ضلع راجن پور میں واقع رکھ ڈائمہ جنگل دو حصوں رکھ ڈائمہ شمالی اور رکھ ڈائمہ جنوبی پر مشتمل ہے۔ اس میں سفیدے، کیکر، شیشم اور دیگر اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ جنگل کی دیکھ بھال پر 10 ملازمین مامور ہیں۔ شمالی اور جنوبی رکھ ڈائمہ میں چار چار چوکیدار ہیں جبکہ ایک فاریسٹر اور ایک بیلدار شامل ہے۔
اس جنگل کا کل رقبہ 34 ہزار 701 ایکڑ ہے اور یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ رکھ ڈائمہ شمالی میں باغات لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس حصے کی حالت بہتر ہے۔ اس میں دامن، کوٹلہ عیسن، رکھ عظمت والا، کوٹ مٹھن اور کوٹلہ حسین شامل ہیں۔
رکھ ڈائمہ جنوبی دریائی علاقوں پر مشتمل ہے جن میں راگستان شمالی کا دریائی جنگل، تھل مینگھراج کا دریائی اور کوٹلہ شیر محمد کا ریزرو جنگل شامل ہے۔
اس جنگل کا رقبہ دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے۔ بظاہر یہ تبدیلی کسی قدرتی عمل کے بجائے سالہا سال سے درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور چوری کا نتیجہ ہے۔ محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار کے مطابق چند برسوں میں جنگل کا رقبہ 42 مربع کلومیٹر سے سکڑ کر 32 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔
سماجی کارکن واجد علی بخاری الزام لگاتے ہیں کہ جنگل سے مسلسل لکڑی چوری ہو رہی ہے اور چوروں کو محکمہ جنگلات کے ملازمین کی آشیر باد حاصل ہے۔ جنگل کے محافظ اپنا حصہ وصول کر کے چوری کی اجازت دے دیتے ہیں۔
جنگل میں صفائی کے لیے جن مزدوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں انہیں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 18 ہزار روپے اجرت دی جاتی ہے۔ البتہ محمد عاصم کہتے ہیں کہ وہ پچھلے پانچ سال سے جنگل میں مزدوری کر رہے ہیں لیکن انہیں کبھی ان کے کام کا معاوضہ نہیں ملا۔
"مجھ سے ہر ماہ واؤچر پر انگوٹھا لگوا لیا جاتا ہے اور اجرت یہ ہے کہ لکڑی کاٹنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ میں اسے فروخت کرتا ہوں اور گھر کی گزر بسر اسی سے ہوتی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ جنگل کی لکڑی لاکھوں میں فروخت ہوتی ہے۔ اس سے مختلف طرح کے فرنیچر تیار ہو کر مہنگے داموں فروخت ہوتے ہے۔ یہاں سے جمع ہونے والا کچرا 30 سے 40 ہزار روپے جبکہ پتے 25 ہزار روپے فی ٹرالی فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ کچرا اور پتے اینٹوں کے بھٹوں میں جلانے کے کام آتے ہیں۔ بقول ان کے حاصل ہونے والی رقم کا اندراج کہیں نہیں ہوتا۔
رکھ ڈائمہ کے فاریسٹ آفیسر محمد بلال لکڑی چوری کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
لوک سجاگ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگل میں گرے ہوئے سوکھے پتے اور شاخیں قریب رہنے والے مزدور، کاشتکار اور محنت کش اپنا چولہا جلانے کے لیے لے جاتے ہیں جنہیں روکا نہیں جاتا۔ البتہ کوئی لکڑی چوری میں ملوث ہو تو اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
ان کے مطابق لکڑی چوروں کو سرکار کی طرف سے طے شدہ جرمانہ کر کے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ پھر بھی کوئی باز نہ آئے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے اور قانون کے مطابق سزا ہوتی ہے۔
پولیس سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار ان کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہیں ان کے مطابق 2021ء میں لکڑی چوروں کے خلاف 53، 2022ء میں 46 اور رواں سال اب تک 34 مقدمات درج کیے گئے اور انہیں مختلف جرمانے بھی ہوئے۔ پولیس کے مطابق جرمانہ عدالت کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔
تھانہ راجن پور کے اے ایس آئی محمد شریف نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ جنگل خاص اہمیت کا حامل ہے اس لیے بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ لکڑی چوری نہ ہو لیکن اہل علاقہ زیادہ تر غریب ہیں اور لکڑی اٹھانے سے باز نہیں آتے۔
یہ بھی پڑھیں
'خاک اڑتی ہے چار سُو اے دوست'، ملتان میں شجرکاری مہم معطل، جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہونے لگا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں تمام مقدمات باہر کے لوگوں کے خلاف درج ہوئے، کسی سرکاری اہلکار پر گرفت نہیں ہوئی۔ دوسری جانب محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے بتایا کہ لکڑی چوری پر معطل ہونے والے دو ملازموں کو کچھ عرصے بعد بحال کر دیا گیا تھا۔
فاریسٹ آفیسر راجن پور فراز احمد نے بتایا کہ انہوں نے محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک گارڈ کو ملازمت سے برطرف بھی کیا تھا، حکومتی قواعد کے مطابق جرمانے بھی کیے جاتے ہیں۔ البتہ انہوں نے جرمانے کی رقوم کی تفصیل بتانے سے انکار کر دیا۔
"سکیورٹی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، جو نقصان ہو چکا اس کی تو تلافی نہیں ہو سکتی۔ ہماری کوشش ہے کہ مزید نقصان نہ ہو۔ اب لکڑی چوری کی صورت حال پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے"۔
قانون دان عبدالمجید بزنجو کے مطابق لکڑی چوری کے بہت کم ملزمان گرفتار ہوتے ہیں اور ان کی ضمانت بھی ہوجاتی ہے۔
"زیادہ تر مجرم چند ہزار روپے جرمانہ ادا کر کے رہا ہو جاتے ہیں اور دوبارہ سے لکڑی چوری شروع کر دیتے ہیں۔"
تاریخ اشاعت 6 دسمبر 2023