خیبرپختونخوا میں فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے جانے والے صحافیوں کے اہلخانہ انصاف اور مدد کے منتظر

postImg

کامران علی شاہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خیبرپختونخوا میں فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے جانے والے صحافیوں کے اہلخانہ انصاف اور مدد کے منتظر

کامران علی شاہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

باجوڑ کے صحافی ابراہیم خان کو  15 برس قبل نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ان کے بیٹے عمران خان بتاتے ہیں کہ "22 مئی 2008ء کو شام پانچ بجے ان کے چچا نے انہیں فون پر کہا کہ ان کا بیٹا یعنی میرا چچا زاد بھائی دھماکے میں شدید زخمی ہوا ہے اور میں فوراً گاؤں پہنچوں۔ گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حادثہ میرے چچازاد کو پیش نہیں آیا تھا بلکہ میرے والد کو مجھ سے چھین لیا گیا تھا۔ انہیں کئی بار دھمکیاں دی جا چکی تھیں۔"

انہوں نے بتایا کہ والد کے وفات کے بعد تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے فون پر تعزیت کی اور تعاون کی یقین دہانیاں کرائیں۔ اس وقت یہ علاقہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام تھا اس لیے اسلام آباد سے 15 لاکھ روپے کا چیک دیا گیا۔ پانچ لاکھ روپے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جبکہ 10 لاکھ روپے اس ادارے نے دیے جس میں والد ملازمت کرتے تھے۔ ان اقداامت سے وقتی ریلیف ضرور ملا لیکن والد کی شفقت سے محرومی کا مداوا تو نہیں ہو سکتا تھا۔

"والد کی ناگہانی موت کے بعد میری بڑی بہن ذہنی مریضہ بن گئی۔ مجھے ایک بار اغوا کیا گیا۔ گھر پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ ہوا جس میں میری والدہ سمیت گھر کے آٹھ افراد زخمی ہوئے۔"

وہ کہتے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود انہیں اپنے والد کے قاتلوں کا پتہ نہیں چلا۔ والد کے ادارے کا انہیں ضلع باجوڑ سے نمائندگی دینے کا وعدہ بھی ایفا کا منتظر ہے۔

عمران خان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے والد سمیت جتنے بھی صحافی دہشت گردی کا نشانہ بنے، انہیں سول یا عسکری اداروں کے شہدا کی طرح شہدا پیکج دیا جائے۔

ابراہیم خان کی طرح خیبر پختونخوا، بالخصوص ضم شدہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی جنگ میں کئی صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے گئے۔ ایسے واقعات میں اپنے کئی دوست کھونے والے سینئر صحافی شمیم شاہد کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے صحافیوں کے قتل کا موجودہ سلسلہ سوات منگلور کے استاد اور صحافی فضل وہاب کو 2003ء میں قتل کرنے سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وزیرستان کے اللہ نور وزیر کو جرگہ سے واپسی پر نشانہ بنایا گیا۔

پانچ ستمبر 2005ء کو وزیرستان کے ایک اور صحافی حیات اللہ خان کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا جو چھ ماہ تک لاپتہ رہے۔ اہل خانہ کو نہ حکومت اور نہ ہی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی گئیں۔ 16جون 2006ء کو ٹیلی فون کال پر ان کے گھر والوں کو بتایا گیا کہ حیات اللہ کی لاش میر علی بازار میں پڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا "ستمبر 2001ء سے 2023ء تک خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں کے 54 صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان میں بیشتر کے خاندانوں کو اگر کوئی ریلیف ملا ہے تو صحافیوں کی کوششوں سے۔"

وہ کہتے ہیں کہ حیات اللہ خان کی شہادت کے بعد پشاور ہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری بھی کرائی گئی لیکن اس کی رپورٹ ابھی تک سربمہر ہے۔

 حیات اللہ خان کے بھائی احسان اللہ خان کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے بعد تین انکوائری کمیشن بنے لیکن ایک کی بھی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔

"سپریم کورٹ کی سربراہی میں پشاور ہائی کورٹ میں کمیشن بنایا گیا جس میں ہمارے خاندان کے افراد کے انٹرویو بھی کیے گئے۔ حیات اللہ خان کی بیوہ نے تفصیل انکوائری کمیشن کے گوش گزار کی جس کے بعد انہیں بھی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں بھی انہوں نے کھل کر حیات اللہ خان کے اغوا اور شہادت کے حوالے سے بات کی جس کے بعد ہمارے گھر میں 17 نومبر 2007ء کو بم دھماکہ کیا گیا اس کے نتیجے میں حیات اللہ خان کی بیوہ بھی شہید ہو گئیں اور ان کے بچے باپ کے بعد ماں کے سائے سے بھی محروم ہو گئے۔"

سینئر صحافی عارف یوسف زئی کہتے ہیں کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہونے پر سول اور فوجی ادارے تمغوں اور اعزازات سے نوازتے اور ان کے اہل خانہ کو نقد امداد دیتے ہیں۔ صحافی اگر کام کے دوران شہید ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔حکومت کے ساتھ صحافی تنظیموں کا فرض ہے کہ شہید صحافیوں کے خاندان کی معاونت کریں۔

خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی بڑی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین کہتے ہیں کہ یونین کی کوششوں سے صوبائی حکومت نے 2015/16ء میں صحافیوں کے لیے 10 لاکھ روپے شہید پیکج کا اعلان  کیا تھا لیکن آج تک کسی بھی صحافی کے خاندان کو اس کی رقم نہیں ملی۔ "پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ہو یا خیبر یونین آف جرنلسٹس، ہم نے ہر دور میں صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

'میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں'، بلوچستان میں 16 سال میں 41 صحافی نامعلوم ہاتھوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بم دھماکوں میں صحافیوں کو ہدف بنایا گیا اور وہ شہید ہوئے۔ یونین کی کوششوں سے قومی اسمبلی سے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل پاس کرایا گیا ہے جس کے تحت کمیشن فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز وجود میں آنا ہے لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جس کے لیے یونین کی تگ و دو جاری ہے۔

"خیبر پختونخوا خوا پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹیشنرز بل 2021ء پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کیا گیا ہے، لیکن یہ تاحال اسمبلی سے پاس نہیں ہوا۔"

اس بل میں کے پی کے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت صحافی اور میڈیا پریکٹیشنر کی جان اور مال کے تحفظ کے حق کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا کہا گیا ہے تاکہ ان کی غیر جانبداری، تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کا فروغ ممکن بنایا جا سکے۔

ناصر حسین کے مطابق صحافیوں کے خاندانوں کی خبر گیری اور کفالت کے لیے صحافتی تنظیموں کی جانب سے کوئی فنڈ قائم نہیں کیا گیا۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2003ء سے اب تک پاکستان میں 93 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

تاریخ اشاعت 11 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کامران علی شاہ کا تعلق چارسدہ سے ہے۔ وہ گزشتہ 14 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف اخبارات، ریڈیو اور نیوز چینلز میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.