لاہور کے ایکسپو سنٹر کے اندر اور باہر 10 جولائی 2021 کو دوپہر کے وقت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ وہ کورونا وائرس سے تحفظ کے لئے ویکسین لگوانے کے لیے یہاں آئے ہیں۔
سنٹر کے وسیع و عریض ہالوں میں چینی، یورپی اور امریکی ساختہ ویکسین لگانے کے لیے الگ الگ جگہیں مخصوص ہیں۔ یورپی اور امریکی ویکسین لگوانے کے منتظر بیشتر لوگ نوجوان ہیں جبکہ جن جگہوں پر چینی ویکسین لگائی جا رہی ہیں وہاں دکھائی دینے والے لوگوں کی اکثریت درمیانی عمر والے اور معمر افراد پر مشتمل ہے۔ ان تمام لوگوں کے پاس ان کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) ہیں کیونکہ ویکسین لگوانے والے کے لئے ان کارڈوں کی موجودگی لازمی ہے۔
ایکسپو سنٹر میں ویکسین لگانے والے عملے کے بعض ارکان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کی ایک چھوٹی -- مگر غیرمعینہ – تعداد کو بھی ویکسین لگائی ہے جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے۔ تاہم ان میں سے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ "ہم نہ تو ان کے نام ویکسین لگوانے والوں کے ریکارڈ میں درج کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ویکسین لگوانے کا سرکاری سرٹیفکیٹ ملے گا"۔
اگر بے ضابطہ طور پر ویکسین لگوانے والے ان لوگوں کو کبھی بیرون ملک جانے یا کوئی ایسا کام کرنے کی ضرورت پڑے جس کے لیے مذکورہ بالا سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے تو ان کے ساتھ ویکسین نہ لگوانے والوں کی طرح کا ہی سلوک کیا جائے گا۔ چنانچہ ان کےپاس صرف یہی یقین دہانی بچتی ہے کہ انہیں کورونا وائرس کے خلاف تحفظ حاصل ہے۔
لوگوں کی اس چھوٹی سی تعداد کو چھوڑ کر ایسے تمام لوگ جن کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں انہیں کم از کم مستقبل قریب میں کورونا وائرس سے تحفظ کی یہ یقین دہانی بھی نہیں مل سکے گی۔
لاہور کے جوہر ٹاؤن میں شوالہ روڈ پر بنی ایک کچی بستی کے بیشتر رہائشیوں کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اپنی جھونپڑیوں کے درمیان کھلی جگہ پر چارپائیوں پر بیٹھے اور گپ شپ لگاتے یہ لوگ ایکسپو سنٹر میں بڑے پیمانے پر جاری کورونا ویکسینیشن مہم کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے حالانکہ یہ کام ان کے گھروں سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہو رہا ہے۔
اس کچی بستی میں رہنے والی عورتوں کی بڑی تعداد قریبی گھروں میں گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتی ہے۔ ان میں سلمیٰ سعید بھی شامل ہیں جن کا تعلق لاہور سے 77 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ضلع ننکانہ صاحب سے ہے۔ ان کی عمر 40 سال سے کچھ زیادہ ہے اور وہ چار بچوں کی ماں ہیں۔ چھ افراد پر مشتمل ان کے گھرانے میں صرف ان کے شوہر کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے۔ سلمیٰ کو جب بھی کوئی سرکاری سہولت (جیسا کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا) حاصل کرنے کے لیے اپنی شہریت کا ثبوت دینا ہوتا ہے تو وہ اپنے شوہر کا شناختی کارڈ دکھا دیتی ہیں۔ ان کے مطابق "بیشتر مواقع پر اسی سے کام چل جاتا ہے"۔
اس بستی میں رہنے والی تقریباً تمام عورتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔
درمیانی عمر کی کریمہ بی بی اگرچہ ان کے ساتھ نہیں رہتیں لیکن ان کی زندگی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔وہ بیس سال سے شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ زبان میں نقص ہونے کے باعث انہیں بولنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ جب وہ پریشان ہوتی ہیں تو یہ دشواری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
وہ ہر صبح نو بجے جوہر ٹاؤن کے ایک گھر میں کام کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ گھر کے مالکان کے لیے ناشتہ تیار کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "بہت عرصہ پہلے جب میرے والد زندہ تھے تو اس وقت میرے پاس شناختی کارڈ ہوا کرتا تھا"۔ اب ان کے پاس اپنے پرانے شناختی کارڈ کی کوئی نقل بھی موجود نہیں کیونکہ، ان کے مطابق، "ایک مرتبہ میرا بھائی میرا شناختی کارڈ لے گیا تھا لیکن اس نے پھر اسے کبھی واپس نہیں کیا"۔
اب جبکہ حکومت لوگوں کو کورونا وائرس کی پانچویں لہر کے بارے میں خبردار کر رہی ہے تو کریمہ کے لیے خود کو اس سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں۔ وہ جس گھر میں کام کرتی ہیں اس کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ "اگرچہ وہ ویکسین لگوانے سے خوفزدہ ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے انہیں ویکسین لگوانے کے لیے تیار کر لینا تھا کیونکہ وہ ہمارے گھر میں گزشتہ 10 سال سے کام کر رہی ہیں۔ مگر اب ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں ہے"۔
لاہور کی فیروزپور روڈ کے جنوبی سرے کے قریب بے ترتیبی سے پھیلی ایک بہت بڑی کچی بستی میں رہنے والی بہت سی عورتیں بھی ویکسین نہیں لگوا سکتیں کیونکہ ان کے پاس بھی شناختی کارڈ نہیں ہیں۔
یہ بستی شہر کی دیگر کچی بستیوں سے مختلف ہے کیونکہ یہ کسی امیر علاقے کے قرب و جوار میں نہیں بلکہ کاچھا نامی غریب گاؤں کے قریب واقع ہے۔ اس کی گنجان آباد گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر اور گندے پانی کے جوہڑ جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں گھر چھوٹے چھوٹے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک میں بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ اسی لیے ان کے لیے ایک دوسرے سے جسمانی فاصلہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں کے بڑے، بوڑھے اور بچے سبھی ایسے کمروں میں رہتے ہیں جہاں ایک مشترکہ احاطہ تو ہوتا ہے لیکن کسی کے لیے الگ رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
اس بستی کی رہائشی شمع بی بی اپنے دو چھوٹے بچوں کو نہلانے میں مصروف ہیں۔ ان کے شوہر کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی آمدنی بہت کم ہے تاہم، علاقے کی دیگر عورتوں کے برعکس، وہ اپنی بیوی کو کام پر نہیں بھیجتے۔
شمع کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے ان کی بستی میں لوگوں کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے ایک موبائل وین بھیجی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاہم وین میں موجود اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ ان کا شناختی کارڈ لاہور میں نہیں بن سکتا۔ انہیں اس سلسلے میں اپنے آبائی ضلعے ننکانہ صاحب کے نادرا آفس سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔
لیکن ان کے لیے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ننکانہ صاحب جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ، ان کے مطابق، اس کام پر نا صرف پیسے خرچ ہوتے بلکہ ان کے شوہر کے پاس انہیں وہاں لے جانے کا وقت بھی نہیں تھا کیونکہ انہیں قریباً روزانہ کام پر جانا پڑتا ہے۔
ویکسین سب کے لیے
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، سلمیٰ، کریمہ اور شمع کی طرح پاکستان میں 18 سال سے زیادہ عمر کی ایک کروڑ 23 لاکھ سے زیادہ خواتین کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔ یہ تمام خواتین اس وقت تک کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے سے محروم رہیں گی جب تک حکومت اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتی اور ویکسین لگوانے کے لیے سرکاری طور پر تصدیق شدہ شناختی دستاویزات دکھانے کی شرط ختم نہیں کر دیتی۔
لاہور کی ایبٹ روڈ پرواقع نادرا کے دفتر میں کام کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہے حالانکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا محکمہ زیادہ سے زیادہ خواتین کے شناختی کارڈ بنانے کی متعدد کوششیں کر رہا ہے۔ان میں سے ایک اہل کار کے مطابق "نادرا رجسٹریشن مراکز سے دور دراز واقع علاقوں اور کچی بستیوں میں موبائل وینیں بھیجی جا رہی ہیں تاکہ وہاں رہنے والے لوگ بالعموم اور خواتین بالخصوص اپنے گھر کی دہلیز پر اپنے شناختی کارڈ حاصل کر سکیں"۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جو خواتین شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ان موبائل گاڑیوں سے رجوع کرتی ہیں ان کےپاس یا تو تمام ضروری دستاویزات نہیں ہوتیں یا ان کے شوہر انہیں شناختی کارڈ بنوانے میں مدد نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں خواتین ووٹروں کی تعداد مردوں سے کم کیوں ہے؟
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ شناختی کارڈ کا نہ ہونا خواتین کی طرف سے ویکسین نہ لگوانے کی واحد وجہ نہیں کیونکہ، ان کے بقول، "بہت سے لوگ ویسے ہی ویکسین لگوانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر ہم ان کے شناختی کارڈ فوری طور پر بنا دیں تو تب بھی وہ کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر ویکسین لگوانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے"۔
تاہم ماہرینِ صحت کا حکومت سے اصرار ہے کہ حکومت جتنی جلد ممکن ہو سکے پاکستان کے تمام بالغ مردوں اور خواتین کی ویکسینیشن کو یقینی بنائی جائے خواہ ان کے پاس شناختی کارڈ ہوں یا نہ ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی کے استاد اور صحتِ عامہ کے ماہر نعمان علی چوہدری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت کو ان تمام لوگوں کو وبا سے محفوظ کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا چاہیے جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔
اسی طرح لاہور میں ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز کے سربراہ ڈاکٹر طارق میاں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پوری ملکی آبادی میں کورونا وائرس کے خلاف اجتماعی مدافعت پید اکرنا چاہتی ہے تو اسے یقینی بنانے کے لیے اسے کم ازکم 60 فیصد آبادی کو فوری طور پر ویکسین لگانا ہوگی لیکن اگر "ایک کروڑ 23 لاکھ بالغ خواتین کو ویکسین نہ لگائی گئی تو اس سے یقینی طور پر بہت بڑا طبی خطرہ جنم لے سکتا ہے"۔
سِول سوسائٹی کے کارکنوں کی نظر میں شناختی کارڈ سے محروم خواتین کو ویکسین لگانے میں ناکامی محض ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ صنفی انصاف کا معاملہ بھی ہے۔ لاہور میں خواتین کے حقوق کی تنظیم چلانے والی بشریٰ خالق کہتی ہیں کہ "اگر حکومت ان خواتین کے لیے ویکسین کا اہتمام نہیں کرتی تو یہ ان سے صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک ہو گا"۔ ان کے مطابق "ان خواتین کو کووڈ۔19 کے خلاف ویکسین لگوانے کے لیے مزید 10 سال تک انتظار نہیں کروایا جا سکتا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ انہیں کوئی عارضی شناخت فراہم کر کے انہیں ویکسین لگائے "۔
لیکن یوں لگتا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے سٹاف افسر ایم شاہد انور کے بقول "جب شناختی کارڈ رکھنے والے سب لوگوں کو ویکسین لگا دی جائے گی تبھی ہم ان لوگوں کے بارے میں سوچیں گے جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 23 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 29 اپریل 2022