 20 سے 50 ہزار تک جرمانہ کیا گیا تاہم کوئی ایف آئی آر یا گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ضلع بدین کی پانچوں تحصیلوں گولاڑچی، بدین، ٹنڈوباگو، تلہار، اور ماتلی میں مجموعی طور پر آٹھ لاکھ ایکڑ دھان کاشت کیا جاتا ہے۔ یوں سیزن میں یہاں یوریا کی 40 لاکھ بوریاں درکار ہوتی ہیں۔ مگر اس مرتبہ کمپنیوں نے ضلعے میں کھاد کی مجموعی طلب کا 10 فیصد حصہ بھی فراہم نہیں کیا ۔

ڈیلروں کے نمائندے کشومل اکرانی نے الزام لگایا ہےکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کھاد افغانستان، ایران اور دیگر ممالک کو سمگل کردی ہے جس سے کھاد کا بحران پیدا ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پہلے بدین میں ہر ڈیلر کو 50 ہزار بوری یوریا فراہم کی جاتی تھی۔مگر اس سال چار سو سے آٹھ سو بوری تک کھاد دی گئی ہے جو ایک کاشتکار کی فصل کے لیے بھی ناکافی ہے۔

"کمپنیاں بلیک میں ساڑھے تین ہزار روپے والی کھاد کی بوری چار ہزار400 روپے میں بیچ رہی ہیں۔ مجبوری میں ہم بھی اس مافیا سے مہنگے داموں کھاد خرید رہے ہیں اور اپنے مستقل گاہکوں کو دے رہے ہیں۔"

ملٹی نیشنل کمپنی اینگرو کیمیکلز کے نمائندے شیراز شیخ ڈیلروں کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی نے ڈیلروں کو ضلع بدین کے لیے مقررہ کوٹہ 13000 بوری سےساڑھے تین ہزار بوری یوریا زیادہ فراہم کی ہے۔

 محکمہ زراعت نے بھی ضلع بھر میں بلیک مارکیٹنگ اور کھاد کے بحران کا ذمہ دار کمپنیوں کو قرار دیا ہے۔ تاہم ان کے خلاف کارروائی سے معذوری بھی ظاہر کی ہے۔ امتیاز بھٹو بتاتے ہیں کہ ضلعے میں کھاد کا سالانہ کوٹہ 27 لاکھ بوری مقرر ہے۔ مگر اس سال کمپنیوں نے یوریا کی صرف ساڑھے سات لاکھ بوریاں فراہم کی ہیں جوکہ ضرورت سےبہت کم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کھاد ڈیلر یا محکمہ زراعت: یوریا کھاد کی قلت کا ذمہ دار کون ہے؟

انہوں نے تسلیم کیا کہ بدین میں کھاد کا بحران پیدا کرنے اور اس کی بلیک مارکیٹنگ میں کمپنیوں کے کارٹل کا ہاتھ ہے۔ مگر یہ لوگ اتنے بااثر اور طاقتور ہیں کہ محکمہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

 ڈپٹی کمشنر آغا شاہ نواز بتاتے ہیں کہ انہوں نے کھاد کمپنیوں کے نمائندوں  اور تمام ڈیلروں کو سرکاری ریٹ پر کھاد فراہم کرنے کا حکم دیا ہے اور کاشت کاروں کو مقررہ نرخوں پر ہی کھاد ملے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ تمام ریونیو افسروں اور محکمہ زراعت کے حکام کو بھی احکامات جاری کر دیئےگئے ہیں۔ کھاد بلیک کرنے والے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی اور امید کرتے ہیں کہ جلد ہی صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔

تاریخ اشاعت 1 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا آکاش خانانی بدین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گذشتہ پندرہ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ساحلی علاقوں کے مختلف ماحولیاتی، سماجی، انسانی و ثقافتی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.