جب فروری 2017 میں ہنجو کولہی کی شادی ہوئی تو کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آیا وہ اس کے لئے رضامند بھی ہیں یا نہیں۔ وہ تو اپنے ہونے والے شوہر کا نام بھی نہیں جانتی تھیں۔
شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی ہنجو بدین شھر سے آٹھ کلو میٹر مغرب کی جانب واقع گاؤں بھورو کولہی میں رہتی ہیں جہاں ان کے ماں باپ ایک مقامی زمیندار کی زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ ان کی شادی انہی کی برادری کے راجو نامی لڑکے سے ہوئی (جو ضلع بدین کی تحصیل ٹنڈوباگو کے گاؤں والو کولہی کا رہنے والا ہے) لیکن شادی کی چند ماہ بعد ہی میاں بیوی میں جھگڑے ہونے لگے۔
ہنجو کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے رویے میں اچانک تبدیلی آ گئی اور "اس نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھ سے لڑنا شروع کیا"۔ ان کے مطابق جلد ہی نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ "وہ مجھے دھوپ میں ایک جگہ باندھ کر غلیل سے نشانہ بنایا کرتا تھا۔ مجھے دو دو دن کمرے میں بند کرکے بھوکا بھی رکھا جاتا تھا اور ننگا کر کے پیٹا جاتا تھا"۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ سب مار پیٹ وہ برداشت کرتی رہیں "لیکن جب اس نے میرے والدین سمیت سب لوگوں کے سامنے کہا کہ میں بدچلن ہوں تو مجھے بہت برا لگا اور میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے بےشک مار ڈالے لیکن ایسا الزام نہ لگائے"۔
ہنجو کے شوہر کو اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ وہ جولائی 2017 میں انہیں ان کے ماں باپ کے گھر چھوڑ گیا لیکن ہنجو کے والدین کے کہنے پر کولہی برادری کے بڑوں نے میاں بیوی کے درمیان صلح کرا دی۔ دونوں نے گواہوں کی موجودگی میں تحریری حلف بھی دیا کہ وہ آئندہ آپس میں جھگڑا نہیں کریں گے۔
اس تصفیے کے تحت ہنجو اپنے شوہر کے گھر تو چلی گئیں لیکن ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی اور لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ پہلے کی طرح جاری رہے۔ دسمبر 2017 میں ایک بار پھر راجو انہیں ان کے والدین کے گھر چھوڑ گیا۔
تاہم معززین نے ایک بار پھر ان کی صلح کرا دی اور اس طرح ہنجو ایک بار پھر راجو کے گھر پہنچ گئیں۔
پچھلے سال تھدڑی (ایک ہندو تہوار) سے کچھ دن قبل راجو انہیں ان کے ماں باپ سے ملوانے کے بہانے بھورو کولہی چھوڑ گیا اور برادری کے معززین کی کوششوں کے باوجود پھر کبھی انہیں واپس لینے نہیں آیا۔
دوسری طرف ہنجو کے والدین میں اتنی معاشی سکت نہیں کہ وہ اپنی شادی شدہ بیٹی کو اپنے ساتھ رکھ سکیں۔ وہ پہلے ہی قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ انہوں نے مزید آٹھ بیٹیوں کی شادیاں ابھی کرنا ہیں۔
اس لئے چند ماہ پہلے ہنجو کے والد نے سندھ ترقی پسند پارٹی نامی سیاسی جماعت کی مدد سے ڈسٹرکٹ کورٹ بدین میں ایک درخواست دائر کی کہ راجو کو ہنجو کا ماہانہ خرچ اور ان کے علاج معالجے کے اخراجات دینے کا پابند بنایا جائے۔ ان کے وکیل منظور بلالی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ درخواست 1964 میں بنائے مسلم عائلی قوانین کے تحت دائر کی ہے کیونکہ، ان کے مطابق، اس نوعیت کے مقدمات میں مقامی وکلا اکثر مسلم قوانین پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
ان کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ 2016 میں قومی اسمبلی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی دونوں نے ہی ہندو میرج ایکٹ کے نام سے قوانین منظور کیے تا کہ ہندو جوڑوں کی شادی کی رجسٹریشن اور ان کے درمیان طلاق اور خرچے پر پیدا ہونے والے تنازعات کو عدالتی نظام کے تحت لایا جا سکے لیکن ضلعے اور تحصیل کی سطح پر زیادہ تر عدالتوں میں ان قوانین پر ابھی بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
منظور بلالی کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ بدین جیسے چھوٹے شہروں میں اکثر وکلا نے ہندو میرج ایکٹ پڑھا ہی نہیں۔ یہی حال شادی کرانے والے پنڈتوں کا ہے۔ وہ ہندو جوڑوں کی شادیاں ان قوانین کے تحت رجسٹر کرنے کے بجائے روایتی مذہبی رسوم کے تحت کرانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ہنجو کی شادی بھی پرسو مہاراج نامی پنڈت نے صدیوں سے چلے آ رہے روایتی ہندو طریقے سے ہی کرائی جس کا نہ تو کہیں اندراج کیا گیا اور نہ ہی اس میں دوسری قانونی ضروریات پوری کی گئیں۔
بدین شہر میں مقیم ماہرِ قانون اور سماجی کارکن رام کولہی اس صورتِ حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سندھ کی زیادہ تر ہندو آبادی ہندو میرج ایکٹ کے بارے میں بے خبر ہے۔ ان کے مطابق اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے کچھ ہندو اس سے ضرور واقف ہوں گے لیکن شیڈولڈ کاسٹ کے ہندوؤں کی اکثریت کو اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کیونکہ وہ عام طور پر ان پڑھ ہوتے ہیں۔
رام کولہی کی نظر میں شیڈولڈ کاسٹ کے ہندوؤں کی غربت بھی ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور اس کے استعمال میں ایک رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق وکلا اور جج ان قوانین کے بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان کے تحت زیادہ تر مقدمے شیڈولڈ کاسٹ کے افراد سے متعلق ہوں گے "جن کے پاس فیس اور مقدمے کے دیگر اخراجات کی ادائیگی کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے"۔
رسم و رواج کی قید
ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چون کولہی اپنے علاقے میں بسنے والی کولہی کمیونٹی کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وہ ایک ایسے سماجی رویے کی نشان دہی کرتے ہیں جو عورتوں کو اپنے گھریلو معاملات گھر سے باہر لے جانے سے روکتا ہے چاہے انہیں اس کی کتنی بھاری قیمت ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ "کسی کولہی عورت کا عدالت میں چلے جانا اس کے خاندان پر داغ لگ جانے کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے خاندان سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتا"۔ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ہنجو کو اپنے شوہر کے خلاف عدالت جانے میں تین سال سے زیادہ عرصہ لگ گیا۔
چون کولہی کہتے ہیں اب جبکہ ہنجو نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا لیا ہے تو ان کو احساس ہو گیا ہو گا کہ اب ان کی کبھی دوبارہ شادی نہیں ہو سکے گی۔ ان کے بقول "ہنجو کو یا تو اپنے شوہر کے گھر واپس جانا ہو گا چاہے وہ انہیں جس حال میں بھی رکھے یا ان کی بقایا زندگی یہ طعنے سنتے گزرے گی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ گزارا نہیں کر سکیں"۔
ہنجو کی بستی بھورو کولہی اور اس کے ارد گرد انہی کی برادری کے 14 کے قریب دیگر دیہات میں ایسی کئی عورتیں موجود ہیں جو اپنے شوہروں کی مار پیٹ سے تنگ آ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اپنی زندگی سے اس قدر تنگ آ جاتی ہیں کہ وہ خود کو مار لیتی ہیں۔
مقامی لوگوں سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2020 میں ان دیہات میں چھ خواتین نے خودکشی کی جن میں سے چار ایسی تھیں جو اپنے شوہروں کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں رہ رہی تھیں۔
ہنجو کی 62 سالہ ماں سونی کو خدشہ ہے کہ کہیں ان کی بیٹی بھی اپنی جان نہ لے لے۔ آنسوؤں سے بھیگی آواز میں وہ کہتی ہیں: "مجھے ہر وقت یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ میری ہنجو بھی وہی غلط قدم نہ اٹھا لے جو پچھلے سال ساتھ والے گاؤں میں رادھا نامی لڑکی نے اپنی جان لے کر اٹھایا تھا"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 14 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 16 فروری 2022