ملک وحید احمد کی دکان اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں ایک وقت میں ایک ہی شخص بیٹھ سکتا ہے۔ وہ دستر خوان پر استعمال ہونے والے کپڑے اور رومال بیچتے ہیں لیکن ان کی بِکری کچھ زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ فیصل آباد کے کوریاں پُل نامی علاقے میں جہاں ان کی دکان ہے گاہکوں کی آمدورفت کم ہی رہتی ہے۔ ان کے مطابق ان کی روزانہ آمدنی ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔
چار سال پہلے ملک وحید احمد ہر ماہ لاکھوں روپے کما رہے تھے۔ وہ ایک فیکٹری کے مالک تھے جس میں 24 برقی کھڈیوں (پاور لومز) پر سوتی دھاگے سے کپڑا تیار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح کی ایک اور فیکٹری انہوں نے ٹھیکے پر بھی لے رکھی تھی۔
لیکن 2018 میں انہیں اپنی دونوں فیکٹریاں نا صرف بند کرنا پڑیں بلکہ اپنی برقی کھڈیاں بھی سستے داموں فروخت کرنا پڑیں۔ ان کے بقول انہوں نے 2016 میں ہر برقی کھڈی آٹھ لاکھ روپے میں خریدی تھی لیکن دو سال بعد انہیں اس کی آدھی قیمت ہی ملی۔ چونکہ کھڈیاں لگانے کے لئے انہوں نے قرض لے رکھا تھا اس لئے ان کی قیمت میں پڑنے والا خسارا پورا کرنے کے لیے انہیں اپنا گھر فروخت کرنا پڑا۔ یوں ان کے پاس دکان چلانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
گزشتہ کچھ عرصے میں فیصل آباد میں ملک وحید احمد جیسے سینکڑوں صنعت کار اسی طرح کی کساد بازاری کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق شہر کے صرف غلام محمد آباد نامی علاقے میں تقریباً 35 ہزار برقی کھڈیاں کوڑیوں کے داموں فروخت ہوئی ہیں۔
چند سال پہلے ایسی برقی کھڈیوں کا شور فیصل آباد کے کئی علاقوں میں دن رات سنا جا سکتا تھا۔ پتلی دیواروں اور نیچی چھتوں والی ہزاروں عمارتوں سے ہر وقت کھٹا کھٹ کی آوازیں آتی تھیں اور ان کے اندر کاریگر گھومتے دکھائی دیتے تھے۔ ملک وحید احمد کے مطابق 18-2017 میں شہر میں برقی کھڈیوں کی کل تعداد ڈھائی لاکھ سے پونے تین لاکھ کے درمیان تھی۔ صرف غلام محمد آباد میں لگ بھگ 40 ہزار کھڈیاں قائم تھیں۔
لیکن اب ان کی آواز اکا دکا گلیوں میں ہی سنائی دیتی ہے۔ کوریاں پُل میں جہاں چند سال پہلے قریباً 30 ہزار پاور لوم چل رہی تھیں اب بیشتر فیکٹریوں کو تالے لگ چکے ہیں یا ان کے مالکان نے کھڈیاں بیچ کر دوسرے کاروبار شروع کر لیے ہیں۔
نتیجتاً شہر میں معاشی بدحالی میں شدید اضافہ ہوا ہے اور 45 سالہ منیر احمد کی طرح کھڈیوں پر کام کرنے والے کاریگروں کو زندہ رہنے کے لئے ہر طرح کی جسمانی مشقت کرنا پڑ رہی ہے۔
اپریل کی ایک تپتی دوپہر کو وہ فیصل آباد کی سوتر منڈی میں ایک ہتھ ریڑھی پر سوتی دھاگے کی گانٹھیں لاد کر مختلف دکانوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کا بیٹا عادل چار ماہ پہلے تک ایک مقامی نجی سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن اب وہ بھی گانٹھوں کی نقل و حمل میں اپنے والد کی مدد کرتا ہے۔ دونوں باپ بیٹا دن بھر سوتر منڈی کی گنجان گلیوں میں ہتھ ریڑھی کھینچتے رہتے ہیں اور شام تک بمشکل اتنے پیسے کما پاتے ہیں کہ ایک دن کے راشن کا بندوبست ہو سکے۔
منیر احمد کہتے ہیں کہ "اگر میں ایک دن میں ریڑھی کے 20 چکر لگاؤں تو 600 روپے تک کما لیتا ہوں لیکن ان پیسوں سے میں اپنے تین بچوں اور بیوی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا"۔
دو سال پہلے وہ غلام محمد آباد میں برقی کھڈیوں کی ایک فیکٹری میں بطور شفٹ انچارج کام کرتے تھے اور ایک نسبتاً خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ وہ 35 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتے تھے اور فیکٹری کے مالک کی طرف سے انہیں ہر عید اور شب برات سے پہلے پورے خاندان کے لیے کپڑے بھی ملتے تھے۔
بحران کے اسباب
2018 میں جب برقی کھڈیوں کے لئے درکار سوتی دھاگے کی فراہمی میں شدید کمی آئی تو وحید رامے کو قادر آباد نامی علاقے میں 38 کھڈیوں پر مشتمل اپنی فیکٹری بند کرنا پڑی۔ اس کی جگہ اب پھولوں کی نرسری بنا دی گئی ہے۔
وحید رامے برقی کھڈیوں کے مالکان کی تنظیم کے صدر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس صنعت کے زوال کا بنیادی سبب پچھلے چند سالوں میں کپاس کی مقامی پیداوار میں آنے والی کمی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کپاس کی پیداوار میں 2019 کے مقابلے میں 4.2 فی صد کمی ہوئی۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق اس سال یہ پیداوار مزید کم ہو کر صرف 50 لاکھ گانٹھیں رہ جائیں گی۔
امریکی محکمہِ زراعت کی طرف سے دسمبر 2020 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں پاکستان میں کپاس کی متوقع پیداوار صرف 4.7 ملین گانٹھیں ہو گی جو کہ گزشتہ برس کی نسبت 24 فی صد کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ 2019-20 کی نسبت اس سال کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 10 فی صد کمی ہے۔
اگر اس صورتِ حال کا موازنہ 2014 میں پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس کی ایک کروڑ چھتیس لاکھ گانٹھوں سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سات سالوں میں اس فصل کی پیداوار میں لگ بھگ 60 فیصد کمی آئی ہے۔ لہٰذا کپاس کی مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ہر سال اس کی لاکھوں گانٹھیں بیرونِ ملک سے منگوانا پڑتی ہیں۔ اس سال بھی تقریباً 4.9 ملین گانٹھیں در آمد کی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں
کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔
وحید رامے کہتے ہیں کہ کپاس پاکستان کا سفید سونا تھا لیکن اس کی متبادل فصل کے طور پر گنے کا فروغ، گنے سے تیار ہونے والی چینی کے بڑے سرمایہ کاروں کو دی جانے والی مراعات، کپڑے کی چھوٹی فیکٹریاں چلانے کے لئے درکار بجلی کی قیمت میں اضافہ، سمگل شدہ کپڑے کی بہتات اور افغانستان کو کپڑے کی برآمد میں کمی نے اس فصل اور اس سے جڑی کئی صنعتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ان کے مطابق پچھلے کچھ عرصے میں پنجاب بھر میں تین لاکھ برقی کھڈیاں بند ہوئی ہیں اور ان پر کام کرنے والے 30 ہزار مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔
آل پاکستان یارن ایسوسی ایشن نامی تاجر تنظیم کے ترجمان ممتاز احمد کا بھی کہنا ہے کہ اس مسئلے کی جڑ ملکی کپاس کی پیداوار میں کمی اور کپڑے کی صنعت کا درآمدی کپاس اور درآمد شدہ سوتی دھاگے پر انحصار ہے۔ ان کے مطابق اس انحصار کے نتیجے میں بڑے سرمایہ کار جب چاہتے ہیں کپاس اور دھاگے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کر دیتے ہیں جس سے چھوٹے تاجر اور برقی کھڈیوں کے مالکان شدید متاثر ہوتے ہیں۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ بڑے سرمایہ کار دوسرے ممالک سے کپاس اور دھاگہ اس طرح منگواتے ہیں کہ پوری مقامی مارکیٹ کی طلب اور رسد ان کے ہاتھ میں آ جاتی ہے جس کے نتیجے میں "دھاگے کی ایک بوری کی قیمت میں ایک ہفتے میں دس ہزار روپے تک اضافہ ہو جاتا ہے"۔ ان کے مطابق قیمت میں اس طرح کے غیر متوقع اضافے سے "بڑے سرمایہ دار تو ارب پتی بن گئے ہیں لیکن درمیانے اور چھوٹے درجے کا تاجر کنگال ہو گیا ہے"۔
جہاں عروج وہاں زوال
برقی کھڈیوں کے شعبے پر عروج اس وقت آیا جب لگ بھگ دس سال پہلے کپڑا بنانے والے بڑے کارخانوں نے ان کی جگہ ایئر جیٹ والی کھڈیاں لگانا شروع کیں۔ اس وقت کارخانوں کی ترک کردہ برقی کھڈیاں چھوٹے سرمایہ کاروں نے خرید لیں اور ان کی مدد سے چھوٹے پیمانے پر کپڑا بنانا شروع کردیا۔
لیکن چند ہی سالوں میں ٹیکس کے نظام میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کھڈیوں کی شرح منافع کم ہوتے ہوتے ختم ہو کر رہ گئی۔ مثال کے طور پر یہ کھڈیاں حکومتی ٹیکس مشینری میں رجسٹرڈ نہیں ہیں اس لئے انہیں بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکس دینا پڑتا ہے جبکہ بڑے کارخانے ٹیکس مشینری میں رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہیں۔
اسی طرح، وحید رامے کے بقول، ایک بوری کپاس درآمد کرنے کے لیے برقی کھڈیوں کے مالکان کو نو امریکی سینٹ سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے لیکن بڑے کارخانہ داروں سے یہ ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا "جس کی وجہ سے چھوٹی صنعتیں منفی طور پر متاثر ہو رہی ہیں"۔
دوسرے لفظوں میں محض کپاس کی مقامی پیداوار میں بہتری بھی ان کھڈیوں کو منافع بخش نہیں بنا سکتی۔ اس لئے کاروباری افراد اور تنظیموں پر مشتمل ایک غیر سرکاری ادارے، آل پاکستان بزنس ایسوسی ایشن، کی ایک حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صنعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں روز بروز کمی آ رہی ہے۔ جو لوگ ابھی تک اس صنعت سے وابستہ ہیں وہ ایک تو اپنی برقی کھڈیاں کباڑ کی قیمت میں فروخت نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے "ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بیشتر لوگ ان کے اپنے افرادِ خانہ ہی ہیں"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 3 مئی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 2 ستمبر 2021