گھوم پھر کر سبزیاں اور پھل فروخت کرنے والے عبدالرشید صدیقی کے پانچ سالہ بیٹے فرحان کو ایک سال قبل پیٹ میں شدید درد کی شکایت ہوئی۔ ان کی اہلیہ بیٹے کو مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں جس نے بچے کو انجکشن لگایا تو اس کی حالت بگڑ گئی اور وہ کچھ ہی دیر میں انتقال کر گیا۔
عبدالرشید نے اس ڈاکٹر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے محکمہ صحت اور ڈپٹی کمشنر نارووال کو درخواست دی مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
55 سالہ شمیم اختر نارووال کے گاؤں ڈومالہ میں رہنے والی گھریلو عورت ہیں۔ آٹھ ماہ قبل وہ جسم میں درد اور متواتر تھکن کی شکایت لے کر اپنے علاقے میں کلینک چلانے والے ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں۔ اس ڈاکٹر نے انہیں چند گولیاں اور کیپسول لکھ دیے اور کولہے پر ایک انجکشن لگا دیا۔ دو تین روز بعد کولہے میں شدید درد شروع ہو گیا اور بخار نے بھی آ لیا۔
شمیم بتاتی ہیں کہ مزید چند روز گزرنے پر اس جگہ پھوڑا بن گیا جہاں انجکشن لگایا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں معائندہ کروانے پر معلوم ہوا کہ انہیں غلط انجکشن لگایا گیا تھا جس سے انفیکشن ہو گئی۔
شمیم کو تین ماہ شدید تکلیف کا سامان کرنا پڑا اور علاج پر ان کے ہزاروں روپے خرچ ہو گئے۔
عبدالرشید اور شمیم نے جن مقامی 'ڈاکٹروں' سے رجوع کیا وہ تعلیم و تربیت یافتہ پیشہ ور ڈاکٹر نہیں بلکہ اتائی تھے۔ علاقے میں بہت سے لوگ بے خبری میں ایسے اتائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی صحت اور زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
سنکھترہ گاؤں کے سکول ٹیچر فہیم احمد بتاتے ہیں کہ گزشتہ 10 برس سے ان کے گاؤں میں ایک اتائی علاج کر رہا ہے جس کے پاس گرد و نواح کے دیہات سے بھی بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتائی طبی علم نہیں رکھتا اور مریضوں کو غلط اور غیر معیاری ادویات دیتا ہے۔
"محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کو اس بارے میں متعدد بار شکایات کی جا چکی ہیں، تین بار درخواستوں پر عمل ہوا اور اس کا کلینک سیل کر دیا گیا، مگر تینوں بار وہ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کو مبینہ طور پررشوت دے اور سفارش کروا کر پھر پریکٹس کرنے لگا۔"
شیخ عبدالرؤف نارووال میں وکالت کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ان کا کہنا ہے کہ اتائیت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا قانوناً محکمہ صحت، ضلعی انتظامیہ اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کا اختیار ہے۔
محکمہ صحت کے ڈرگ انسپکٹر بغیر لائسنس ایلوپیتھک ادویات رکھنے، فروخت کرنے یا لائسنس کے ساتھ غیر معیاری ادویات رکھنے اور فروخت کرنے پر میڈیکل سٹوروں اور ہسپتالوں کو سیل بھی کر سکتے ہیں۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ، ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ، چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے پاس میڈیکل کی تعلیمی اسناد اور پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن نہ ہونے، مریض کی زندگی سے کھیلنے، دھوکہ دہی اور فراڈ کرنے پر ان کے کلینک سیل کرنے اور ایف آئی آر درج کروانے کے اختیارات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ محکمے چاہیں تو اتائیت کا خاتمہ کرنا مشکل نہیں۔
پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے اتائیت کے خاتمے کے لیے 2010ء میں قانون سازی کرتے ہوئے اس ادارے کے قیام کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروایا تھا۔
ہیلتھ کیئر کمیشن پنجاب بھر میں چلنے والے سرکاری اور نجی ہسپتالوں اور کلینکس کو رجسٹرڈ کرتا ہے اور کام کرنے کے اصول یا ایس او پی کے تحت مریضوں کے چیک اپ اور علاج معالجے کی ہدایات جاری کرتا ہے۔
کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے کے لیے پہلے پی ایم ڈی سی سے لائسنس حاصل کرنا ہو گا اور بعد میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایس او پیز کے مطابق اپنا کلینک یا ہسپتال بنا کر رجسٹرڈ کروانا ہو گا۔
اسی طرح ہومیوپیتھک ڈاکٹروں اور حکما کو بھی پہلے نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھک/ طب سے خود کو رجسٹرڈ کروانا ہوگا اور پھر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے رجسٹرڈ کروانے کے لیے ان کی ہدایات اور ایس او پیز کے مطابق کلینک بنانا ہوگا۔
پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن سے خود کو رجسٹرڈ نہ کروانے والے کلینک اور ہسپتال غیر قانونی شمار ہوتے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اپنے قیام کے بعد اس نے صوبہ بھر میں ایک لاکھ 4641 کلینکس اور ہسپتالوں کا وزٹ کیا ہے اور 46 ہزار 837 اتائی معالجوں کے کلینک اور ہسپتال سیل کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں: شکرگڑھ اور ظفروال میں مقامی مریض ڈائلیسیز کی سہولت سے محروم
سابق بلدیاتی نمائندے امجد فاروق کہتے ہیں کہ محکمہ صحت ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ضلع نارووال میں اتائیت کے خاتمے اور اسے کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
ان کے مطابق ضلع نارووال کے سیکڑوں دیہات میں ہزاروں اتائی 'ڈاکٹر' انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اتائی غیر معیاری حتٰی کہ جانوروں کو دی جانے والی ادویات بھی انسانوں پر استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اتائیت کے خاتمے کے ذمہ دار اداروں کے اہلکار اتائیوں اور نجی ہسپتالوں سے ماہانہ رشوت بھی وصول کرتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر زاہد رندھاوا نے بتایا کہ اتائیوں کا ایک بڑا مافیا ہے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں جس بھی اتائی کا کلینک یا نجی ہسپتال سیل کرتی ہیں یا اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لاتی ہیں تو اس کے حق میں فوراً سیاسی مداخلت شروع ہو جاتی ہے۔
ان حالات میں ڈپٹی کمشنر نارووال محمد اشرف اتائیت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کے طے شدہ ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے والے کلینکس اور ہسپتالوں ہی کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
تاریخ اشاعت 2 اکتوبر 2023