ننکانہ صاحب میں تعمیراتی پالیسی کی عدم موجودگی مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن گئی

postImg

جاوید احمد معاویہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ننکانہ صاحب میں تعمیراتی پالیسی کی عدم موجودگی مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن گئی

جاوید احمد معاویہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

محمد اعظم بھٹی ننکانہ صاحب کے نواحی گاٶں خیرپور خونی میں پانچ ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ یہی ان کے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے۔انہوں نے اپنی جوانی تو کھیتوں میں گزار دی مگر چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں اور بہتر زندگی گزاریں۔

اعظم بھٹی کی بیٹی اور دو بیٹے ابھی پرائمری میں پڑھتے ہیں۔مگر وہ جانتے تھے کہ چند سال بعد انہیں بچوں کو شہر بھیجنا پڑے گا۔اس لیے انہوں نے پہلے ہی خاندان سمیت ننکانہ شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی جمع پونجی اکٹھی کی، چند دوستوں سے ادھار پکڑا اور ننکانہ صاحب میں پانچ مرلے کا پلاٹ خرید لیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے پلاٹ پر تعمیر کا آغاز کیا تو متروکہ وقف املاک بورڈ کا عملہ وہاں پہنچ گیا۔

اہلکاروں نے انہیں کہا کہ "آپ اس زمین پر گھر تعمیر نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کیا گیا تو تعمیرات کو گرا کر سامان قبضے میں لے لیا جائےگا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔"

 اعظم پریشان ہو گئے۔انہوں نے مقامی سیاسی دوستوں کے ذریعے متروکہ وقف بورڈ کے ذمہ داران سے ملاقات کی۔ یہاں انہیں پلاٹ پر تعمیر کا "طریقہ" تومعلوم ہو گیا لیکن  وہ کسی اور مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔

انہوں نے ننکانہ شہر میں ایک مکان کرائے پر لیا اور اس میں منتقل ہو گئے۔اسی دوران انہوں نے اپنا پلاٹ اونے پونے داموں بیچ دیا۔

یہ تکلیف صرف اعظم کو ہی برداشت نہیں کرنا پڑی بلکہ یہاں ہر ایک کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔

ننکانہ صاحب سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کی جاٸے پیداٸش ہے۔وہ 15 اپریل 1469ء کو یہیں پیدا ہوٸے تھے۔ اس شہر کا پرانا نام 'راٸے بھوٸے دی تلونڈی' تھا۔

کہا جاتا ہے کہ بابا گورونانک کے والد کلیان یہاں کے بڑے جاگیردار راٸے بلار بھٹی کی زمینوں کا حساب کتاب رکھتے تھے۔روایتوں کے مطابق رائے بلار بھٹی، بابا گورونانک کے پرچار سے بہت متاثر ہوئے اور اپنی 15 سو مربع (ساڑھے37 ہزار ایکڑ) زمین میں سے آدھی بابا گورونانک کو دے دی۔

1947 کے بعد سے ننکانہ صاحب شہر اور نواح میں واقع یہ ساڑھے سات سو مربع (18 ہزار 7 سو پانچ ایکڑ) اراضی متروکہ وقف املاک بورڈ کی تحویل میں ہے۔ ضلعی ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر بورڈ عمر جاوید اعوان تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اراضی ان کے ادارے کے زیر انتظام ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ بورڈ کے قوانین کے تحت وہ افراد جن کا اس زمین کے کسی حصے پر 1995 سے پہلے کا قبضہ ہے وہ بورڈ کے کرایہ دار بن کر تعمیرات کر سکتے ہیں۔ اس کے سوا یہاں کوئی تعمیرات نہیں کر سکتا۔

یوں ننکانہ صاحب 'کرائے کا شہر'بن کر رہ گیا ہے۔ ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کہتے ہیں کہ کوئی طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر یہاں کوئی بھی تعمیر 'ناجائز' تصور ہوگی اور اس کے خلاف محکمہ فوری کارروائی کا استحقاق رکھتا ہے۔

"محکمہ قابضین سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق کرایہ وصول کرتا ہے۔ رہائشی مکان کا کرایہ تین سے پانچ سو روپے فی مرلہ جبکہ کمرشل جگہ کا کرایہ پانچ سے 20 ہزار روپےتک مقرر کیا گیا ہے۔ کرایہ ہر دو ماہ بعد بل بنوا کر آن لاٸن جمع کرایا جاتا ہے۔ زرعی زمین مخصوص مدت کے لیے نیلامی کے ذریعے پٹے (ٹھیکہ) پر دی جاتی ہے۔ 2018ء تک فی ایکڑ ٹھیکہ ایک ہزار460 روپے تھا اس کے بعد سے یہ بڑھا کر ساڑھے چار ہزارروپے فی ایکڑ کر دیا گیا ہے۔"

ان کے مطابق یہ تمام آمدنی متروکہ وقف املاک بورڈ کے لاہور آفس میں جمع ہوتی ہے اور اوقاف بورڈ کے ارکان کی منظوری سے ملک بھر میں  گوردواروں، ترقیاتی کاموں اور سکھ برادری کی بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔

اس آمدنی سے کئی سکول، ہسپتال، ڈسپنسریاں اور دیگر فلاحی ادارے بھی چل رہے ہیں اور ان سے  تمام مذاہب کے ماننے والے مستفید ہو رہے ہیں۔

لیکن مقامی لوگوں کا اعتراض ہے کہ محکمہ وقف املاک ننکانہ صاحب سے بہت بڑی رقم جمع کرتا ہے لیکن اس سرمائے کو شہر کی ترقی پر لگانے کی بجائے دوسرے شہروں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ضلعی ہیڈکوارٹر ننکانہ صاحب کی حالت کسی پسماندہ قصے  سے بھی زیادہ خراب ہے۔

بابا گورو نانک گرودوارے کے سامنے والے بازار کی دکانیں بھی انتہائی خستہ حال ہیں۔ شہر میں صحت اور تعلیم کا سرکاری و نجی نظام بھی بہتر نہیں ہے۔

ایک مقامی نوجوان جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کہتے ہیں کہ بابا گورونانک کے جنم دن پر یہاں ہزاروں یاتری آتے ہیں لیکن ان کی رہائش کے لیے ایک آدھ کے سوا کوئی اچھا ہوٹل نہیں ہے۔

 "اس شہر میں خریداری کے لیے کوئی ڈھنگ کی دکان ہے نہ کھانے کے لیے اچھا ریسٹورنٹ"۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک سال پہلے ان کے ایک مسلمان دوست کسی اور شہر سے گوردوارہ دیکھنے آئے۔ رات کو انہیں ننکانہ صاحب میں ہی ٹھہرنا تھا۔انہوں نے پورے شہر میں رہائش کے لیے جگہ تلاش کی تو صرف ایک ہوٹل ایسا ملا جو قدرے بہتر تھا لیکن وہاں کمرہ خالی نہیں تھا۔ مجبوراً انہیں دوست کو گوردوارے ہی میں ٹھہرانا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ قدرے خوشحال ہیں انہیں خریداری کے لیے لاہور، فیصل آباد یا شیخوپورہ جانا پڑتا ہے ۔یہاں صحت اور تعلیم کی ناقص سہولیات کے باعث بہت سے لوگ دوسرے شہروں یا قریبی قصبوں بچیکی اور واربرٹن چلے جاتے ہیں۔

شہر بھر میں زیادہ تر پرانے گھر ہیں۔ مقامی لوگ 'کرائے کے مکانوں' پر سرمایہ کیوں لگائیں گے جبکہ انہیں خدشہ رہتا ہے کہ کسی نہ کسی دن محکمے والوں نے یہ مکان ان سے واپس لے لینا ہیں۔

گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب کے گرنتھی گیانی بلونت سنگھ کہتے ہیں کہ اصولاً تو اس زمین کی تمام آمدن گوردواروں اور انسانی فلاح  پر خرچ ہونی چاہیے۔"اگر  یہ آمدنی ایمانداری سے یہاں خرچ کی جاٸے تو ننکانہ صاحب  چند سال میں دنیا کا خوبصوت ترین شہر بن سکتا ہے مگر افسوس ایسا کبھی کسی نے نہیں سوچا۔"۔

ان کا کہنا تھا کہ دکھ کی بات ہے کہ بابا گرونانک جی کی زمین پر رات کے اندھیرے میں تو تعمیرات ہوتی ہیں لیکن  دن کی روشنی میں سکھوں سمیت کوئی بھی قانونی طور پر یہاں گھر نہیں بناسکتا۔

ان کا ماننا ہے کہ ننکانہ صاحب میں سب کواپنا گھر بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی اہمیت کے حامل اس شہر میں لوگ ہوٹل، کالج، یونیورسٹیوں اور مختلف برانڈز پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کا کوئی قانونی راستہ نہیں ہے۔

ان کے خیال میں ننکانہ میں کاروبار اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث لوگوں کے پاس زرعی مزدوری کے سوا روزگار کا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ ضلع میں غربت اور شہر میں غیرقانونی تعمیرات دونوں بےہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہیں۔

وہ مشورہ دیتے ہیں کہ بہتر یہی ہوگا کہ قانونی طریقے سے نئی کالونیاں بناٸی جائیں جہاں پارک مسجد، مندر، ہسپتال سکول سمیت تمام ضروری سہولیات موجود ہوں۔

گیانی بلونت سنگھ کہتے ہیں کہ جنم استھان سمیت ساتوں گوردواروں کو ایک ہی احاطے  میں ہونا چاہیے تاکہ سکھ یاتری یا سیاح باآسانی ان گوردواروں کی یاترا کر سکیں۔ ایسا کرنے سے جو لوگ یہاں سے باہر منتقل ہوں حکومت انہیں  متبادل کے طور پر اچھی رہائش گاہیں فراہم کرے۔

 پنجابی سکھ سنگت پاکستان کے چیئرمین سردار گوپال سنگھ کا بھی یہی خیال ہے کہ یہاں تعمیرات بورڈ ملازمین کی ملی بھگت سے ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔ بابا گورونانک کی زمین پر تعمیرات کے لیے آسان پالیسی بنانی چاہیے جس سے لوگوں کو  آسانی اور محکمے کی آمدن میں اضافہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ گوردواروں کا زیادہ تر کام  کارسیوا کمیٹیاں دنیا بھر سے عطیات جمع کر کے کرواتی ہیں۔ متروکہ وقف املاک کی آمدنی کو خرچ کرنے کے طریقہ کار میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اس معاملے میں سکھ کمیونٹی سے مشاورت ہونی چاہیے۔

سماجی کارکن ڈاکٹر عابد علی عابد کا کہنا ہے کہ 2005 میں ننکانہ صاحب کو جب ضلع بنایاگیا تو اس وقت یہاں تعمیراتی  پالیسی بھی بنا لینی چاہیے تھی۔ شہر میں عمارتیں، دفاتر ،رہائش گاہیں  بنانے کی ضرورت تھی مگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔

وہ بتاتے ہیں  کہ 1998ء میں ننکانہ شہر کی آبادی ساڑھے68 ہزار تھی اور 2017ء میں یہ صرف 80 ہزار  تک پہنچی ہے کیونکہ لوگ یہاں سے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں واربرٹن اور بچیکی کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیوں وہاں ترقی کے مواقع ننکانہ شہر سے زیادہ ہیں۔

ڈاکٹر عابد نےبتایا کہ شہر میں کوئی قانونی رہائشی کالونی یا ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں ہے ۔بعض بااثر افراد نے محکمے کی مبینہ ملی بھگت سے کچھ اراضی فروخت کر کے اسے کالونیوں کا نام دے دیا ہے۔ لیکن ان میں پارک یا سکول جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

مقامی لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ متروکہ وقف املاک کے زیر کنٹرول یہ زمین شہر میں مذہبی ہم آہنگی کا ماحول بھی خراب کر رہی ہے۔

دلاور سنگھ پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے چونکہ یہ جائیداد گوردوارہ صاحب کی ملکیت ہے۔ اس لیے جب بھی کرائے کا مسئلہ ہوتا ہے یا حکومت قابضین سے کوئی جگہ خالی کرانے کی کوشش کرتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کے پیچھے سکھ کمیونٹی کا ہاتھ ہے۔

 سینئر صحافی عابد حمید فاروقی بھی اس بات سے متفق ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2016ء میں حکومت نے ناجائز قابضین سے زمین واگزار کرانے کی کوشش کی تو احتجاج شروع ہو گیا اور گوردوارے کے سامنے وقف املاک کے دفتر کو آگ لگا دی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ دفتر گوردوارہ صاحب کے عین سامنے تھا تو دنیا بھر میں یہ تاثر گیا کہ شاید  سکھوں کے مقدس مقام پر حملہ ہوا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ اگر وقف زمین پر تعمیراتی پالیسی باقاعدہ اور آسان پالیسی بنا دی جاٸے تو شہر کی خوبصورتی اور حکومتی آمدنی بڑھے گی۔ لوگوں کو بہتر سہولیات ملیں گی اور شہر میں مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے گا۔

یہاں ضلعی انتظامیہ بھی متروکہ وقف املاک کے قوانین سے تنگ اور برہمی کی حد تک بے بس نظر آتی ہے۔ترجمان ثاقب شہزاد کے مطابق وقف املاک کی زمین پر تعمیرات سے متعلق بورڈ کے قوانین ننکانہ صاحب شہر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

متروکہ املاک کا ضلع: ننکانہ صاحب کی میونسپل کمیٹی کنگال کیوں ہوئی؟

وہ بتاتے ہیں کہ یہاں جدیدٹراما سنٹر کا منصوبہ جگہ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔اب یہ سنٹر ڈی ایچ کیو ہسپتال کے اندر ہی بن ریا ہے۔جگہ کی وجہ سے بےشمار مساٸل کا سامنا ہے۔وقف بورڈ کی وجہ سے تعلیم صحت اور کھیل سمیت کئی منصوبے شروع نہیں ہوسکے۔

ترجمان کہتے ہیں کہ مختلف اداروں کےدفاتر کے لیے جگہ نہیں ہے۔ کئی دفاتر کرائے کی جگہ پر  ہیں ۔یہاں تک کہ  ڈپٹی کمشنر کمپلیکس بھی بواٸز کالج کی آدھی عمارت کو الگ کر کے بنایا گیا۔اس سے کالج کو بھی جگہ کی کمی کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ متروکہ وقف املاک وفاقی محکمہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر آفس  نے وقف بورڈ کے اعلیٰ حکام کو متعدد مرتبہ شہر میں اس اراضی پر تعمیرات کی  واضع اور آسان پالیسی بنانے کی درخواست کی ہے۔ اگر اس پر غور کر لیا جائے تو شہر کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 6 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جاوید احمد معاویہ کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے۔ عرصہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.