اگست میں آنے والے سیلاب کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں شمس الرحمان کی زرعی اراضی کو پانی کی فراہمی بند ہے۔ ان کی دو ایکڑ زمین پر گنے کا فصل تیار ہے لیکن بارشوں کی کمی اور پھر سیلاب سے نہری نظام کو ہونے والے نقصان کے باعث وہ اپنی زمین کو مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں دے پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ان کے گنے میں رس کم ہو گا جس سے ان کی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔
تیس سالہ شمس الرحمان کا تعلق چارسدہ کی تحصیل شبقدر کے گاؤں مٹہ مغل خیل سے ہے۔ یہ گاؤں ضلع چارسدہ، مردان اور نوشہرہ کو پانی مہیا کرنے والے منڈہ ہیڈ ورکس سے تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ شبقدر میں کاشت ہونے والے گنے سے بنایا جانے والا گُڑ صوبہ بھر میں اپنے اعلی معیار کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ تاہم اس سال پانی کی کمی کے باعث گنے کی ناقص پیداوار کا اثر گڑ کی صنعت پر بھی پڑے گا۔ شمس کا کہنا ہے کہ عام طور پر انہیں گنے کی فروخت سے سالانہ چھ لاکھ روپے تک آمدنی ہوتی ہے لیکن اس سال انہیں اس کا نصف حاصل ہونے کی بھی امید نہیں۔
اس سال 26 اگست کو آنے والے سیلاب میں دریائے سوات پر بنائے گئے منڈہ ہیڈ ورکس کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے چارسدہ، مردان اور نوشہرہ میں زرعی زمینوں کو پانی کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے ایگزیکٹو انجینئر حافظ یاسر کے مطابق اس ہیڈ ورکس میں دو لاکھ 25 ہزار کیوسک پانی کا دباؤ برادشت کرنے کی صلاحیت تھی تاہم رواں سال سیلاب میں تین لاکھ کیوسک پانی آیا ہے۔ اس دوران منڈہ سے چند کلومیٹر مغرب کے جانب زیر تعمیر مہمند ڈیم سے بڑی مقدار میں تعمیراتی مواد بھی سیلاب میں بہہ کر ہیڈ ورکس میں آ گیا جس سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور نہروں میں پانی کی سپلائی معطل ہو گئی۔
منڈہ ڈیم سے لوئر سوات کینال اور دوآبہ کینال نامی دو بڑی نہریں نکلتی ہیں۔ 1900کیوسک پانی فراہم کرنے والی لوئر سوات کینال ضلع مردان کی بیشتر زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہے جبکہ چارسدہ اور نوشہرہ کے کچھ حصوں کو بھی یہیں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ دوآبہ کینال سے ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر کی زرعی زمینوں کو 350 کیوسک پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ منڈہ ہیڈ ورکس سے تینوں اضلاع میں مجموعی طور پر ایک لاکھ ستر ہزار ایکٹر زمین سیراب ہوتی ہے۔
منڈہ ہیڈ ورکس پر بڑا سیلابی ریلا 26 اگست کو آیا تھا جس نے اس کے آٹھ میں سے تین پینل (دروازے) تباہ کر دیے جس سے پانی کی ترسیل معطل ہو گئی۔ سیلاب کے بعد ہیڈ ورکس سے نکلنے والی دو آبہ کینال میں 11 فٹ بلند ریت اور مٹی کی تہہ جمع ہو گئی جس نے پانی کا بہاؤ روک دیا۔ حافظ یاسر کے مطابق نہر کو صاف کرنے اور اس کے بند مضبوط بنانے پر دس کروڑ روپے لاگت آئے گی۔
شمس کا کہنا ہے کہ ہیڈ ورکس کے قریب بڑی مشینری سے نہر کی بحالی کا کام تو جاری ہے تاہم اُن کے بقول یہاں سے آگے نظر گڑھی، کتوزئی، برہ گڑھی، اسلام آباد اور مٹہ میں نہر کو بھی نقصان پہنچا ہے جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
'کھیت سوکھ رہے ہیں'
شبقدر کے گاؤں سردار گڑھی کے رہائشی 70 سالہ میاں رحمت الدین اپنے گاؤں میں کریانے کی دکان چلاتے ہیں۔ تاہم اُن کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ان کی تین ایکڑ زرعی زمین ہے جس پر وہ گنا اگاتے ہیں۔ سیلاب کے دوران دوآبہ نہر میں ملبہ آنے سے رحمت کی فصلوں کو بھی پانی کی فراہمی معطل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی ان کے کھیتوں میں دو سے تین فٹ اونچی ریت کی تہہ بچھا گیا ہے۔ وہ موجودہ فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں سے ریت صاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس پر فی ایکڑ دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم خرچ ہو گی ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس زمین پر کئی سال تک کوئی فصل کاشت نہیں کی جا سکے گی۔
شبقدر سے ہی تعلق رکھنے والی 70 سالہ زینت بی بی نے اپنے کھیت میں سبزیاں اگا رکھی ہیں جو پانی نہ ملنے کے باعث سوکھ گئی ہیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد ان کی زمین چھ سال تک بنجر رہی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنے دو بیٹوں کو ملازمت کے لیے دبئی بھجوایا اور ان کی دو سال کی کمائی سے 2016 میں اپنی زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سیلاب نے انہیں ایک مرتبہ پھر اسی مشکل میں ڈال دیا ہے جس کا وہ کئی سال تک سامنا کرتی رہی ہیں۔
چارسدہ کے محکمہ زراعت (توسیع) کے ضلعی افسر علی خان بتاتے ہیں کہ حالیہ سیلاب سے چارسدہ میں نو ہزار 545 ایکڑ زمین پر فصلیں اور باغات تباہ ہوئے جس سے تقریباً 84 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ گنے کی فصل تیار ہے تاہم اس مرتبہ پانی کی کمی کے باعث پیداوار کم ہو سکتی ہے۔
چارسدہ کے علاقے وینو گڑھی سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ کاشت کار ظفر علی خان کا کہنا ہے کہ ہر سال زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے نومبر اور دسمبر میں پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور اگر ان مہینوں میں فصل کو پوری مقدار میں پانی نہ ملے تو پیدوار کافی حد تک متاثر ہو سکتی ہے۔
منڈہ ہیڈ ورکس کو نقصان پہنچنے سے نہ صرف آب پاشی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے بلکہ شبقدر سے چارسدہ اور مہمند تک آمدورفت بھی متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب میں پل تباہ ہو جانے کے باعث مقامی آبادی کو اب کشتی کے ذریعے دریا پار کرنا پڑتا ہے۔
حافظ یاسر کا کہنا ہے کہ منڈہ ہیڈ ورکس کو عارضی طور پر بحال کرنے کے لئے چار کروڑ روپے درکار ہیں جبکہ مستقل بحالی کے حوالے سے درکار فنڈز کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ ہیڈ ورکس کی عارضی بحالی کے بعد دونوں نہروں سے ضرورت کے مطابق زرعی مقاصد کے لئے پانی مہیا کیا جا سکے گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ پل پر لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہیڈ ورکس کی مستقل بحالی کے بغیر ممکن نہیں۔
حافظ یاسر کا دعویٰ ہے چارسدہ، نوشہرہ اور پشاور میں زرعی زمینوں اور آبادی کو سیلاب سے بچانے کے لئے 105 کلومیٹر طویل حفاظتی دیوار کی تعمیر جون 2024 تک مکمل ہو جائے گی جس کے بعد ان علاقوں کو دوبارہ کسی ایسی آفت کی صورت میں حالیہ شدت کی مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا۔
تاریخ اشاعت 29 نومبر 2022