تیرہ روز قبل پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ نے "پنجاب پولیس رحیم یار خان کی کچہ کے علاقے میں بڑی کامیابی" کے عنوان سے ایک ہینڈ آؤٹ جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ پولیس نے سابق ایس ایچ او ماچھکہ رانا رمضان کی شہادت میں ملوث خطرناک ڈاکو سرمد بھائیو اور ساجن ملوکانی کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔
ہینڈ آؤٹ کے مطابق رحیم یار خان پولیس نے کچہ کے موضع سکندر چاچڑ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، ڈاکوؤں نے پولیس کو دیکھ کر شدید فائرنگ شروع کر دی، فائرنگ کے تبادلے میں دونوں ڈاکو ہلاک ہوگئے۔
"دونوں دہشت گردی سمیت جرائم کی متعدد سنگین وارداتوں میں مطلوب تھے۔پولیس نے ہلاک ڈاکوؤں سے دو کلاشنکوفوں سمیت سیکڑوں گولیاں برآمد کیں۔"
ڈی پی او رحیم یار خان رضوان عمر گوندل نے بتایا کہ آپریشن میں ایس ایچ او ماچھکہ جام اعجاز ،ایس ایچ او بھونگ نوید واہلہ ،انچارج سی آئی اے سیف اللہ ملہی اور ایلیٹ کمانڈوز کے ہمراہ پولیس کی بھاری نفری نے حصہ لیا۔
ہینڈ آؤت میں یہ بھی بتایا گیا کہ آئی جی پنجاب نے کامیاب کارروائی پر ڈی پی او رضوان عمر گوندل اور ٹیم کو شاباش دی ہے۔
ساجن ملوکانی کے چچا زاد عاشق ملوکانی پولیس کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ساجن ملوکانی ڈاکو نہیں بلکہ قانون کے طالب علم تھے اور جامشورو یونیورسٹی کے حیدرآباد کیمپس میں چھٹے سمسٹر میں پڑھتے تھے جنہیں ایک سال قبل جبری لاپتا کر دیا گیا تھا۔
بائیس سالہ ساجن ملوکانی، ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر علی دوست ملوکانی کے صاحبزادے تھے جو ضلع بینظیر آباد (نوابشاہ) میں تحصیل ہیڈکوارٹر قاضی احمد کے گاؤں دھنی بخش ملوکانی کے رہائشی ہیں۔
عاشق ملوکانی کہتے ہیں کہ ساجن گزشتہ تین سال سے تعلیم کے لیے حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں مقیم تھے۔
"پچھلے سال یکم ستمبر 2023ء کو ساجن ملوکانی اپنے ساتھی طالب علم اور ماموں زاد عبدالغنی ملوکانی کے ہمراہ گاؤں آنے کے لیے پبلک وین میں بیٹھے تھے کہ حیدرآباد کے نسیم نگر چوک قاسم آباد میں سول کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد نے گاڑی کو روک لیا۔
انہوں نے ساجن کو زبردستی گاڑی سے اتارا اور سفید رنگ والے 'بغیر نمبر پلیٹ' ویگو ڈالے میں اپنے ساتھ لے گئے۔"
ان کے بقول ساجن کو جن دنوں غائب کیا گیا اسی ماہ گاؤں سے مزدوری کے لیے جانے والے شوکت ملوکانی اور بارہویں جماعت کے طالبعلم نعیم ملوکانی کو بھی اٹھایا گیا تھا۔ تاہم ان دونوں کو بعدازاں قاضی احمد پولیس نے بم دھماکا کیس میں عدالت پیش کر دیا تھا اور وہ تا حال سنٹرل جیل حیدرآباد میں ہیں۔
طالب علم ساجن ملوکانی کی غم سے نڈھال ماں مسماۃ لکھی ملوکانی بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے علاقے کے ہر بااثر آدمی کے دروازے پر دستک دی۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر، بھائی ولی محمد اور بیٹا راول ساجن کی بازیابی کے لیے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفی شاہ، ارکان سندھ اسمبلی غلام قادر چانڈیو، بہادر ڈاہری کے علاوہ جی ایم سید کے پوتے سید زین شاہ کے پاس گئے اور ان کی منتیں کیں۔
"بیٹا لاپتہ تھا اور مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ سب نے کہا ہماری بات چیت چل رہی ہے آپ صبر کریں انشااللہ بچہ مل جائے گا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"
انہوں نے بتایا کہ دو ماہ قبل مجبور ہو کر وہ اپنے بیٹے کے اغوا کی شکایت لےکر سندھ ہائیکورٹ جا پہنچیں جہاں پہلی بار بیٹے کی بازیابی کی امید جاگی تھی۔
لیکن حیدرآباد پولیس نے ساجن کو پیش نہیں کیا بلکہ کچھ مقدمات کا ریکارڈ لاکر عدالت عالیہ کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ وہ مفرور دہشت گرد ہے جس کا کسی کالعدم جماعت سے بھی تعلق ہے۔
" یہ سب کچھ میری درخواست کے بعد سامنے لایا گیا جبکہ میں اس سے پہلے کئی تھانوں اور پولیس افسروں کے پاس چکر لگا چکی تھی مگر کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا۔ عدالت کے طلب کرنے پر پولیس اچانک اتنے سارے الزامات لے آئی۔"
ساجن ملوکانی کی ماں نے ہائیکورٹ میں ایس ایس پی حیدرآباد کو بھی فریق بنایا تھا۔
ایس ایس پی حیدر آباد ڈاکٹر فرخ لنجار نے 28 اگست 2024ء کو اپنے تحریری جواب میں عدالت عالیہ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ درخواست گذار نے اپنے بیٹے کے لاپتا ہونے سے متعلق تھانہ قاسم آباد، چیک پوسٹ نسیم نگر یا حیدرآباد پولیس سے کوئی رابطہ کیا نہ ہی کوئی شکایت درج کرائی ہے۔
"درخواست گذار کا بیٹا ساجن ملوکانی نہ صرف مطلوب مجرم ہے بلکہ اس کا کالعدم تنظیم سندھ ریولیوشنری آرمی(ایس آر اے) سے تعلق ہے۔ اس کے خلاف سی ٹی ڈی حیدرآباد اور تھانہ قاضی احمد میں قتل، ریلوے ٹریک پر بم دھماکے اور پولیس مقابلے کے مقدمات درج ہیں۔"
پولیس کے مطابق تھانہ قاضی احمد میں ساجن کے خلاف ایک کیس کرائم نمبر 253/2023 درج ہے جبکہ سی ٹی ڈی تھانہ حیدرآباد میں دو مقدمات کرائم نمبر 07/2024 اور کرائم نمبر 13/2024 درج ہیں۔
ایس ایس پی نے عدالت کو کہا کہ ملزم کی والدہ مقدمات سے لاعلمی کا اظہار کر کے اپنی معصومیت کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے عدالت آئی ہیں۔
ساجن اغوا و لاپتہ کیس میں مسماۃ لکھی ملوکانی کے وکیل محب آزاد ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ساجن کی بازیابی کے لیے 15 اگست 2024ء کو سندھ ہائیکورٹ حیدرآباد بنچ میں درخواست دائر کی تھی جس کا پٹیشن نمبر ڈی1287/2024 ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایس ایس پی ڈاکٹر فرخ نے 'مینج کیا گیا' ریکارڈ عدالت میں پیش کیا ہے۔
"سی ٹی ڈی حیدرآباد میں ساجن ملوکانی پر جو پرچے دکھائے گئے وہ 13 اگست 2024ء کو درج ہوئے اور تھانہ قاضی احمد میں تین اگست 2023ء کا پرچہ ظاہر کیا گیا ہے جس میں ساجن ملوکانی کا نام شامل ہی نہیں۔ جبکہ ہماری پٹیشن رواں سال 15 اگست کو دائر ہوئی۔"
ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں کیس کی اگلی سماعت آئندہ ماہ یعنی پانچ نومبر کو ہونی تھی جس میں عدالت نے پولیس کو ہر صورت میں ملزم تلاش کر کے پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔
"لیکن اس سے پہلے ہی نوجوان بیٹے کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی۔ ساجن ملوکانی کو رحیم یار خان پولیس کی طرف سے کچے میں ایسے'جھوٹے' پولیس مقابلے مارنے کا دعویٰ کیا گیا جس میں پولیس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔"
انہوں نے کہا کہ ساجن ملوکانی قانون کا طالبعلم تھا جس پر اگر کوئی الزام تھا تو انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا اور صفائی کا موقع دیا جاتا۔ مگر یہاں ماورائے عدالت قتل کی ریاستی روایت اب مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی میں پولیس کے ہاتھوں تین بے گناہ نوجوانوں کا قتل 85 لاکھ اور تین بیلوں کی قربانی کے بدلے معاف
ساجن کی ماں کہتی ہیں کہ عدالت نے تو پولیس کو حکم دیا تھا کہ اگر ملزم مفرور ہے تو ڈھونڈ کر پیش کریں۔ لیکن پولیس کبھی کہتی کہ ساجن کا شناختی کارڈ بلاک کر دیا ہے اور کبھی بتاتی کہ ملزم کی تلاش جاری ہے۔
"میں اپنے ساجن کی راہ دیکھتی رہی مگر میرا بیٹا مجھے نہیں ملا۔ ایک دن لڑکے یہ منحوس خبر لائے کہ ساجن کو پنجاب میں مار دیا گیا ہے۔ ظالمو میرا بیٹا تو کالے کوٹ میں پڑھنے گیا تھا اس نے تو مظلوموں کو انصاف دلانا تھا۔"
عاشق ملوکانی بتاتے ہیں کہ انہیں قتل کے نو روز بعد یعنی 15 اکتوبر کو سوشل میڈیا سے پتا چلا کہ رحیم یار خان پولیس نے مقابلے میں دو دھاڑیل (ڈاکو) مارے ہیں جن میں سے ایک کا نام ساجن ملوکانی ہے۔
"ساجن کا بھائی راول اور ماموں زار عبدالغنی تھانہ ماچھکہ پہنچے جہاں انہیں چھ اکتوبر کو ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کی کہانی سنائی گئی اور بتایا گیا کہ لاش سرد خانے میں پڑی ہے۔ دونوں نے لاش کو بطور ساجن ملوکانی شناخت کیا اور 16 اکتوبر کو لاش رحیم یار خان سے گاؤں لائی گئی۔"
لواحقین نے رات کے اندھیرے میں قانون کے اس طالب علم کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا۔
ساجن کی آخری رسومات میں سندھ بھر سے لوگوں نے شرکت کی اور ان کی قبر پر پھول اور اجرکیں چڑھائیں۔
لگتا ہے اب چھ نومبر کو سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور لاپتا شہری کا کیس نمٹا دیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 18 اکتوبر 2024