چالیس سالہ سیتا حیدرآباد کے علاقے ہوسڑی میں رہتی ہیں اور وہ پچھلے پانچ سال سے مقامی سبزی منڈی میں مزدوری کرنے آ رہی ہیں۔
سیتا بتاتی ہیں کہ اگر سیزن اچھا ہو تو انہیں سبزی یا پھل کی چھانٹی کا کام مل جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ سارا دن منڈی میں کام کا انتظار کر کے خالی ہاتھ واپس آتی ہیں۔
سیتا کے شوہر اشوک ٹھیلے پر کاٹھ کباڑ خریدنے اور بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے کنبے میں سات افراد ہیں۔ سیتا کے شوہر کی آمدنی سے خرچہ پورا نہیں ہوتا۔گھر کا راشن خریدنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے انہیں ہر حال میں کام کرنا پڑتا ہے۔
ہالا ناکہ روڈ پر واقع حیدرآباد کی مرکزی سبزی منڈی میں صبح سویرے ہی مزدور خواتین کی آمد شروع ہوجاتی ہے۔ چند ایک خواتین نواحی دیہات سے یہاں سبزیاں بیچنے بھی آتی ہیں۔ بعض خواتین منڈی میں اپنا چھابہ بھی لگاتی ہیں تاہم یہ صبح آٹھ بجے تک گھروں کو چلی جاتی ہیں۔
اس منڈی میں زیادہ تر عورتیں قاسم آباد، ہوسڑی، ہٹڑی بائی پاس، اسلام آباد محلہ اور ریلوے کالونی سے مزدوری کی تلاش میں آتی ہیں جنہیں عموماً پیاز، آلو، ٹماٹر اور پھلوں کی چھانٹی (صفائی) کا کام ملتا ہے۔
یہ خواتین منڈی میں دیہاڑی پر کام کرتی ہیں۔ ان کے لیے یہاں کوئی خاص اوقات کار مقرر نہیں ہیں۔ صبح آتے ہی کام مل جائے تو کام میں لگ جاتی ہیں ورنہ بیشتر شام تک کام کا انتظار کرتی ہیں۔ ان تمام کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔
سیتا کہتی ہیں کہ یہاں آنے کے لیے ان کا 50 روپے کرایہ لگتا ہے۔ جب مزدوری نہیں ملتی تو انہیں بھوکے رہنا پڑتا ہے۔ ایک دن بھی کام نہ ملے تو مشکل ہو جاتی ہے۔
پچاس سالہ روپا اس سبزی منڈی میں برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کنبہ آٹھ افراد پر مشتمل ہے اور شوہر محنت مزدوی کرتے ہیں۔
روپا بتاتی ہیں کہ وہ عام طور پریہاں سے تین سو روپے روزانہ کماتی ہیں۔ لیکن 'سیزن' کے دنوں میں انہیں سات سے آٹھ سو روپے دیہاڑی مل جاتی ہے۔
سیزن سے مراد مقامی فصلوں کے مڈی میں آنے کا موسم ہے۔ سردیوں کے آغاز پر ٹماٹر اور گرمیوں میں پیاز وافر مقدار میں یہاں آتا ہے۔ تب عورتوں کا کام زیادہ ہوتا ہے تو ان کی مزدوری بھی بڑھ جاتی ہے۔
محکمہ شماریات کے مطابق حیدر آباد کی آبادی 23 لاکھ 86 ہزار ہے جس میں خواتین کا تناسب 48 فیصد سے کچھ کم ہے۔ ضلع میں ہر خاندان اوسطاً چھ سے سات افراد پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع میں 25 فیصد خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کی رو سے یہاں 46 ہزار 214 خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔
سبزی منڈی میں مزدورخواتین کی تعداد تین سو کے قریب ہے۔ ان خواتین کو یہ بھی شکایت ہے کہ ان کا نام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل نہیں کیا گیا اسی لیے وہ مستحق ہونے کے باوجود حکومتی امداد سے محروم ہیں۔
سماجی کارکن شمیم مری کا کہنا ہے کہ ایسی اکثر خواتین کی بی آئی ایس پی میں رجسٹریشن نہ ہونے کی بڑی وجہ شناختی کارڈ نہ ہونا ہے۔ دوسری وجہ آگاہی کی کمی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ منڈی میں مردوں کو روزانہ اجرت 800 سے 1000 روپے تک ملتی ہے جبکہ خواتین کو تین سو روپے دیے جاتے ہیں۔ ان میں 100 روپے کرائے اور کھانے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ باقی دوسو روپے ہی بچتے ہیں جس سے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔
تاہم سبزی منڈی میں آڑھتیوں کی تنظیم فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن کے صدر الطاف میمن وضاحت کرتے ہیں کہ منڈی میں 234 تاجرسبزی اور 270 پھلوں کا کام کرتے ہیں۔ منڈی میں دو ہزار سے زیادہ مزدور ٹرکوں سے سامان اتارتے اور لادتے ہیں جبکہ انہیں ان سب لوگوں کے مسائل کا حل نکالنا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ منڈی میں کام کرنے والی خواتین کو کوئی آڑھتی نہیں بلاتا۔ وہ اپنی مرضی سے آتی ہیں۔ کام مل جائے تو کرکے چلی جاتی ہیں۔
"ان کا کام مردوں کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ عورتیں ایک جگہ بیٹھ کر چھانٹی کرتی ہیں جبکہ مرد بوریاں اٹھا کر ٹرکوں میں لوڈ کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں عورتوں سے زیادہ مزدوری ملتی ہے۔"
نیشنل ٹریڈ یونین کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور بتاتے ہیں کہ دیہاڑی دار مرد و خواتین کے لیے لیبر ڈپارٹمنٹ ہی کچھ کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ادارے اپنا کام ہی نہیں کرتے اور مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب قانون پر عمل ہی نہیں ہو گا تو مالکان کی مرضی ہے وہ آدھی اجرت دیں یا پوری۔
تیس سالہ شانتا بھی منڈی میں کام کرنے والی دیہاڑی دارخواتین میں سے ایک ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ انہیں دن بھر مردوں کے درمیان رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ عورتوں کے لیے منڈی میں کوئی سایہ دار جگہ ہے اور نہ پینے کے پانی کا کوئی انتظام۔ مجبوری میں انہیں مردانہ واش رومز استعمال کرنا پڑتے ہیں اور ہر وقت جنسی ہراسانی کا خوف رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'لاپتہ' محنت کش: پشاور کے مشہور تارو کباب کا خفیہ جزو خواتین کی محنت ہے!
سبزی منڈی میں آڑھتیوں کی یونین تو موجود ہے مگر اس میں کسی خاتون کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منڈی محکمہ محنت و افرادی قوت میں بھی رجسٹر نہیں اسی لیے یہاں لیبر قوانین کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ یہاں مزدور عورتوں تو کیا مرد مزدوروں کی بھی کوئی یونین یا انجمن نہیں ہے اس لیے وہ اجتماعی طور پر اپنے حقوق کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔
انسانی حقوق کمیشن حیدرآباد کی ریجنل کوآرڈینیٹر غفرانہ آرائیں کہتی ہیں کہ مزدور یونین کی بدولت ہی ایسے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خواتین کو متحد ہونے کی زیادہ ضرورت ہے۔ کمیشن اسی حوالے سے مزدور خواتین کی معاونت کر سکتا ہے۔
لیبر پالیسی 2010ء کے مطابق مزدوروں کو یہ حق ہے کہ وہ یونین بنا سکتے ہیں۔ یونین اس بات کی ضامن ہو گی کہ کسی جگہ کام کرنے کا ماحول تمام مزدوروں کے لیے سازگار ہو۔
تاریخ اشاعت 8 اگست 2023