میاں فرمان علی کے بھٹے پر زور و شور سے کام جاری ہے۔ اس کے چاروں اطراف ایک وسیع میدان میں مزدور کچی اینٹیں تیار کر رہے ہیں جبکہ بھٹے کے اندر ایک طرف مزدور کچی اینٹوں کو ترتیب سے ایک دوسرے کے اوپر لگا رہے ہیں اور دوسری طرف پکی اینٹوں کو ریڑھیوں پر لاد کر باہر نکال رہے ہیں۔ اس کی چمنی سے نکلنے والا دھواں سفید مرغولوں کی صورت میں تحلیل ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔
اس بھٹے کی واحد نمایاں خصوصیت اس سے نکلنے والے دھوئیں کا رنگ نہیں بلکہ اس کی ساخت اور اس کے اندر اینٹوں کے رکھنے کا طریقہ کار بھی کالا دھواں چھوڑنے والے بھٹوں سے مختلف ہے۔ ان کے برعکس یہاں اینٹیں ایک دوسرے کے اوپر ایک موٹی دیوار کی طرح جوڑنے کے بجائے ایک آڑے ترچھے طریقے سے رکھی جا رہی ہیں تا کہ گرم ہوا ان کے درمیان سے آسانی سےگزر سکے۔ دوسرے بھٹوں میں اینٹیں جس طرح ترتیب دی جاتی ہیں اس سے انہیں پکانے کے لیے زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کوئی خلا نہیں ہوتا مزید برآں ان بھٹوں میں ہوا کی غیر موجودگی میں ایندھن میں موجود کاربن پوری طرح جل نہیں پاتی جسکی وجہ سے یہ گاڑھا کاربن بھرا زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں۔
فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں واقع میاں فرمان علی کے بھٹے میں استعمال ہونے والے اس نئے طریقہ کار کو زگ زیگ ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ بھٹے کے اندر بنایا گیا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جو اینٹیں پکانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن سے خارج ہونے والی زہریلی اور مضر صحت گیسوں اور دوسرے عناصر کی مقدار کو کم سے کم کر دیتا ہے۔ اس طریقہ کار پر چلنے والے بھٹوں میں روایتی بھٹوں کی نسبت آگ سے پیدا ہونے والی تپش کو ایک بڑے برقی پنکھے کے ذریعے اینٹوں کے درمیان سے گزارا جاتا ہے تا کہ سبھی اینٹوں کو یکساں حرارت مل سکے۔ بھٹے کے اندر ہوا کی موجودگی سے کوئلہ جلنے کا عمل بھی زیادہ موثر ہو جاتا ہے اور کوئلے میں موجود زیادہ تر کاربن بھٹے کے اندر ہی جل جاتی ہے چنانچہ ایسے بھٹوں کا دھواں سیاہ ہونے کی بجائے سفید اور نسبتا کم زہریلا ہوتا ہے۔
اس طریقہ کار کی پاکستانی بھٹوں میں آمد کا باعث پاکستان، خاص طور پر پنجاب، میں گزشتہ کچھ سالوں سے بڑھتی ہوئی فضائی اور ماحولیاتی آلودگی اور سردیوں کے اوائل میں آنے والی سموگ (smog) ہے جسے پیدا کرنے میں اینٹیں بنانے والے بھٹوں کا ایک اہم کردار ہے جس کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے محکمہ ماحولیات کو پابند کیا ہے کہ وہ آلودگی پھیلانے والے تمام بھٹوں کو سات نومبر 2020 سے بند کرنا شروع کرے۔ اسی طرح پنجاب کے تمام بھٹہ مالکان کو صوبائی حکومت کی طرف سے حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ 31 دسمبر 2020 تک اپنے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر لیں ورنہ ان کے بھٹے بند کردیے جائیں گے۔
اس پابندی سے بچنے کے لیے بہت سے روایتی بھٹے چوری چھپے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک بھٹہ فیصل آباد کے نواحی گاؤں روشن والا سے چند کلو میٹر کی دوری پر کام کر رہا ہے۔ بظاہریہاں کوئی گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ نہ ہی مزدور نئی کچی اینٹیں بنا رہے ہیں اور نہ ہی تیار شدہ اینٹوں کو بھٹے کے اندر لگایا جا رہا ہے مگر اس کی چمنی سے اٹھتے کالے دھوئیں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ابھی بھی پرانی ٹیکنالوجی پر چل رہا ہے۔
اس بھٹے کے مالک بشارت علی سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے بھٹوں کی بندش کا اعلان ہونے کے بعد انہوں نے کچی اینٹیں بنانے کا کام بند کر رکھا ہے اور اب صرف بھٹے میں پکنے کے لیے رکھی اینٹوں کو ہی تیاری کے مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔ تاہم انہیں شکایت ہے کہ 'حکومت اور عدالتیں بھٹہ مالکان کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل ہونے کے لئے زور تو لگا رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر رہی ہیں'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی نصب کرنے کے ماہر کاریگر آسانی سے دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق ایسے ماڈل بھٹے بنائے ہیں جن سے بھٹہ مالکان اس ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں 'اس لئے وہ اپنے طور پر تجربات کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ان میں سے بیشتر لوگ لاکھوں روپے کا نقصان اٹھا چکے ہیں'۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زگ زیگ ٹیکنالوجی خامیوں سے مبرا نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس ٹیکنالوجی میں ایک ایسا سقم ہے جس کی وجہ سے کوئلے کو ہوا پہنچانے والے پنکھے کچھ عرصہ چلنے کے بعد خراب ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اینٹوں تک حرارت یکساں طور پر نہیں پہنچتی اور ان کی ایک بڑی تعداد نیم پختہ رہ جاتی ہے یوں بھٹہ مالکان کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میاں فرمان علی بشارت علی سے متفق نظر نہیں آتے۔ انہیں اپنے بھٹے کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیے ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'عام بھٹوں کی نسبت میرے بھٹے میں کوئلے کے استعمال میں تیس فیصد کمی آئی ہے۔ پہلے میں چوبیس گھنٹوں میں تقریبا تیس ہزار اینٹ تیار کرتا تھا لیکن اب میرے بھٹے پرایک دن میں ساٹھ ہزار اینٹ تیار ہو رہی ہے جس کا معیار بھی پہلے سے بہتر ہے'۔
زگ زیگ ٹیکنالوجی کی تنصیب میں مالی نقصان سے بچنے کے لیے وہ بھٹہ مالکان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو اچھی طرح سیکھنے سے پہلے اپنا بھٹہ اس پر منتقل نہ کریں کیونکہ بہت سے لوگ ایسا کر کے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہیں۔
حکومت کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن پر بات کرتے ہوئے میاں فرمان علی کہتے ہیں کہ اکثر بھٹہ مالکان کا مؤقف ہے کہ 31 دسمبر 2020 تک تمام بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا نا ممکن ہے کیونکہ اس کو استعمال کرنے والا بھٹہ بنانے پر شروع میں بہت خرچہ آتا ہے جس سے بھٹہ مالکان مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ پرانی ٹیکنالوجی تھوڑے پیسے سے بھی چل سکتی ہے'۔
ان اخراجات کے بارے میں محکمہ ماحولیات قصور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد نعمان یونس کا کہنا ہے کہ 'ایک بھٹے کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لیے اوسطا چھ سے سات لاکھ روپے درکار ہیں جو بھٹہ مالکان آسانی سے ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا سال اس کاروبار سے منافع کماتے ہیں لہٰذا بھٹہ مالکان کا یہ کہنا کہ ان کے پاس زگ زیگ ٹیکنالوجی کے لیے پیسے نہیں ہیں محض ایک بہانہ ہے'۔
بھٹہ مالکان کے علاوہ بھٹہ مزدور بھی حکومت کی طرف سے بھٹوں کی بندش کے حکم نامے سے پریشان ہیں۔ آل پاکستان بھٹہ مزدور یونین پنجاب کے سیکٹری جنرل محمد شبیر کا کہنا ہے کہ اگر 31 دسمبر کے بعد پنجاب میں موجود اکثر بھٹے بند کر دیے جائیں گے تو یہ مزدور جو پہلے ہی بہت کم تخواہوں اور غیر مناسب اور غیر محفوظ حالات میں کام کرتے ہیں فاقے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
سجاگ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'بھٹوں کی صنعت بند ہونے کی صورت میں وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھٹہ مزدوروں کو وفاقی حکومت کے مالی امداد فراہم کرنے والے احساس پروگرام میں رجسٹر کریں تا کہ یہ مزدور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں'۔
ایک قدم آگے دو قدم پیچھے
2017 میں ماحولیاتی بچاؤ پر کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD)، حکومت پاکستان اور بھٹہ مالکان کے نمائندوں کا ایک اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جہاں نیپال میں زگ زیگ ٹیکنالوجی پر چلنے والے بھٹوں سے متعلق مختلف ویڈیوز کے ذریعے بھٹہ مالکان کو اس کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ اسی سال بھٹہ مالکان اور حکومتی نمائندوں نے نیپال کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے اس ٹیکنالوجی پر چلنے والے بھٹوں کا مشاہدہ کیا۔
آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالحق اور ان کی تنظیم کے دوسرے عہدیداروں نے اس دورے سے واپسی پر لاہور، اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد میں سیمینار منعقد کیے جہاں انہوں نے دوسرے بھٹہ مالکان کو اپنے تجربات کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان سیمیناروں کے ذریعے نہ صرف بھٹہ مالکان کو زگ زیگ ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا گیا بلکہ ان سے یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ حکومت بھٹوں کی ساخت میں تبدیلی اور ان میں پنکھوں کی تنصیب میں ان کی معاونت کے لیے انہیں سستے قرضے بھی فراہم کرے گی۔ تین سال گزر جانے کے بعد مہر عبدالحق اس ضمن میں کیے گئے حکومتی اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔
ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ 2017 میں عالمی بینک نے گرین ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت حکومت پاکستان کو دو ارب روپے اس لئے فراہم کیے تھے کہ وہ بھٹہ مالکان کو اپنے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کےلیے آسان شرائط پر قرض دے مگر وہ کہتے ہیں کہ تین سال گزر جانے کے باوجود بھٹہ مالکان کو ایک روپیہ تک نہیں دیا گیا۔
ضلع قصور میں تعینات محکمہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد نعمان یونس بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 'ورلڈ بینک نے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو دو ارب روپے عطیہ کیے تھے جو بھٹہ مالکان کو قرضوں کی صورت میں دیے جانے تھے مگر ابھی تک حکومت نے وہ پیسے کسی کو نہیں دیے ہیں'۔
حکومتی دعوے
وسطی پنجاب کے مختلف علاقوں میں تعینات محکمہ ماحولیات کے افسران کا دعوی ہے کہ بھٹہ مالکان صرف نئی ٹیکنالوجی کے خوف سے اسے نہیں اپنا رہے ہیں۔ فیصل آباد میں محکمہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عارف محمود سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے لوگ شروع میں اسے اپنا نے سے ہچکچاتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ 'وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھٹہ مالکان بھی اس ٹیکنالوجی کے فوائد کو دیکھ کر اسے اپنا رہے ہیں'۔
لیکن قدرتی آفات سے نپٹنے والے صوبائی ادارے (PDMA) کی 14 نومبر 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق ابھی تک پنجاب کے 7530 بھٹوں میں سے صرف 1268 بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہو سکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ابھی تک پنجاب میں موجود کل بھٹوں میں سے 20 فیصد سے بھی کم نئی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 20 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 7 دسمبر 2021