ساٹھ سالہ محمد رفیق کی ساری زندگی مزدوری کرتے گزر گئی ہے اور وہ اب بھی روزانہ کام پر جاتے ہیں۔ اس عمر کو پہنچنےکے بعد ان کے پاس نہ تو روزگار کا کوئی ایسا ذریعہ ہے جس میں انہیں جسمانی مشقت نہ کرنا پڑے اور نہ ہی انہیں اپنے بچوں کا سہارا میسر ہے۔
رفیق کا تعلق ضلع حافظ آباد کے گاؤں ہرسکھ رائے سے ہے جہاں 10 گھرانے آباد ہیں۔ یہاں ان کا کچی اینٹوں سے بنا گھر ہے جس میں وہ اپنی اہلیہ اور 19 سالہ معذور بیٹے علی اصغر کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی بھی معذور ہے لیکن وہ ایک سال پہلے جیسے تیسے اس کی شادی کر چکے ہیں۔
علی اصغر دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں۔ انہیں پڑھائی کا بہت شوق تھا اور وہ شہر کے سرکاری سکول سے ساتویں جماعت تک پڑھائی کر چکے ہیں۔ وہ مزید تعلیم حاصل کر کے معذور افراد کے کوٹے پر سرکاری نوکری لینا چاہتے تھے لیکن گھر کے معاشی حالات تنگ ہونے کے باعث انہیں پڑھائی چھوڑنا پڑی جس کے بعد وہ گھر پر ہی رہتے ہیں کیونکہ معذوری کے باعث ان کے لیے کوئی کام کرنا ممکن نہیں ہے۔
رفیق کہتے ہیں کہ انہیں زندگی بھر سکون کا سانس نہیں ملا۔ اب وہ خود بھی بیمار رہنے لگے ہیں لیکن مزدوری نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اسی پر ان کا گھر چلتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بے شمار مصیبتوں میں انہیں راحت کا جو لمحہ میسر آیا ہے وہ پچھلے سال ان کی بیٹی کی شادی تھی۔ تاہم انہیں آج بھی افسوس ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہ دے سکے۔ وہ اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر کبھی ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ اگر ان کے بچوں کو تعلیم مل جاتی تو آج ان کا گھرانہ بہت اچھی زندگی گزار رہا ہوتا۔
2021 میں صنفی مساوات کے حوالے سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حافظ آباد میں خصوصی افراد کے لیے صرف تین ہی تعلیمی ادارے ہیں اور یہ ضلع چنیوٹ کے بعد زیرتعلیم خصوصی طلبہ کے حوالے سے پورے صوبے میں سب سے پیچھے ہے۔
2021 میں حافظ آباد میں 480 خصوصی بچے سکولوں میں زیرتعلیم تھے جن میں 300 لڑکے اور 180 لڑکیاں تھیں۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خصوصی تعلیم کے 332 ادارے کام کررہے ہیں جن میں سے 90 فیصد یعنی 273 سکولوں میں مخلوط تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ 16 لڑکیوں اور 14 لڑکوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ یعنی 194 سکول پرائمری ، 106 مڈل، 67 ہائی، سات ہائر سیکنڈری، 10 ڈگری کالج اور تین ووکیشنل انسٹیٹوٹ ہیں۔
2021 میں پنجاب میں ہر طرح کی معذوری کا شکار 23 ہزار 390 افراد نے ان تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا۔ ان میں سب سے کم تعداد جسمانی معذوری کا شکار بچوں کی تھی اور ان میں لڑکیاں صرف 800 تھیں۔
سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ویب سائٹ کے مطابق صوبے بھر میں خصوصی تعلیم کے اداروں میں 38 ہزار طالب علم رجسٹرڈ ہیں۔ محکمے کے پاس اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے پک اینڈ راپ سروس کے لیے 600 سے زیادہ بسیں ہیں، اور رہائش کے لیے 42 ہاسٹل ہیں جن میں مجموعی طور پر دو ہزار افراد کی گنجائش ہے۔
پنجاب کے 36 میں سے 25 اضلاع ایسے ہیں جہاں پر لڑکیوں یا لڑکوں کے لیے الگ سے سکول نہیں ہے۔ صنفی مساوات سے متعلق رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے ضرورت مند طالب علم ممکنہ طور پر نظام کی ان خامیوں کے باعث تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے لڑکیاں خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں جنہیں مخلوط تعلیمی ماحول میں پڑھنے کے خلاف سماجی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔
حافظ آباد میں خصوصی تعلیم کے تینوں ادارے مخلوط ہیں اور یہاں پر لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے داخلوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ کم ہے۔
پاکستان میں سماجی اور معیار زندگی سے متعلق جائزہ رپورٹ 2019-20 میں بتایا گیا ہے کہ حافظ آباد میں 3.41 افراد کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں جن کی کم از کم تعداد 39 ہزار 452 ہے۔ لیکن 2017 کی مردم شماری میں یہ تعداد 6047 بتائی گئی ہے۔
حافظ آباد کی ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر آمنہ اشرف بتاتی ہیں کہ 30 جون 2023 تک چار ہزار 260 خصوصی افراد ان کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ جن میں ایک ہزار 832 خواتین، 1001 مرد اور 627 بچے شامل ہیں۔
ضلع کے سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ملنے والی معلومات کے مطابق حافظ آباد شہر میں قائم سیکنڈری سکول میں 287 بچے زیر تعلیم ہیں جبکہ پنڈی بھٹیاں کے مقام پر قائم مڈل سکول میں 135 طلبہ و طالبات پڑھتے ہیں۔ ضلع میں ایک سلو لرنرز ایجوکیشن سنٹر بھی ہے جہاں 115 طلبہ پڑھ رہے ہیں۔
ضلعے کی مجموعی آبادی کو مدنظر رکھا جائے تو ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن حافظ آباد قانونی اور سرکاری شناختی دستاویزات کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی پورے صوبے میں پسماندہ ترین ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس ضلعے کا معذور افراد کی رجسٹریشن یعنی انہیں خصوصی لوگو والے شناختی کارڈ کی فراہمی کے حوالے سے بھی آخری نمبر ہے۔
سماجی کارکن محمد عزیز الرحمان اور ساجدہ فریاد کہتے ہیں کہ یہاں سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور بینکوں میں خصوصی افراد کے لیے سپیشل کاؤنٹر نہیں ہیں۔ ان افراد کو معذوری کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں مہینے میں صرف ایک ہی دن مخصوص ہے۔ جب ان کا طبی معائنے کا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو پھر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے محکمہ سوشل ویلفئیر کے دفتر جانا پڑتا ہے جو کہ شہر سے باہر ہے۔
قومی مردم شماری 2017 کے مطابق پنجاب میں معذور افراد کی تعداد پانچ لاکھ 15 ہزار 815 بتائی گئی ہے جس میں سے پانچ سے نو سال یعنی سکول جانے کی عمر کے بچوں کی تعداد 68 ہزار ہے۔
اس کا مطلب ہوا کہ پنجاب کے تعلیم اداروں میں داخل ہونے والے خصوصی بچوں کی آدھی آبادی سکول نہیں جا پاتی۔
حافظ آباد کے سرکاری سکول کے ایک معذور استاد محمد جاوید کے مطابق عام بچوں کی تعلیم کی طرح خصوصی بچوں کی تعلیم میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ معاشی پسماندگی ہے۔ یہاں لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچے اور خاص طور پر معذور بچے کو سکولوں کے لیے گاڑی لگوا کردے سکیں۔
یہ بھی پڑھیں
سپائنا بائیفڈا: نوزائیدہ بچوں کی یہ جان لیوا بیماری رحیم یار خان کے دیہات میں کیوں بڑھ رہی ہے؟
ان کے خیال میں حافظ آباد کے حالات تو اس سے بھی برے ہیں کیوں کہ یہاں پر خصوصی بچوں کے سکول شہری علاقے میں ہیں۔ ان سکولوں کے پاس اتنی بسیں بھی نہیں ہیں جو دیہات میں جاکر ان بچوں کو لے سکیں۔ اس لیے اگر یوں کہا جائے کہ ضلع حافظ آباد میں یہ تعلیمی ادارے صرف شہری آبادی کے لیے ہیں تو غلط نہ ہوگا اور 95 فیصد دیہی آبادی اس سے محروم ہے۔
سیماب علی صوبائی محکمہ خصوصی تعلیم میں گزشتہ 15 سال سے بطور استاد خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ان دنوں راولپنڈی کے سکول میں پڑھاتی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ مردم شماری میں لوگ بچے کی معذوری ظاہر نہیں کرتے اور معذوری کو معاشرے میں موضوعِ ممنوع بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سے بچے کا فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ اگر حکومت کو ایسے بچوں کی صحیح تعداد معلوم ہوگی تو تب ہی وہ ان کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے لیے زیادہ بہتر اقدام کرسکے گی۔
وہ مشورہ دیتی ہیں کہ اگر خصوصی بچوں کو عام سکولوں میں ہی پڑھایا جائے تو اس کے اچھے نتائج آئیں گے کیونکہ بچوں کو سکول میں لانے کا مقصد انہیں معاشرے میں بہتر انداز میں رہنے کے قابل بنانا ہے جو انہیں سکولوں سے دور رکھ کرحاصل نہیں ہو سکتا۔
تاریخ اشاعت 11 اگست 2023