مہک کماری مِٹھی کے گرلز ڈگری کالج میں انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل کی طالبہ ہیں۔ان کا تعلق تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر کے گاؤں کاسبو سے ہے۔ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنے علاقے سے تقریباً 130 کلومیٹر دور اس کالج میں داخلہ لے رکھا ہے جو پورے ضلع میں لڑکیوں کا واحد ڈگری کالج ہے۔
مہک نے کچھ ہی عرصہ پہلے گیارہویں جماعت کا امتحان دیا ہے۔
اس امتحان کی تیاری میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ کالج میں بیالوجی اور انگریزی کی اساتذہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت سی چیزیں سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے یا وہ سرے سے سمجھ ہی نہیں پاتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کالج میں 80 فیصد طالبات پری میڈیکل تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
چند ماہ پہلے کالج میں باٹنی کے ایک پروفیسر کی تعیناتی ہوئی تھی لیکن زوآلوجی کا کوئی علیحدہ استاد نہیں ہے۔ باٹنی کے استاد ہی وقت نکال کر انہیں زوآلوجی پڑھاتے اور وہی کمپیوٹر لیب میں طالبات کی مدد کرتے ہیں۔
"اس سطح کی پڑھائی میں انگریزی کی اچھی سوجھ بوجھ ہونا ضروری ہے لیکن انگریزی کا استاد نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے سائنسی مضامین میں بہت سی چیزوں اور اصطلاحیں کی سمجھ نہیں آتیں۔اس کے علاوہ کالج میں کئی دیگر مضامین کے اساتذہ بھی نہیں ہیں۔
ضلع میں لڑکیوں کا کوئی اور کالج بھی نہیں ہے اور ہمارے والدین ہمیں حیدرآباد اور کراچی کے کالجوں میں بھیجنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔"
مِٹھی کی سترہ سالہ سحرش اس کالج میں گریجوایشن کر رہی ہیں۔ مہک کماری کی تصدیق کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ کالج میں مخصوص مضامین کے ماہر اساتذہ کی عدم موجودگی میں طالبات کے لیے پڑھائی مشکل ہو گئی ہے۔ خاص طور پر میڈیکل کی طالبات کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت پڑھنا اور سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے کالج میں تدریسی عملے کی کمی پوری کرنا ہو گی۔
ضلع تھرپارکر سات تحصیلوں پر مشتمل ہے جن میں مٹھی،کلوئی، ڈیپلو، اسلام کوٹ، ننگرپارکر، چھاچھرو اور ڈاھلی شامل ہیں۔ مِٹھی تھرپارکر کا ضلعی صدر مقام بھی ہے جہاں سے ننگر پارکر کا فاصلہ تقریباً 150 کلومیٹر، چھاچھرو کا 100کلومیٹر، ڈاھلی کا 170 کلومیٹر، اسلام کوٹ کا 45 کلومیٹر، کلوئی کا 55 اور تحصیل ڈیپلو کا فاصلہ 40 کلومیٹر ہے۔
ان تمام علاقوں سے پڑھنے کے لیے مِٹھی کے گرلز کالج میں آنے والی طالبات کو رہائش کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
کالج کا ہاسٹل بند ہونے کی وجہ سے بیشتر لڑکیوں کو اپنے عزیزوں کے ہاں قیام کرنا پڑتا ہے۔ مِٹھی میں لڑکیوں کے کوئی نجی ہاسٹل بھی نہیں ہیں اور اسی لیے جن کے رشتہ دار نہ ہوں انہیں مکان کرائے پر لے کر رہنا پڑتا ہے جس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔
تھرپارکر میں اس کالج کے قیام کو ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے جہاں تدریسی عملے کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ بظاہر ڈگری درجے کے اس کالج میں بہت سے مضامین کے اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈگری کلاسز ہی شروع نہیں ہو سکیں۔
کالج کے پرنسپل پروفیسر رادھو مل دھیرانی تسلیم کرتے ہیں کہ فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے شعبوں میں تدریسی عملے کی 21 پوسٹیں خالی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ضوابط کے مطابق کالج میں ہر مضمون کا کم از کم ایک استاد ہونا ضروری ہے۔ تاہم اس کالج کے کیٹلاگ میں مضامین کے حساب سے پوسٹیں الاٹ نہیں کی گئیں بلکہ گریڈ کے اعتبار سے عہدے دیے گئے ہیں۔ خالی اسامیوں میں گریڈ 20 کی ایک پوسٹ بھی شامل ہے۔
پروفیسر رادھو مل کے مطابق کالج میں 300 سے زیادہ لڑکیاں زیر تعلیم ہیں جنہوں نے گیارہویں جماعت پاس کرکے انٹر میں آنا ہے جبکہ گیارہویں جماعت میں داخلے شروع ہو چکے ہیں۔ساڑھے تین سے 400 تک نئی طالبات کالج میں داخلہ لیں گی۔ کالج میں مجموعی طور پر تقریباً 700 طالبات پڑھتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کالج میں سائنس اور آرٹس کی ایسوسی ایٹ ڈگری میں بھی داخلے دیے جاتے ہیں لیکن اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کلاسیں نہیں ہوتیں اور صرف امتحان ہی لیے جاتے ہیں۔ اس وقت ان دونوں ڈگری پروگراموں میں تقریباً 200 لڑکیوں کو داخلہ دیا گیا ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت پڑھتی ہیں۔
پروفیسر رادھو مل کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں ایک ہی کالج ہونے کی وجہ سے پورے ضلعے کی طالبات عموماً یہیں کا رخ کرتی ہیں۔ تدریسی عملے کی کمی پوری کرنے کے لیے محکمہ تعلیم کو بارہا تحریری درخواستیں دی گئی ہیں لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
گزشتہ برس ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اپنے محکمے سے چار لڑکیوں کو فزکس، انگریزی، زوآلوجی اور اردو پڑھانے کے لیے کالج میں بھیجا تھا جن کی مدد سے طالبات نے اپنے کورس مکمل کیے۔
اسی طرح بوائز کالج سے عارضی طور پر ایک لیکچرار کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔
"تھرپارکر میں لڑکوں کے پانچ کالجوں سمیت کہیں بھی انگریزی کا کوئی استاد نہیں ہے۔ ضلع کی دو لڑکیوں نے انگریزی کی لیکچررشپ کے لیے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ ان میں سے کسی کو گرلز کالج مین تعینات کیا جائے گا"۔
انہوں نے بتایا کہ کالج کی لائبریری کو اس کا واحد کیٹلاگر سنبھالتا ہے۔ یہاں 12 کمپیوٹر ہیں لیکن آئی ٹی کا کوئی ماہر نہیں ہے جس کی وجہ سے طالبات کو کمپیوٹر پر اپنے مضامین پڑھنے اور سمجھنے کے لیے دیگر شعبوں کے اساتذہ کی مدد لینا پڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رحیم یار خان کے گرلز کالجوں میں دو ہزار طالبات کو پڑھانے کے لئے صرف 14 اساتذہ
تھرپارکر کے سماجی کارکن مکیش راجہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم تھرپارکر کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہر تحصیل میں گرلز کالج ہونا چاہیے تاکہ طالبات کو اپنے گھر کے قریب معیاری تعلیمی سہولیات میسر آ سکیں۔
"چونکہ موجودہ ڈگری کالج میں اساتذہ کی کمی ہے اس لیے یہ کالج طالبات کے لیے تاحال کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا"۔
تھرپارکر میرپور خاص ڈویژن کا حصہ ہے جس کے ڈائریکٹر کالجز پروفیسر میر چند اوڈ تسلیم کرتے ہیں کہ نئی بھرتیاں نہ ہونے کی وجہ سے مِٹھی گرلز کالج کی طالبات کو تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ تھرپارکر کے کئی نوجوانوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر رکھا ہے لیکن وہ تھرپارکر آ کر نوکری نہیں کرنا چاہتے۔
میر چند اوڈ کے مطابق انہوں نے اعلیٰ حکام کو اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے تحریری طور پر لکھ بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ دیرپا طور پر اسی صورت حل ہو گا جب مقامی تعلیم یافتہ لوگ اپنے علاقے میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔
تاریخ اشاعت 18 جولائی 2023