چاول کی فصل کے ڈنٹھل غلط طریقے سے تلف کرنے کے ماحولیاتی اثرات: کھیتوں میں لگی آگ کو کون روکے گا؟

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

چاول کی فصل کے ڈنٹھل غلط طریقے سے تلف کرنے کے ماحولیاتی اثرات: کھیتوں میں لگی آگ کو کون روکے گا؟

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

جیسے ہی وسطی پنجاب کا کوئی کسان اپنی چاول کی فصل کاٹنے کے بعد اس کی باقیات کو آگ لگاتا ہے حکومتی اہل کاروں کو اپنے دفتر میں بیٹھے اس کی خبر ہو جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں متعلقہ کسان تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے خلاف سرکاری کارروائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔

اس عمل کے سب سے پہلے مرحلے میں فضائی سائنس پر تحقیق کرنے والا قومی ادارہ (سپارکو) ضلعی انتظامیہ کو اطلاع دیتا ہے کہ اس کی عمل داری میں ایسے کون سے مقام ہیں جہاں درجہ حرارت ارد گرد کے مقامات سے زیادہ ہے۔ ان جگہوں پر موجود انسانی آبادیوں کے تعین کے لئے انتظامیہ گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) استعمال کرتی ہے جو ڈیجیٹل اور آن لائن نقشوں میں برتا جاتا ہے۔

جب سرکاری اہل کاروں کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ آگ کس بستی میں لگی ہے تو اس کی تصدیق کے لئے وہ ایک سرکاری کمیٹی کو وہاں بھیجتے ہیں جس کے ارکان کھیت کو آگ لگانے والے کسان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس نشان دہی کی بنیاد پر محکمہ زراعت اس کسان کے خلاف مقامی تھانے میں مقدمہ درج کرانے کے لئے درخواست دیتا ہے جس پر پولیس اس کے خلاف ابتدائی معلومات کی رپورٹ (ایف آئی آر) لکھ لیتی ہے۔

یہ رپورٹیں 1958 میں قدرتی آفات کی روک تھام کے لئے بنائے گئے قانون، پنجاب نیشنل کلیمیٹیز پریوینشن اینڈ ریلیف ایکٹ، اور تعزیراتِ پاکستان کی امنِ عامہ کو نقصان پہنچانے سے متعلق دفعہ 144 کے تحت درج کی جاتی ہیں۔ ان کے نتیجے میں فصل کی باقیات جلانے والے ہر کسان کو ایک ماہ قید یا دو سو روپے جرمانہ یا بیک وقت دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس سال اکتوبر کے مہینے میں صرف ضلع قصور میں – جو پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے ساتھ لاہور کے جنوب مشرق میں  واقع ہے – کسانوں کے خلاف ایسی 14 رپورٹیں درج کی گئی ہیں۔ اسی طرح دریائے چناب کے کنارے واقع ضلعے حافظ آباد میں بھی گذشتہ مہینے 13 ایسے مقدمے بنائے گئے۔ پنجاب کے محکمہِ زراعت کی طرف سے دو نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں مجموعی طور پر  کسانوں کے خلاف چاول کے مڈھوں اور ڈنٹھلوں کو کھیتوں میں جلانے پر 504 پرچے کاٹے جا چکے تھے اور 79 کسانوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔

قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق نو نومبر تک حکومتی اہل کاروں نے کھیتوں میں لگی ہوئی آگ کے 3667 واقعات کی نشاندہی کی تھی جبکہ ان واقعات میں ملوث کسانوں کے خلاف کاٹے جانے والے پرچوں کی تعداد 817 تک پہنچ چکی تھی۔

کسانوں کو شکایت ہے کہ یہ طریقہِ کار مناسب نہیں۔

محمد اکرم حافظ آباد شہر کے قریب ایک گاؤں میں دس ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی اہل کار دو ایکڑ پر آگ لگانے والے کسان کے خلاف بھی وہی کیس درج کر رہے ہیں جو وہ 100 ایکڑ پر ایسا کرنے والے کسان کے خلاف بنا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں 'چھوٹا کسان تھانے، کچہری اور جیلوں کے چکر ہی لگاتا رہتا ہے' جبکہ بڑا کسان پیسہ اور اثر و رسوخ استعمال کر کے اس تمام دردِ سر سے آزاد رہتا ہے۔ 

کھیت کیوں جل رہے ہیں؟

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس کی مدد سے وہ فصل کی باقیات کو جلائے بغیر ختم کر سکیں۔ خاص طور پر چھوٹے کاشتکار – جو پانچ ایکڑ سے کم زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں –  مالی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ بھاری مشینری کرائے پر لے کر اسے چاول کے مڈھوں اور ڈنٹھلوں کو ختم کرنے کے لئے استعمال کریں۔
لیکن وہی انتظامیہ جو کھیتوں میں آگ لگانے والے کسانوں کی٫ نشاندہی کرنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے اور ان کے خلاف پرچے کاٹنے میں غیر معمولی مستعدی دکھاتی ہے کسانوں کو مشینوں کی فراہمی کے معاملے میں کاغذی کارروائیوں سے آگے نہیں بڑھتی۔

حکومتی اہل کار بہرحال دعویٰ کرتے ہیں کہ کسانوں کو ہر وہ چیز مل رہی ہے جو انہیں فصل کی باقیات کو آگ لگانے سے روکنے کے لئے ضروری ہے۔

حافظ آباد اور قصور میں متعین محکمہ زراعت کے ضلعی افسران کے مطابق ان کے محکمے کے اہل کار گاؤں گاؤں جا کر مساجد میں اعلان کروا رہے ہیں کہ فصل کے مڈھوں کو نہ جلایا جائے۔ محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اعلانات کی تعداد دو نومبر تک 21496 تک پہنچ چکی تھی۔ 'اسی طرح یونین کونسل کی سطح پر ہمارے نمائندے کسانوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور انہیں کھیتوں میں آگ لگانے کے بجائے دوسرے طریقوں کے استعمال کی تربیت دینے اور اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے پمفلٹ اور دوسرا تحریری مواد بھی فراہم کر رہے ہیں'۔ محکمے کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دو نومبر تک 1637 تربیتی پروگراموں میں 286209 کسانوں کو تربیت دی جا چکی تھی۔

ضلع قصور میں محکمہ زراعت کے ایک سینئر اہل کار ڈاکٹر وقاص احمد کا یہ بھی کہنا ہے کی اس سال وفاقی حکومت نے سوا چھ ارب روپے کی لاگت سے 'قومی منصوبہ برائے فروغِ پیداوار دھان'  شروع کیا ہے جس کے تحت حکومت چاول کے کاشتکاروں کو فصل کی باقیات تلف کرنے کے لیے رعایتی قیمتوں پر ایسی مشینیں مہیا کر رہی ہے جن کے استعمال سے انہیں کھیتوں کو جلانا نہیں پڑے گا۔

حافظ آباد کے اسسٹنٹ کمشنر ریونیو عدنان ارشاد بھی اسی طرح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس سال ضلع حافظ آباد میں کسانوں کو چاول کی باقیات جلانے سے روکنے کے لئے سات بڑی چوپر/شریڈر (chopper/shredder) مشینیں در آمد کی ہیں جو فصل کے مڈھ کو جڑ سے تو نہیں نکال سکتیں لیکن اس کا زمین سے باہر موجود ڈنٹھل ضرور تلف کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مشینیں رعایتی نرخوں پر کسانوں کو کرائے پر دی جا رہیں ہیں۔  

اسی طرح ایک حالیہ حکومتی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پنجاب اس سال 143 چوپر/شریڈر مشینیں اور اتنی ہی ہیپی سیڈر (happy seeder) مشینیں بھی مارکیٹ سے 80 فیصد رعایتی نرخوں پر کسانوں کو کرائے پر مہیا کرے گی۔(ہیپی سیڈر مشین چاول کے ڈنٹھل کو کاٹ کر اسے کھیت میں ملا دیتی ہے اور ساتھ ساتھ گندم بھی بو دیتی ہے)۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ چاول کی فصل کی کٹائی اور گندم کی فصل کی بوائی میں محض دو ہفتوں کا فرق ہونے کی وجہ سے کسانوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا جبکہ، ان کے مطابق، حکومتی مشینری کے حصول کے لئے نا صرف وقت چاہیے ہوتا ہے بلکہ پیسہ اور اثر و رسوخ بھی۔

اس ضمن میں ایک انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ہر سال تقریباً 46 لاکھ ایکڑ پر چاول کاشت ہوتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے جن 286 مشینوں کی فراہمی کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ پندرہ دنوں میں ایک گھنٹہ فی ایکڑ کے حساب سے کام کرتے ہوئے بھی محض ایک لاکھ ایکڑ کو ہی سنبھال پائیں گی – وہ بھی تب اگر وہ ہر روز چوبیس گھنٹے کام کریں۔

لہٰذا ان مشینوں کی درآمد اور ان کو دن رات کام پر لگانے کے باوجود بقیہ 45 لاکھ ایکڑ پر کسانوں کے پاس مڈھوں اور ڈنٹھلوں کو جلانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشینوں کی درآمد زیادہ تر سرکاری کاغذوں میں ہی ہو رہی ہے۔ اگرچہ حکومت نے چند چوپر/شریڈر مشینیں درآمد کر لی ہیں لیکن باقی ماندہ ابھی تک پاکستان نہیں پہنچیں۔ اسی طرح ہیپی سیڈر -- جو زیادہ تر پاکستان میں ہی بنیں گے -- کی تیاری بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ 

حکومتی دعووں اور زمینی حقائق میں اس فرق کو 80 سالہ نذیر احمد نے زندگی میں کئی بار دیکھا ہے۔ وہ پچھلی چھ دہائیوں سے ضلع شیخوپورہ میں دس ایکڑ زمین پر کاشت کاری کر رہے ہیں اور سرکاری حکام کی باتوں پر ذرہ برابر اعتبار بھی نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے: 'نہ تو محکمہ زراعت کا کوئی نمائندہ ہمارے پاس آیا ہے اور نہ ہی ہمیں کسی ایسے منصوبے کا پتہ ہے جسکے تحت ہمیں رعایتی کرائے پر فصل کی باقیات تلف کرنے کے لیے مشینیں مہیا کی جائیں گی'۔

ضلع نارووال کے کاشتکار امجد علی کو بھی اسی قسم کی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہمارے پاس نہ تو محکمہ زراعت والے آتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس آگ کے کوئی متبادل ذرائع ہیں جن سے ہم چاول کی مڈھوں کو تلف کر سکیں'۔

ان کے بقول فصل کاٹنے والی ایک عام ہارویسٹر مشین بھی 25 سے 30 لاکھ روپے میں آتی ہے جسے خریدنا ان جیسے 20 ایکڑ کے مالک کسان کے لئے ممکن نہیں۔ اس سے کم زمین والے کسان تو ان مشینوں کو کرائے پر لینے سے پہلے بھی سوچتے ہیں کہ کہیں اس سے ان کے فصل پر آنے والے اخراجات ان کی مالی حیثیت سے زیادہ نہ ہو جائیں۔

ضلع حافظ آباد میں سکھیکی نامی قصبے کے پاس رہنے والے ایک زمیندار سلطان احمد بھٹی نے مشینوں کی عدم فراہمی سے تنگ آ کر ایک آدھ مشین تو خود ہی ڈیزائن کر لی ہے جبکہ کچھ دیگر درآمد شدہ مشینوں میں مقامی ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کر کے انہیں بھی کارآمد بنا لیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مشینوں کی قیمت اور ان کا کرایہ صرف اسی صورت میں کم کیا جا سکتا ہے اگر انہیں پاکستان کے اندر ہی تیار کرنا شروع کیا جائے۔ لیکن اس کے لئے جس قسم کی فنی مہارت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے وہ، ان کے مطابق، کسی حکومتی محکمے کے پاس نہیں۔اسی لئے جب حکومت نے ہیپی سیڈر کو مقامی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی تو 'پاک سیڈر کے نام سے بنائی گئی یہ مشین ناکام ہو گئی'۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کھاد پر امداد دینے کا پیچیدہ سرکاری طریقہ کار: پریشان حال کسان سبسڈی کے ٹوکن فروخت کرنے پر مجبور۔

شبیر احمد جیسے مقامی طور پر زرعی آلات بنانے والے لوگ بھی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر تیار نہیں۔ 

وہ اور انکے آباؤ اجداد 1962-63 سے ضلع حافظ آباد میں زرعی آلات بنا رہے ہیں۔ ان کی کمپنی، کیلانی زرعی انڈسٹریز،  اپنی عمدہ کوالٹی کے لئے مشہور ہے۔ ان کا کہنا ہے: 'ماضی میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہم کسانوں کے لیے رعایتی قیمت پر مشینیں تیار کرتے رہے ہیں مگر ہمیں پیسوں کی ادائیگی ہمیشہ سات یا آٹھ مہینے کی تاخیر سے ہوتی تھی اور اس میں طرح طرح کی کٹوتیاں بھی کر لی جاتی تھیں لہٰذا ہم نے یہ معاہدہ ختم کر دیا'۔

کسان اور زرعی آلات بنانے والے کچھ بھی کہیں، لاہور میں محمکہ زراعت کے مرکزی دفتر میں متعین ڈائریکٹر جنرل انجم علی بُٹر کے لئے سب اچھا ہے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ کسانوں کے خلاف کھیتوں میں آگ لگانے پر پورے پنجاب میں کہیں بھی کوئی کیس درج نہِیں کیا گیا لیکن ساتھ ہی وہ کسانوں کو حکومت کی بات نہ سننے کا موردِ الزام بھی ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'جہاں جہاں کسانوں نے چاول کی فصل اٹھا کر سبزیاں کاشت کرنا ہوتی ہیں وہاں وہاں وہ مڈھ ضرور جلائیں گے چاہے حکومت کچھ بھی کر لے۔

اس کے باوجود ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 'ہمارے ہاں صورتِ حال انڈیا سے کہیں بہتر ہے'۔

سرحد کے پار صورتِ حال ہے کیا؟

انڈین پنجاب میں جس تیزی سے چاول کے مڈھ اور ڈنٹھل جلائے جا رہے ہیں وہ وہاں کی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

اکتوبر کے مہینے میں جب چاول کی فصل کے مڈھ جلانے کا آغاز ہوا تو کھیتوں میں پچھلے سال سے تین گنا زیادہ آگ دکھائی دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چاول کی حالیہ فصل پہلے سے زیادہ اراضی پر بوئی گئی تھی لیکن محکمہ زراعت کے حکام کا کہنا ہے کہ فصل کی زیادہ مقدار کو مدِ نظر رکھا جائے تو پھر بھی اس برس فصل کی باقیات کو جلانے کے واقعات پہلے سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار بھی اس رجحان کی تصدیق کرتے ہیں: 19 اکتوبر تک فصل کے بچے کھچے حصے جلائے جانے کے 7105 واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 2641 اور 2018 میں 2005 تھی۔

سرکاری اہل کاروں کا دعویٰ ہے کہ بہت سی دیہاتی پنچائتوں نے فصلوں کے بچے کھچے حصے جلانے کے خلاف قراردادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن یہ قراردادیں بھی بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع مانسا میں ایک دیہی پنچایت نے فصلوں کے مڈھ جلائے جانے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کم از کم اس کے اپنے گاؤں میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے مگر پنچائت کے ارکان کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور معاشی طور پر کمزور کسانوں کو ڈنٹھل اور مڈھ نہ جلانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح انڈین پنجاب کی حکومت کسانوں کو فصل کی باقیات کی تلفی کے لئے درکار مشینری کی خریداری پر 50 فیصد امداد بھی دے رہی ہے۔ اب تک اس سکیم کے تحت گیارہ ہزار مشینیں خریدی جا چکی ہیں۔ حکومت نے قریباً 17 ہزار ایسے خصوصی مراکز بھی قائم کیے ہیں جہاں سے کم اراضی والے اور معاشی طور پر کمزور کسان یہ مشینیں مفت حاصل کر سکتے ہیں جبکہ درمیانے اور بڑے درجے کے کسانوں سے بھی مارکیٹ کی نسبت 80 فیصد کم کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔  

تاہم ان تمام حکومتی کاوشوں کے باوجود فصلوں کے ٹھنٹھ جلانے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کئی چھوٹے کسان کہتے ہیں کہ اگرچہ حکومت نے مشینوں کا کرایہ معاف کر دیا ہے لیکن انہیں کھیتوں میں استعمال کرنے کے لیے ٹریکٹر کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے انہیں ڈیزل کی فراہمی سمیت فی گھنٹہ ہزار (انڈین) روپے ادا کرنا ہوتے ہیں جو وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔  

ضلع بٹھنڈہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک کسان جرنیل سنگھ کہتے ہیں کہ 'کرایے کے بغیر مہیا کی جانے والی مشینیں بھی ہمارے کسی کام کی نہیں کیونکہ انہیں استعمال کرنے کے لیے ٹریکٹر درکار ہوتا ہے جس کا کرایہ ادا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے مشینری کی فراہمی کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں'۔

صوبائی محکمہ زراعت کے جوائنٹ ڈائریکٹر منموہن کالیا مانتے ہیں کہ 'حکومت کی جانب سے مہیا کی جانے والی مشینوں کے باوجود اب بھی بہت سے کسان فصلوں کے مڈھ جلا رہے ہیں'۔ تاہم ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ '(انڈین) پنجاب میں قریباً 60 فیصد کسان اس بات پر راضی ہیں کہ وہ فصلوں کے بچ رہنے والے حصوں کو جلانے کے بجائے انہیں دوسرے طریقوں سےتلف کریں گے'۔

لیکن لاکھوں ایکڑ پر جلتے کھیت ان کی اس دعوے کی بھرپور نفی کرتے ہیں۔

بٹھنڈہ سے تعلق رکھنے والےایک کسان مہندر سنگھ کے مطابق اس مسئلے کا حل کوئی اور ہے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر حکومت 'ہمیں 200 کلو گرام مڈھ اٹھانے کے 200 (انڈین) روپے یا ایک ایکڑ سے مڈھوں کی صفائی کے لیے 4000 (انڈین) روپے مہیا کرے تو ہم فصل کے ان بچے کھچے حصوں کو جلائے بغیر تلف کر دیں گے'۔

لیکن انڈین حکومت کسانوں کو نقد ادائیگی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

نوٹ: انڈین پنجاب سے نیل کمل، لاہور سے فاطمہ رزاق اور دیپالپور سے افراسیاب نظامی نے اس رپورٹ کی تیاری میں معاونت کی ہے۔ 

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 10 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 26 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.