'کپاس اگاؤ معیشت بچاؤ'، بہاولپور ڈویژن کے کسان زیادہ کپاس اگا کر بھی پریشان

postImg

محمد یاسین انصاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'کپاس اگاؤ معیشت بچاؤ'، بہاولپور ڈویژن کے کسان زیادہ کپاس اگا کر بھی پریشان

محمد یاسین انصاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

بہاولپور کے زمیندار محمد امین نے حکومت کی "زیادہ کپاس اگاؤ" مہم سے متاثر ہوکر 27 ایکڑ رقبے پر یہ فصل تو کاشت کر لی ہے لیکن نہری پانی میں کمی کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ ان کی پیداوار بھی کم رہے گی۔ اگرچہ ان کے کھیتوں میں ٹیوب ویل بھی لگا ہوا ہے لیکن ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ اسے بار بار نہیں چلا سکتے۔ اب وہ پریشان ہیں کہ نجانے ان کی فصل کا کیا بنے گا۔

محمد امین کا تعلق ڈیرہ ورواہ سے ہے جہاں زرعی رقبہ تھری ایل بی سی نہر سے سیراب ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سالانہ نہر(جس میں پانی سال بھر چلتا رہتا ہے) ہونے کے باوجود ایک ہفتہ چلنے کے بعد دو ہفتوں کے لیے بند رہتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی فصل کو ضرورت کے مطابق اور وقت پر پانی نہیں دے پا رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی کی کمی کسی حد تک پوری ہو گئی ہے وگرنہ فصل خراب ہو چکی ہوتی۔ اب تک جتنی بارشیں ہوئی ہیں وہ فی الحال تو کپاس کے لیے مفید رہی ہیں لیکن مزید یا شدید بارشوں کی صورت میں فصل کو نقصان ہو گا کیونکہ کپاس اب اس مرحلے میں ہے جہاں اسے زیادہ دیر تک پانی میں کھڑا نہیں رکھا جا سکتا۔ ایسے میں نقصان دہ کیڑوں جیسا کہ سفید مکھی کا حملہ بھی خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔

اسی نہر سے فصل کو سیراب کرنے والے چک 33 بی سی اللہ دین والی کے چوہدری جاوید رسول کو بھی انہی حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے بھی سرکاری مہم کو دیکھ کر 35 ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کر لی ہے جو گزشتہ سال ان کے زیرکاشت رقبے سے 10 ایکڑ زیادہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کاشت سے پہلے محکمہ زراعت اور مقامی ضلعی انتظامیہ نے ان سے وعدے کیے تھے کہ فصل کو نہری پانی کی فراہمی ہر صورت ممکن بنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ بیج، کھاد اور زرعی ادویات کے معیار اور ان کی دستیابی میں بھی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ نہری پانی کی کمی کے باعث کپاس کا پھل اور پتے گرنا شروع گئے ہیں۔

"کپاس اگاؤ، معیشت بچاؤ"

پنجاب حکومت نے کپاس کی کم از کم قیمت ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی من مقرر کرتے ہوئے رواں سال اس کے زیر کاشت رقبے کو بڑھانے کی مہم شروع کی تھی۔ اس دوران کسانوں سے وعدے کیے گئے کہ انہیں معیاری بیج اور ادویات کی سرکاری نرخوں پر دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا اور کپاس کی زیادہ پیداوار حاصل کرنے والے کاشتکاروں کو انعامات بھی دیے جائیں گے۔

اس مہم کے ذریعے صوبے میں 50 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس اگانے کا ہدف مقرر کیا جس میں جنوبی پنجاب کا ہدف 45 لاکھ 54 ہزار ایکڑ تھا۔

محکمہ زراعت کی 21 جون 2023 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن میں 43 لاکھ 44 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کپاس اگائی گئی ہے اور اس طرح مقررہ ہدف کا 95 فیصد حاصل کر لیا گیا ہے۔

جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ کپاس بہاولپور ڈویژن میں اگائی جاتی ہے۔ رواں سال پنجاب میں کپاس کے کُل رقبے کا 44.5 فیصد بہاولپور میں ہے۔ اس ڈویژن میں بہاولپور سمیت بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع شامل ہیں جہاں امسال  21 لاکھ 38 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔

تاہم کپاس کے بہت سے کاشت کاروں کو شکایت ہے کہ انہیں ملنے والا نہری پانی مقرر کردہ مقدار سے پچاس فیصد تک کم ہے جس کی تصدیق محکمہ انہار کی فراہم کردہ معلومات سے بھی ہوتی ہے۔

محکمے کے سب انجینئر اختر کاہلوں کے مطابق بہاولپور ڈویژن کی نہروں کے لیے محکمہ انہار کی طرف سے پانی کی مقررہ مقدار 6500 کیوسک ہے لیکن ہیڈ ریگولیٹر لال سوہانرا پر 2800 سے 3400 کیوسک تک پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ اعداد شمار گزشتہ مہینے کے ہیں جب کپاس میں پھل لگنے کا مرحلہ شروع ہوچکا تھا۔

اختر کاہلوں بتاتے ہیں کہ ہیڈ ریگولیٹر لال سوہانرا سے نکلنے والی نہر ڈیزرٹ برانچ میں 3000 کیوسک پانی کی منظوری دی گئی ہے لیکن اس میں 1300 کیوسک پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ اسی طرح  احمد پور برانچ میں 2200 کیوسک پانی کی ضرورت ہے جس میں 12 کیوسک پانی بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ 30 چھوٹی نہروں میں بھی پانی مقرر کردہ مقدار سے بہت کم ہے۔

کسان الزام عائد کرتے ہیں کہ ملتان میں محکمہ انہار کے چیف انجینئر اپنے زون کی نہروں کاپانی پورا کرنے کے بعد ہی دیگر ہیڈ میلسی سائفن سے دیگر علاقوں کے لیے پانی چھوڑتے ہیں۔ آج سے دو سال پہلے تک ہیڈمیلسی سائفن سے پانی کی تقسیم کا اختیار چیف انجینئر بہاولپورکے پاس تھا جو اس علاقے کی نہروں میں ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی کو یقینی بناتے تھے۔

جاوید رسول سمجھتے ہیں کہ کپاس کے زیرکاشت رقبے میں اضافے کے لیے سرکاری مہم ناصرف ملکی بلکہ دیہی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ نقد آور فصل ہے جس سے کاشت کاروں سمیت دیہات کے بے زمین لوگوں خاص کر خواتین کو بھی بہتر روزگار مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں افراد کو روزگار دینے والی ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کی کپاس کے حصول میں خودکفیل ہو۔

لیکن انہیں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ان کے بقول نہری پانی میں کمی، زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے اور زرعی ادویات کی عدم دستیابی کے باعث اس برس بھی پیداوار میں غیرمعمولی کمی آ سکتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں پانچ سال بعد اتنے رقبے پر کپاس کاشت کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے 2018 میں 50 لاکھ 72 ہزار ایکڑ رقبے پر یہ فصل اگائی گئی تھی۔

پانی کی کمی، زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھنے اور زرعی ادویات کی عدم دستیابی کے مسئلے پر بہاولپور کے ڈائریکٹر زراعت کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ کپاس کی فصل کو نقصان سے بچانے کے لیے کاشت کاروں کی ہرممکن مدد کر رہا ہے۔

بہاولپور ڈویژن میں محکمہ پیسٹ وارننگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اقبال شاہد کہتے ہیں کہ زرعی ادویات کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پیسٹی سائیڈز کمپنیوں کے گوداموں اورڈیلروں کی دکانوں پرچھاپے مارے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ کاشتکاروں کونقصان دہ کیڑوں کی شناخت، ان کا خاتمہ کرنے اور آئی پی ایم پروگرام کے بارے میں بھی مکمل آگہی فراہم کی جا رہی ہے۔

دوسری طرف زرعی ادویات بنانے والی کمپنی کی نمائندہ تنظیم پاکستان کراپ پروٹیکشن ایسوسی ایشن (پی سی پی اے) کے ریجنل کوآرڈینیٹر ناصر شکیل کاہلوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ غیر معیاری زرعی ادویات کے حوالے کسانوں کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کپاس کی پیداوار کیوں گر رہی ہے؟

وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال محکمہ پیسٹ وارننگ ڈیپارٹمنٹ نے 12 ہزار نمونے لیے تھے جن میں سے 97 فیصد معیاری پائے گئے، ڈھائی فیصد کم معیار کے حامل نکلے اور صرف 0.5 فیصد میں ملاوٹ ثابت ہوئی۔

وہ محکمہ زراعت پنجاب کے اس دعوے کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ اس مرتبہ پنجاب میں 48 یا 50 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق رواں سال پنجاب بھر میں صرف 28 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس اگائی گئی ہے۔

ان کے بقول جب زیادہ پیداوار نہیں ملے گی تو پھر سارا ملبہ پیسٹی سائیڈز کمپنیوں اور ڈیلروں پر ڈال دیا جائے گا۔

تاہم پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری وحید ارشد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ رواں برس پنجاب میں تقریباً 48 لاکھ ایکڑ، سندھ میں 14 لاکھ، بلوچستان میں ڈھائی لاکھ اورخیبرپختونخوا میں 60 ہزار ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت ہوئی ہے۔ان کے مطابق زیر کاشت رقبے میں اضافے کی وجہ سے ہی حکومت نے 82 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف رکھا ہے۔

تاریخ اشاعت 3 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمدیاسین انصاری بہاول پور کے نوجوانوں صحافی ہیں۔ عرصہ 23 سال سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.