اسلام آباد ہائی کورٹ نے پچھلے مہینے چار ایسی تعمیرات ختم کرنے کا حکم دیا جو وفاقی دارالحکومت میں مسلح افواج کے اداروں نے بنائی ہوئی ہیں۔ ان میں راول جھیل کے کنارے بنایا گیا بحریہ کا سیلنگ کلب، سِملی ڈیم کے قریب واقع بحریہ کے فارم ہاؤسز، سیکٹر ای ایٹ میں قائم بحریہ کا گالف کورس اور مارگلہ کی پہاڑیوں پر برّی فوج کی طرف سے کرائے پر دیا گیا مونال ریستوران شامل ہیں۔
سیلنگ کلب کے خلاف درخواست زینت سلیم نامی ایک خاتون نے دائر کر رکھی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کلب ایک نیشنل پارک کی زمین پر بنایا گیا ہے جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ کلب راول جھیل میں آلودگی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے جس سے راولپنڈی شہر کو فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی گندا ہو رہا ہے۔
انہی خاتون نے بحریہ کے فارم ہاؤسزکے خلاف بھی درخواست دی ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ فارم ہاؤسز غیر قانونی ہیں کیونکہ ایک تو انہیں بھی ایک نیشنل پارک کی زمین پر بنایا گیا ہے اور دوسرا ان کی تعمیر کے لیے اسلام آباد میں تعمیر و ترقی کے نگراں ادارے، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، سے اجازت نہیں لی گئی۔
کئی ماہ ان درخواستوں کی سماعت کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 جنوری 2022 کو فیصلہ جاری کیا کہ سیلنگ کلب کو تین ہفتوں میں گرایا جائے اور فارم ہاؤسز کو سی ڈی اے کی تحویل میں لیا جائے۔
چار روز بعد 11 جنوری کو اسی عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر موجود تجاوزات کے خلاف دائر کی گئی ایک درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے اس پارک میں بحریہ کی طرف سے بنائے گئے مارگلہ گرینز گالف کلب کو بھی چار ہفتوں میں ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔ اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر ملٹری ڈائریکٹوریٹ کی ملکیت کا دعویٰ غیر قانونی قرار دے دیا اور حکم دیا کہ اس پر فوج کی طرف سے کی گئی تمام تعمیرات ختم کر دی جائیں۔
ان تعمیرات میں سب سے نمایاں مونال ریستوران ہے جسے فوج نے کرائے پر دے رکھا ہے۔ عدالت نے اسے بند کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
تاہم ان عدالتی فیصلوں کے تین ہفتے کے بعد ابھی تک نہ تو سیلنگ کلب اور نہ ہی مارگلہ گرینز گالف کلب کو گرانے کا کام شروع ہوا ہے۔ اسی طرح نیوی کے فارم ہاؤسز کا قبضہ بھی سی ڈی اے کو نہیں مل سکا۔ اس کے بجائے بحریہ نے ان تینوں اقدامات کے خلاف دو الگ الگ انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ان اپیلوں میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 7 جنوری کو عدالت نے جس درخواست پر فیصلہ سنایا وہ قابل سماعت ہی نہیں تھی جبکہ 11 جنوری کو دیے گئے فیصلے سے پہلے بحریہ کا موقف نہیں سنا گیا۔
فی الوقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں اپیلوں کو تکنیکی بنیادوں پر واپس کر دیا ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ بحریہ وزارتِ دفاع کے ذریعے انہیں دوبارہ دائر کر سکتی ہے۔
اسی طرح مونال ریستوران کو کرائے پر چلانے والی کمپنی نے بھی عدالتی فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی ہے جس کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔
عدالتی فیصلے اور مقتدر ادارے
عوامی حقوق اور ماحولیاتی بہتری کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے یہ فیصلے اپیل در اپیل کے مراحل میں کھو جائیں گے اور ان پر کبھی عمل درآمد نہیں ہو پائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ دفاعی اداروں کی طرف سے کی گئی خلافِ قانون تعمیرات اور تجاوزات کے بارے میں اس سے پہلے بھی اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے متعدد فیصلے آ چکے ہیں تاہم ان کا نفاذ شاذ ہی ہوا ہے۔
کراچی میں شاہراہ فیصل پر فیصل کنٹونمنٹ کی حدود میں فضائیہ کی جانب سے ایک شاپنگ مال کی تعمیر اس کی نمایاں مثال ہے۔ اگرچہ نومبر 2021 میں سپریم کورٹ نے چھاؤنی کی اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا حکم جاری کیا تھا لیکن یہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کا نام فالکن مال سے تبدیل کر کے ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ رکھ دیا گیا ہے۔
اس کی دوسری مثال کراچی ہی کی راشد منہاس روڈ پر قائم نیو پلیکس سینما ہے جسے ختم کرنے کا عدالتی حکم 2019 میں جاری کیا گیا تھا لیکن یہ سینما بھی ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اسی طرح 2021 میں کراچی کے علاقوں ڈالمیا، عسکری 4، ڈی ایچ اے فیز 7 اور فیز 8 میں دفاعی مقاصد کے لیے مختص کی گئی زمینوں پر بنائے گئے شادی ہالوں اور دیگر تجارتی تعمیرات کو ختم کرنے کے ایک حالیہ حکم کی تعمیل بھی نہیں ہو سکی۔
اُسی سال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں سنٹرل آرڈننس ڈپو کی زمین پر کی جانے والی تجارتی تعمیرات ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا لیکن یہ تعمیرات بھی ابھی تک منہدم نہیں کی گئیں۔ کچھ ہفتے بعد سپریم کورٹ نے کراچی کے عسکری پارک کو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حوالے کرنے اور اس میں غیر قانونی طور پر قائم 38 دکانیں اور شادی ہال گرانے کا حکم دیا تھا لیکن یہ عمارات ابھی تک نہیں گرائی گئیں۔
اسی طرح اسلام آباد میں بحریہ کے ہیڈکوارٹر کی بیرونی دیوار کو مارگلہ نیشنل پارک کی حدود سے نکال کر پیچھے ہٹانے اور اسی پارک میں بنائی گئی فضائیہ کی غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرنے کے عدالتی احکامات پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
شہری منصوبہ بندی سے متعلق امور کے ماہر عارف حسن اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمین کا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کوئی نئی بات نہیں حالانکہ، ان کے مطابق، یہ استعمال ہمیشہ سے قانوناً غلط رہا ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ "عدالتیں اس کے خلاف فیصلے دینے میں باوجوہ محتاط رویہ اختیار کرتی ہیں"۔
جب کبھی ایسا فیصلہ سامنے اتا بھی ہے تو، ان کے بقول، "ہم دیکھتے ہیں کہ یہ استعمال عموماً جاری رہتا ہے اور بعد میں کسی نہ کسی طرح اسے قانونی جواز بھی مل جاتا ہے"۔
لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تحفظ صرف فوج تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ "ہر طاقتور ادارے اور طبقے کو مل جاتا ہے"۔ کراچی میں ہونے والی کئی غیر قانونی تعمیرات کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "صرف فوج ہی نہیں بلکہ حکومتِ سندھ" کی ایسی عمارات بھی نہیں گرائی جا سکیں جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر کے تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کی اپنی عمارت بھی "ایک نالے پر بنی ہوئی ہے لیکن اسے گرانے کی کوئی بات نہیں کرتا"۔
اس عدالتی اور انتظامی رویے کی بنا پر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف "کارروائی کی زد میں صرف غریبوں کے گھر ہی آتے ہیں اور مقتدر طبقہ صاف بچ نکلتا ہے"۔
گزشتہ دو سالوں میں اعلیٰ عدالتوں کے مختلف فیصلوں پر کیا گیا عمل درآمد ان کے نکتہِ نظر کی توثیق کرتا ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں کراچی کی کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت نسلہ ٹاور، سرکلر ریلوے کی زمین پر موجود گھر اور کاروباری عمارتیں، گجر اور گزری نالوں پر قائم بستیاں اور ایمپرس مارکیٹ میں بنائی گئی دکانیں اور اسلام آباد میں ایکسپریس وے، گلشن مارکیٹ اور سیکٹر جی نائن ٹو میں بنے ہوئے گھر اور دکانیں سب گرا دیے گئے ہیں کیونکہ، عارف حسن کے بقول، "ان میں رہنے اور انہیں استعمال کرنے والے لوگ عام طور پر غریب اور بے کس طبقات سے تعلق رکھتے ہیں"۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں سیاسیات و سماجیات کے استاد عمیر جاوید بھی سمجھتے ہیں کہ مختلف غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی میں فرق درحقیقت مقتدر اور بے اختیار لوگوں کے درمیان فرق کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
راوی ریور فرنٹ منصوبہ: گندے راوی پر' خوابوں کے شہر' کی تعمیر کتنی حقیقت پسندانہ ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے علاقے بنی گالا میں عمران خان کے گھر، اسلام آباد کے کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر بنائی گئی کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت، حیات ٹاور، اور کراچی کے شمال مغرب میں بنائے گئے کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل بحریہ ٹاؤن کے بارے میں دیے گئے عدالتی احکامات اس فرق کی واضح مثالیں ہیں۔ ان سبھی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجود ان کے مالکان یا تعمیر کنندگان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ جرمانہ دے کر انہیں قانونی کروا لیں۔
عمیر جاوید کے بقول "ان مقدمات میں عدالتوں نے ابتدا میں تو غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ دار افراد اور اداروں کو کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی لیکن بعد میں ان کے حق میں پیش کیے جانے والے جواز کو یا تو قبول کر لیا یا آسان شرائط کے تحت انہیں قانون کے دائرے میں لانے کی اجازت فراہم کر دی"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دفاعی اداروں اور دوسرے حکومتی محکموں کے پاس اپنی غیر قانونی تعمیرات کو جائز ثابت کرنے کے لیے درکار قانونی، سیاسی اور مالی وسائل موجود ہوتے ہیں لیکن "عام آدمی کو یہ وسائل دستیاب نہیں ہوتے"۔ یہی وجہ ہے کہ " گجر نالے پر بنی غیر قانونی بستیاں تو مسمار ہو جاتی ہیں لیکن فضائیہ کا شاپنگ مال قائم رہتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 2 فروری 2022