ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح: ساہیوال میں فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کے باوجود لوگ میلوں دور سے پانی لانے پر مجبور۔

postImg

الویرا راشد

postImg

ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح: ساہیوال میں فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کے باوجود لوگ میلوں دور سے پانی لانے پر مجبور۔

الویرا راشد

 وسطی پنجاب کے شہر ساہیوال سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال مغرب کی جانب سات دیہات پر مشتمل یونین کونسل 51 میں سرسبز کھیت کھلیانوں کے بیچ کچے پکّے گھروں میں 40 ہزار کے قریب لوگ آباد ہیں۔

ان سات دیہات – 178/9 ایل، 179/9 ایل، 180/9 ایل، 181/9 ایل، 182/9 ایل شرقی، 182/9 ایل غربی، 183/9 ایل اور 184/9  ایل – کے باسیوں کی بڑی تعداد پینے کے صاف پانی کے حصول کے لئے صبح شام قریبی ٹیوب ویلوں کا رخ کرتی ہے۔ کوئی سائیکل پر تو کوئی موٹر سائیکل پر اور کوئی گدھا گاڑی کے ذریعہ اپنے گھروں کو پانی ڈھونے میں جُتا نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ پا پیادہ پانی کے کین اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔

دس ہزار نفوس پر مشتمل گاؤں 184/9 ایل بھی انہی میں سے ایک ہے جہاں لوگوں کو ڈیڑھ کلومیٹر کی مسافت طے کر کے ایک نجی ٹیوب ویل سے پانی لانا پڑتا ہے۔

کاشت کاری سے وابستہ یونین کونسل 51 کے وائس چیئرمین محمد اشفاق رندھاوا کہتے ہیں کہ ساہیوال ڈویژن کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے 2017 میں اس یونین کونسل میں پانی کو صاف کر کے پینے کے لائق بنانے والے تین فلٹریشن پلانٹ لگائے تھے۔ اشفاق کے مطابق ان پلانٹس سے چالیس ہزار آبادی والی اس یونین کونسل کے صرف 25 فی صد یعنی 10 ہزار کے قریب لوگوں کی ضروریات پوری ہو رہی تھیں۔ لیکن یہ پلانٹ صرف دو سال یعنی 2020 تک ہی چل سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور دیکھ بھال کے لئے مالی وسائل میسر نہ ہونا پلانٹ بند ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔ اُس وقت ہر پلانٹ پر خرچ ہونے والی بجلی کا ماہانہ بل تقریباً 10 ہزار روپے تک آتا تھا۔

اس یونین کونسل میں متعلقہ گاؤں کی سطح پر ایک سات رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی جسے پلانٹ میں کسی خرابی کی صورت میں محکمے کو مطلع کرنے، فلٹریشن پلانٹ کے سامان کی حفاظت اور بجلی کے بل ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ کمیٹی بھی کچھ عرصہ بعد غیر فعال ہو گئی۔

اشفاق کا کہنا ہے کہ پلانٹ نصب ہونے کے بعد ہر گھر کو بجلی کے بل کی مد میں 150 روپے ماہانہ ادا کرنا ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ تو لوگوں نے پیسے دیئے لیکن بعد میں یہ سلسلہ رُک گیا۔ ان کے بقول ’’گاؤں کے لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ وہ پہلے ہی سیوریج کی مد میں ماہانہ 150 روپے اور پہرے داری کے لئے بھی اتنے بھی پیسے دیتے ہیں اور ان کے لئے پلانٹ کے بل کے لئے 150 روپے دینا مشکل تھا۔‘‘

ان کے نزدیک اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ سرکار اپنے اخراجات پر فلٹریشن پلانٹ چلائے۔

<p>صبح اور شام کے اوقات میں گاؤں کے لوگوں کا  پانی  لینے کے لیے رش لگا ہوتا ہے۔<br></p>

صبح اور شام کے اوقات میں گاؤں کے لوگوں کا  پانی  لینے کے لیے رش لگا ہوتا ہے۔

اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ زرعی پانی کے حصول کے لئے نجی طور پر لگائے گئے ٹیوب ویلوں سے بلامعاوضہ پانی بھر کر لاتے ہیں۔ ایک جانب ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ فلٹریشن پلانٹ کے لیے ماہانہ 150 روپے ادا نہیں کر سکتے جبکہ دوسری جانب یہی لوگ ٹیوب ویل سے پانی بھر کر لانے کے لیے اس سے کہیں زیادہ رقم موٹرسائیکلوں اور گدھا گاڑیوں کے کرایوں پر خرچ کر دیتے ہیں جبکہ اس پانی کے صاف ہونے کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سال میں اس گاؤں میں ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ یہاں پیٹ کی بیماریاں بھی عام ہیں۔ اس گاؤں کے قریبی دیہی مرکز صحت (جو کہ 185/9 ایل میں واقع ہے) میں تعینات ایک سرکاری اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ تین سال میں معدے کے امراض میں مبتلا 21 ہزار 235 اور ہیضے کے تین ہزار851  مریضوں نے اس مرکز کا رخ کیا۔ جبکہ امسال اکتوبر کے اوائل میں اس مرکز میں یرقان کے مریضوں کے علاج کی سہولت کا آغاز کیا گیا تو پہلے ہی ماہ میں یہاں 48 مریض آئے۔

گاؤں 184/9 ایل کے 45 سالہ رہائشی منظور بھٹی اور ان کے گھر کے افراد آلودہ پانی پینے کے باعث معدے کی بیماریوں میں مبتلا رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ طویل علاج معالجے کے بعد بالاآخر ڈاکٹر نہیں انہیں یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا پانی تبدیل کریں۔

آسمان سے گرا …

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں 15 سال قبل ایک سرکاری منصوبے کے تحت نکاسی آب کے لئے پختہ نالیاں تعمیر کی گئیں تو گندے پانی کو اڑھائی کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع برساتی نالے تک راستہ دینے کی بجائے اس کا رخ کھیتوں کی طرف کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ زیرِ زمین پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہ رہا۔

اشفاق رندھاوا کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے فلٹریشن پلانٹ کو دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے ''اس مقصد کے لیے بجلی کے بل کی مد میں ماہانہ 20 ہزار روپے کا بھی کوئی انتظام کرنا ہو گا کیونکہ گاؤں کے لوگ ماہانہ بل ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔''

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مسئلے کو اپنی مدد آپ کے تحت با آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پر اگر 10 ہزار افراد پر مشتمل اس گاؤں کے ہر گھرانے کے ارکان کی تعداد سات تصور کی جائے تو یہاں کم از کم 1400 گھرانے بنتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں فلٹریشن پلانٹ کو فعال کرنے کے لئے فی گھر صرف 357 روپے دینا پڑیں گے۔

<p>نو ایل نہر کے کنارے پر لگے نلکوں سے بچے پانی بھر رہے ہیں۔<br></p>

نو ایل نہر کے کنارے پر لگے نلکوں سے بچے پانی بھر رہے ہیں۔

178/9 ایل گاؤں میں بھی پانچ سال قبل فلٹریشن پلانٹ لگایا گیا تھا لیکن اس کی تنصیب کے لئے سیوریج لائن کے قریب ایک جگہ کا انتخاب کیا گیا جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی آلودہ ہو گیا۔ اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ رانا آصف کہتے ہیں کہ فلٹریشن پلانٹ کے پانی سے بدبو آتی تھی جس کی وجہ سے پانچ ہزار سے زیادہ آبادی کے لئے بنائے گئے پلانٹ کو تنصیب کے ہی چند دنوں بعد بند کرنا پڑا۔

رانا آصف فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کے لئے غلط جگہ کے انتخاب کے لئے متعلقہ محکمہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کیونکہ ''جگہ کے تعین کے لئے گاؤں کے لوگوں سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔''

دوسری طرف ساہیوال شہر میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں بطور کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر فرائض سر انجام دنے والے راؤ زوہیب حسن کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی علاقے کے لئے کوئی سکیم منظور ہوتی ہے تو سب سے پہلے وہاں کے مرد و خواتین کا مشترکہ اجلاس بلا کر انہیں سکیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ان کے بقول ''لوگوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے کہ اس منصوبے کی تمام تر نگرانی انہوں نے ہی کرنا ہے جس کے لئے ہم مقامی لوگوں کو سکیم چلانے کی پوری تربیت دیتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ماہانہ بل کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہو گا۔''

تاہم اس گاؤں میں فلٹریشن پلانٹ کے لئے جگہ کے انتخاب کے بارے میں مقامی لوگوں سے مشاورت نہ کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے اور ان کے پاس اس حوالےسے کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں پانی کی قلت: 'ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی'۔

چیچہ وطنی میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ڈویژنل آفیسر عابد فرید نے بتایا کہ ساہیوال میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے 171 فلڑیشن پلانٹس لگائے گئے ہیں جن میں 51  تحصیل ساہیوال اور 120 پلانٹ چیچہ وطنی میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ  ان کا محکمہ پلانٹ کی تنصیب کے بعد اسے مقامی لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ محکمہ چھ ماہ تک پلانٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے جس کے لئے اس کے پاس 50  ہزار سے ایک لاکھ روپے تک بجٹ ہوتا ہے ’’اس کے بعد پلانٹ کو سنبھالنے کی تمام تر ذمہ داری مقامی لوگوں کی ہوتی ہے۔‘‘

184/9 ایل کی رہنے والی 36 سالہ ناصرہ بی بی کے شوہر روزگار کے سلسلے میں عموماً گاؤں سے باہر ہوتے ہیں اس لیے انہیں خود پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر فلٹریشن پلانٹ کو دوبارہ چلا دیا جائے تو ان سمیت پورے گاؤں کو دور سے پانی بھر کر لانے کی مشکل سےچھٹکارا مل سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 25 نومبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الویرا راشد کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ پچھلے دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل اور زراعت ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.