چالیس سالہ تبسم بی بی ضلع کرم کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں۔ وہ کئی سال تک 'مزری' نامی جھاڑی نما پودے سے مختلف اشیاء (ہینڈی کرافٹس) بنا کر فروخت کرتی رہیں مگر آج کل بے روز گار ہیں۔
تبسم چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کے خاوند ایک دفتر میں درجہ چہارم کے ملازم ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مزری سے ان کی بنی اشیا شہر کے دکاندار فروخت کے لیے لے جاتے تھے جس سے انہیں اچھی آمدنی ہوجاتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ مزری بہت کم اور مہنگی ہو گئی۔ اس کے علاوہ دستکاری مارکیٹ میں انہیں مناسب معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا۔ ان حالات سے تنگ آ کر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔
تبسم کے علاوہ اس علاقے میں مزری سے گھریلو استعمال کی اشیا بنانے والی سیکڑوں دیگر خواتین بھی یہ کام ترک کر چکی ہیں۔
مزری خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خشک ڈھلانی مقامات پر پایا جانے والا جھاڑی نما خودرو پودا ہے۔ اس کے پتے کھجور سے ملتے جلتے ہیں۔ اسےانگریزی میں آئیچ، اردو میں 'مزری اور پشتو میں 'مزریا' کہا جاتا ہے۔اسے بلوچی زبان میں 'پیش' اور سرائیکی میں 'پیس'کہتے ہیں۔
مزری کے پودے پر گول مٹیالے رنگ کا پھل لگتا ہے۔بلوچستان میں اس کی نرم شاخ 'کیلڑ' کو لوگ بھون کر کھانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
مزری کے پتوں سے چٹائیاں، چارپائی کا بان، ٹوپیاں اورٹوکریاں وغیرہ بنتی ہیں۔اس سے بننے والی 36 کے قریب اشیاء میں سے بعض میں مزری کی لکڑی بھی استعمال ہوتی ہے۔
'ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان' کی ایک رپورٹ کے مطابق2004ء میں مزری کے پتے اور لکڑی(کانی) کاٹنے، بنڈل بنانے، اس کی خریدو فروخت اور اس سے گھریلو استعمال کی اشیا تیار کرنے تک بہت سے کاموں سے تقریباً 65 ہزار افراد وابستہ تھے جن میں میں 78 فیصد خواتین تھیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہے اور ان لوگوں کی اکثریت ان کاموں کو چھوڑ چکی ہے۔
نزہت امین پشاور میں 'خواندہ کرو' نامی غیر سرکاری ادارے کی پروگرام مینیجر ہیں۔ ان کا ادارہ خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں کی خواتین کو مزری سے ہینڈی کرافٹ بنانے کا ہنر سکھاتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس صوبے میں خواتین کی بنائی مزری مصنوعات کو بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی پسند کیا جاتا ہے۔ خاص طور برطانیہ میں یہ اشیاء اچھے نرخ پر بکتی تھیں اور اس طرح خواتین کو گھر بیٹھے روزگار مل رہا تھا۔
نزہت امین تصدیق کرتی ہیں کہ اب مزری کی ہنر مند خواتین کی خاصی بڑی تعداد بے روزگار ہوچکی ہے۔
"ہم ضلع کرک میں 25 خواتین سے مزری کی چیزیں بنوایا کرتے تھے مگر اب ان کی تعداد آٹھ رہ گئی ہے۔ اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے اور اس کا معاوضہ انتہائی کم ہوچکا ہے۔"
راشد حسین محکہ جنگلات خیبر پختونخواہ کے شعبہ نان ٹمبر فاریسٹ پراڈکٹ (این ٹی ایف پی) کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مزری کی پیداوار بارانی علاقوں میں زیادہ ہے۔ کوہاٹ کے سرکاری جنگلات کومزری کے لیے 'محفوظ علاقے 'قرار دیا گیا ہے۔ان علاقوں میں پیداوار کم نہیں ہوئی ہے تاہم باقی علاقوں میں کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 19-2018 میں مزری کی پیداوار سات سو ٹن تھی جبکہ اس کی قیمت فروخت 20 روپے کلو مقرر کی گئی تھی ۔20-2019 میں اس کی پیدوار 850 ٹن اور 21-2020 میں پیدوار 1508 ٹن رہی۔
ضلع کرم کے اقبال حسین 25 سال سے مزری کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ مختلف علاقوں سے مزری کے پتے خریدتے اور انہیں منڈی میں بیچتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سرکاری سطح پر محفوظ قرار دیے گئے علاقے کے سوا مزری کی پیداوار بہت کم ہوگئی ہے جس کے باعث اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل 50 روپے میں مزری کا ایک بنڈل ملتا تھا جس میں تقریباً 80 پتے ہوتے تھے۔ اب یہی بنڈل تین سو روپے میں مل رہا ہے۔اس طرح پیداوار کم ہونے سے مزری کا کام کرنے والے لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ نے قائد اعظم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے دوران مزری پر تحقیق کی ہے اور اب وہ یورپ میں تحقیقی کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مزری کی پیداوار میں کمی کا آغاز افغانستان اور روس کی جنگ کے دور سے ہوا تھا جب افغان مہاجرین بڑی تعداد میں سابقہ فاٹا اور ملحقہ اضلاع میں آئے۔ مزری افغانستان میں بھی پایا جاتا ہے اور افغان مزری سے گھریلو استعمال کی اشیا تیار کرنے میں ماہر تھے۔ ان لوگوں نے مزری کا بے دریغ استعمال کیا جو مزری کو گھر میں ایندھن کے طور پر بھی جلاتے تھے۔
ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ مزری کے میدان بھی کھیتوں اور بستیوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ سفیدے کا درخت بھی مزری کی پیداوار میں کمی کا باعث ہے۔ یہ درخت اپنے قریب مزری جیسے تمام پودوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔
مزری کی پیداوار میں کمی آنے کی تیسری وجہ سیلاب ہیں۔ کسی علاقے میں زیادہ دیر پانی کی موجودگی سے مزری کی جڑیں ختم ہو جاتی ہیں جس سے بھی پیدوار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
راشد حسین کہتے ہیں کہ مزری کا پودا زمین کا کٹاؤ روکتا ہے۔ ڈیم کی عمر بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ ریت کے ٹیلوں کو مضبوط رکھتا ہے اور اس سے قدرتی حادثات کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مزری کا پودا جنگلی حیات کے لیے آماجگاہ کا کام دیتا ہے۔ اس کا پھل انسان اور مال مویشی دونوں کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزری کئی یونانی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا ہے کہ مزری موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مضبوط ہتھیار ہوسکتا ہے۔ مزری کو سڑکوں کے درمیان اگایا جائے تو یہ گاڑیوں کا دھواں جذب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سڑکوں کے کنارے سفیدے کو ہٹا کر مزری کی کاشت بڑھائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں
کشیدہ کاری: خواتین دستکاروں اور کڑھائی کی 'مرد مشینوں' میں چھڑی جنگ
ان کا کہنا ہے کہ مزری سے جھاڑو، ٹوپیاں، روٹیاں گرم رکھنے کے' ہاٹ پاٹ'، رسیاں وغیرہ بنتی تھیں۔ یہ سب اشیا اب بھی استمعال ہوتی ہیں مگر اب انہیں پلاسٹک سے بنایا جانے لگا ہے جس سے ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مزری سے گھریلو استعمال کی اشیا بنانے والی خواتین نے اپنےکام میں وقت کے ساتھ جدت پیدا کی، اشیا کو دیدہ زیب بنایا جس سے ان کی لاگت بڑھ گئی۔
"اب روٹی گرم رکھنے کے لیے پلاسٹک کا ہاٹ پاٹ پانچ چھ سو روپے سے بھی سستا مل جاتا ہے مگر مزری کا دیدہ زیب ہاٹ پاٹ بارہ تیرہ سو روپے سے کم پر فروخت نہیں ہوتا۔
نزہت امین کہتی ہیں کہ مزری سے بنی چیزوں پر محنت ہوتی ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے خواتین کے ہاتھوں پر چھالے اور سوراخ بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزری سے بنائی جانے والی چیزوں کی نئی منڈیاں ڈھونڈی جائیں۔ اس طرح ناصرف خواتین کا ہنر قائم رہے گا اور انہیں روزگار ملے گا بلکہ ماحول کو بھی فائدہ ہو گا۔
تاریخ اشاعت 18 اگست 2023