ضلع بدین کی تحصیل ماتلی سے بتیس کلومیٹر دور گوٹھ گلاب لغاری واقع ہے۔ یہاں ہر طرف جھاڑ پھونس سے بنی جھونپڑیاں ہیں۔ پینتیس سالہ ریشم بجانو یہیں رہتی ہیں۔ ریشم کے شوہر، نانجی شراب پینے کے عادی تھے۔ اکتوبر کی ایک شام وہ اپنے ایک ساتھی مزدور، فقیر بجانو کو ساتھ گھر لے آئے تھے۔ دونوں نے حسب عادت شرا ب پی اور سو گئے، صبح اٹھے تو دونوں کی بینائی جا چکی تھی اور کچھ ہی دیر میں دونوں نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
ریشم بتاتی ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے شوہر اور ان کے دوست کو ہسپتال لے جاتیں۔ وہ نہیں جانتی کہ ان دونوں کی موت شراب پینے سے ہوئی یا سپرٹ پینے کی وجہ سے؟
"جب نانجی اور فقیرو کی موت کی خبر پھیلی تو پولیس گھر سے نعشیں لے گئی اور ہمیں بتایا کہ دونوں نعشوں کا پوسٹ مارٹم ہو گا"۔
ریشم کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ دسمبر میں ان کی سب سے بڑی بیٹی، جمنی کی شادی ہونا تھی جسے اب انہوں نے ملتوی کر دیا ہے۔
ان کے شوہر گاؤں سے کباڑ کا سامان لے کر شہر میں فروخت کرتے تھے۔ اب وہ جمنی کے ساتھ مل کر زمیندار کے کھیتوں میں کام کر کے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔
اس دن نانجی اور فقیرو بجانوکی ہی موت نہیں ہوئی تھی بلکہ گوٹھ گلاب لغاری سے دو کلومیٹر دور، آچار بھیل بھی اپنی آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی کو چھوڑ کر چل بسے۔
آچار بھیل کی بیوی سنگھار بھیل بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے شام چار بجے کے قریب کچھ پیا تھا، چند ہی گھنٹوں میں انہوں نے کچھ دکھائی نہ دینے کی شکایت کی اور پھر تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
"ہم گھر میں ایک اور فرد کا انتظار کر رہے تھے ، لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ اس سے پہلے ہی ایک فرد کم ہو جائے گا"۔
سنگھار بھیل نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے شوہر کسان تھے۔ ان کے ساس، سسر بھی فوت ہو چکے ہیں۔ اب گھر میں ایک دیور رہتا ہے، اس کا بھی ذہنی توازن درست نہیں ہے۔
خانو کولھی، اپنےپانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ ننگرپارکر سے اس گاؤں میں کھیت مزدوری کرنے آئے تھے لیکن زہریلی شراب پی کر اپنی اولاد کو بے آسرا چھوڑ کر ہلاک ہو گئے۔
ان چاروں کے علاوہ گوٹھ گلاب لغاری میں 27 سالہ ہریش اور 40 سالہ کھیم چند میگھواڑ کی موت بھی اسی دن ہوئی تھی لیکن ان کے ورثا اس سانحے کے بارے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
گلاب لغاری پولیس سٹیشن پر چھ افراد کی اموات کا مقدمہ درج کر کے پولیس نے سپرٹ بیچنے کے الزام میں میڈیکل سٹور چلانے والے 40 سالا سنیل کمار کو گرفتار کر کے بدین جیل بھیج دیا۔
سنیل کمار کے والدین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کا بیٹا بے قصور ہے۔ پولیس نے اس پر جھوٹا مقدمہ چلایا ہے، اگر علاقے میں کوئی زہریلی شراب بیچ رہا ہے تو پولیس اس کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن وہ ایسے لوگوں سے پیسے لے لیتی ہے اور غریبوں کو تنگ کرتی ہے۔ پولیس نے سنیل کے خلاف 322 پی پی سی قتل خطا کی دفعات لگائی ہیں اور مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔
چھ افراد کی موت کے بعد ڈی آئی جی حیدرآباد نے گلاب لغاری تھانے کے ایس ایچ او اصغر گوپانگ کو غفلت برتنے پر پولیس لائنز میں ٹرانسفر کر دیا۔ انکوائری کے لیے کمیٹی تشکیل دی اور مقدمہ بھی درج کیا۔ اصغر کے خلاف گلاب لغاری تھانے ہی میں ایف آئی آر درج کی گئی جس کے مدعی ایس پی ذوالفقار علی نظامانی ہیں۔
پاکستان میں کچی یا زہریلی شراب پینے کی وجہ سے ہلاکتیں عام ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق صرف سندھ میں 1997 سے لے کر 2022 کے دوران قریب 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے 1997 میں حیدآباد میں زہریلی شراب پینے سے سو سے زائد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان میں سے 50 لوگوں کی موت کا ذمہ دارعلاقے بھر میں کچی شراب فروخت کرنے والے اسلم تیلی کو ٹھہرایا گیا تھا۔
اسی طرح 2016 میں حیدرآباد سے 35 کلومیٹر دور ٹنڈومحمد خان میں 100 لوگ شراب پینے سے مر گئے تھے۔ اس کیس کا مقدمہ پہلوان علی نواز پنہور کے خلاف چلایا گیا تھا لیکن ثبو ت ناکافی ہونے کی وجہ سے اسے بری کر دیا گیا تھا۔
حیدرآباد سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ٹنڈوجام میں بھی 2021 میں 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ نومبر 2023 میں نواب شاہ میں دو بھائیوں سمیت تین افراد زہریلی شراب پینے سے مارے گئے تھے۔
جعلی شراب بنانے کے لیے اکثر میتھیلیٹڈ سپرٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے گنے کے رس میں ملایا جاتا ہے۔ عموماً اس سپرٹ کی مقدار زہر کی حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ایک تو ویسے بھی وہ (میتھیلیٹڈ سپرٹ) اوزار صاف کرنے یا جسم کے اوپر لگے زخم صاف کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس محلول میں نیند آور گولیاں بھی ڈال دیتے ہیں۔
جو لوگ اسے شراب سمجھ کر پیتے ہیں وہ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ اصلی شراب مہنگی ہوتی ہے، دیہاتی اور غریب لوگ ایسی کچی اور غیر معیاری "شراب" کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ سستی ہوتی ہے۔
حیدرآباد سول ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر وسیم احمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سپرٹ جسم میں جاتے ہی دماغ کے مختلف حصوں کو بند کر دیتی ہے۔ بیشتر افراد کو سب سے پہلے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، نظامِ تنفس کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، آکسیجن ان کے تمام ٹشوز تک نہیں پہنچتی اور دماغ، دل، گردے اور جگر کام کرنا بند کر دیتے ہیں ۔ یہ سب نہ بھی ہو تو جگر کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کے علاوہ متعدد افراد بینائی سے محرومی کے علاوہ مختلف قسم کی مہلک بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں شراب کے چھ کارخانے؛ مری بریوری، انڈس ڈسٹلری، مہران ڈسٹلری، کوئٹہ ڈسٹلری، بیچ بریوری اور کوسٹل بریوری موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
علاج یا نشہ: کنٹرولڈ آئٹمز میں شامل کیٹامین دوا کی ضرورت سے زیادہ درآمد کے پیچھے کیا راز ہے؟
سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں سرکاری لائسنس رکھنے والے 21 ہول سیلرز سمیت کُل 122 وائن شاپس موجود ہیں۔
حیدرآباد میں شراب کی نو دکانیں ہیں۔ دکانداروں کے ملازمین نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر دکان پر روزانہ سو لیٹر سے 300 لیٹر تک شراب بکتی ہے۔ یہ شراب 1200 روپے فی بوتل سے شروع ہوکر چار ہزار روپے فی بوتل بیچی جاتی ہے۔ غریب لوگ رقم نا ہونے کی وجہ سے سستے میں ملنے والی دیسی شراب اور سپرٹ پیتے ہیں۔
حیدرآباد کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ایشور کمار نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ڈپریشن میں مبتلا لوگ شراب کی طرف مائل ہوتے ہیں، چند لمحوں کے سکون سے وہ اس لت پر لگ جاتے ہیں۔
شراب بنانے والے 45 سالہ رانو ماچھی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ ببول کی چھال، سڑے ہوئے فروٹ، نشے کی گولیاں اور کالا گڑ ایک برتن میں ملا کر آگ پر رکھ دیتے ہیں۔ اس محلول کے بخارات کو ٹھنڈا کر کے جمع کیا جاتا ہے، یہ مشروب کچی شراب کہلاتا ہے۔
اس شراب کی ایک تھیلی کی قیمت 200 روپے ہوتی ہے۔ اس قسم کی شراب اکثر بدین، تھرپارکر، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار ، ٹھٹھہ اور نواب شاہ میں بنائی جاتی ہے۔
ڈی آئی جی پولیس حیدر آباد طارق رزاق دھاریجو نے لوک سجاگ کو بتایا، کچی شراب بنانا اور بیچنا جرم ہے۔ اس کے استعمال سے سندھ میں سیکڑوں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ پولیس روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مارتی ہے۔
حیدر آباد میں دیسی شراب بنانے کی بیشتر بھٹیاں ہٹڑی، ہوسڑی اور ٹنڈو جام میں ہیں۔ رواں سال حیدرآباد پولیس ان بھٹیوں سے پانچ ہزار لیٹر شراب برآمد کر چکی ہے۔
ٹنڈو الہ یار پولیس نے اس سال اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انہوں نے مختلف علاقوں سے 27 ہزار لٹر شراب پکڑی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق غیر قانونی شراب بنانے کی زیادہ تر بھٹیاں پولیس کی سرپرستی میں چلتی ہیں جہاں سے پولیس کو بھتہ بھی ملتا ہے۔ اس لیے بھٹیاں ختم نہیں ہو سکی ہیں۔
تاریخ اشاعت 16 جنوری 2024