مظفرآباد شہر میں پیٹ کے امراض وبائی صورت اختیار کرگئے ہیں جہاں ہر مہینے سینکڑوں بچے ہسپتالوں میں لائے جارہے ہیں۔ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ساٰئنسز(ایمز) میں علاج کی غرض سے لائے جانے والے بچوں کی نصف سے زیادہ تعداد اسہال، یرقان اور ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوتی ہے۔
کم و بیش یہی صورتحال شہر میں قاٰئم ایک اور بڑے ہسپتال شیخ خلیفہ بن زید النہیان میں بھی ہے۔ اس ہسپتال میں بیرونی مریضوں کے شعبے (او پی ڈی) میں ہر روز 43 فیصد بچے انہی بیماریوں کی شکایات کے ساتھ لائے جاتے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ان میں 35 فیصد اسہال، پانچ فیصد یرقان، چار فیصد پیچش اور تین فیصد ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوتے ہیں۔
'ایمز' میں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر وقار اشرف نے بتایا ہے کہ ان بیماریوں کے بڑھنے کی بنیادی وجہ شہر میں پینے کے پانی کی آلودگی ہے۔ ہر دوسرا بچہ انہی شکایات کے ساتھ ہسپتال لایا جاتا ہے۔ شیخ زید ہسپتال میں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر نعیم احمد بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
فروری 2022 میں سینیٹ میں جمع کرائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں محکمۂ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مظفر آباد میں ٹیسٹنگ کے غرض سے لیے گئے پانی کے 70 فیصد نمونے صحت کے لیے غیر محفوظ تھے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی جانب سے 2015 میں کی گئی تحقیق کے مطابق مظفرآباد شہر میں پانی کے دونوں ذرائع یعنی قدرتی چشموں اور محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کی طرف سے گھروں کو فراہمی کے نظام سے حاصل کیا جانے والا پانی 40 فیصد تک آلودہ تھا جبکہ 2021-2020 کے جائزے مطابق یہ آلودگی بڑھ کر 70 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
پی سی آر ڈبلیو آر کے عہدیدار اکرم عزیز کہتے ہیں کہ چشموں کے پانی کی آلودگی کی وجوہات میں لوگوں کا کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنا، چشموں کے ارد گرد سیپٹک ٹینکز کی موجودگی اور گندے پانی کی صفائی کا ناکافی بندوبست (ایک فیصد سے بھی کم) ہیں۔
تجزیے سے معلوم ہوا کہ مظفرآباد کے پانی کے ذرائع میں ٹوٹل کولیفارمز( فضلے کے جرثومے) 60 فیصد ہیں جبکہ 20 فیصد گَدلا پن ( ٹربیڈیٹی) ہے۔ پانی میں 41 فیصد جرثومے ،14 فیصد کل تحلیل شدہ ٹھوس مواد(ٹی ڈی ایس)، 14 فیصد آئرن، 10 فیصد کثافت، نو فیصد گندگی (ٹربیڈیٹی)، آٹھ فیصد کلورائیڈ، پانچ فیصد آرسینک، چار فیصد نائٹریٹ ، چار فیصد فلورائیڈ اور ایک فیصد ہائی پی ایچ پایا گیا۔
اکرم عزیز نے بتایا کہ مظفرآباد شہر کی 43 فیصد آبادی چشموں کے پانی پر انحصار کرتی ہے جبکہ 90 سے 95 فیصد چشمے آلودہ ہیں جن کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔
صائمہ فرید ایک گھریلو خاتون ہیں، وہ بھی پینے کا پانی گھر کے قریب واقع چشمے سے لے کر آتی ہیں۔ انہیں سرکاری حکام کی ایسی کسی ہدایت کا علم نہیں جس میں اس چشمے کے پانی کو آلودہ کہا گیا ہو۔
"ہم نے تو لوگوں سے یہی سنا ہے کہ اس پانی کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا گیا جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ پانی پینے کے قابل ہے۔ ہمیں ابھی تک اس پانی کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ حکومت کی طرف سے نلکوں میں آنے والے پانی سے بدبو آتی ہے، اس لئے ہم وہ استعمال نہیں کرتے۔"
اس حوالے سے اکرم عزیز کا کہنا ہے کہ پبلک ہیلتتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) کا محکمہ پانی کو صاف کرکے فراہم تو کرتا ہے مگر لوگوں تک صاف پانی پہنچتا ہے یا نہیں اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ ٹوٹے پھوٹے پائپوں میں رساؤ کے باعث آنے والے پانی میں سیوریج کا گندا پانی مل جاتا ہے جس کی وجہ سے 70 فیصد پانی آلودہ ہوتا ہے۔
پی ایچ ای کے افسر عمران مختار دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے فراہم کیا جانے والا پانی صاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بار بار تاکید کی جاتی ہے کہ وہ محکمے کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پانی ہی استعمال کریں اور چشموں کا پانی استعمال کرنے سے گریز کریں۔
"چشموں کے قریب سائن بورڈ بھی لگے ہوتے ہیں جن پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ ان چشموں کا پانی استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے۔"
نلکوں میں آنے والے پانی میں بدبو کے حوالے سے اعتراض کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صفائی کی خاطر پانی میں کلورین اور پھٹکڑی ڈالی جاتی ہے جس سے اس کا ذائقہ قدرے مختلف ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس پانی کے بجائے چشموں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
عمر مختار کا کہنا ہے کہ مظفرآباد شہر میں سکولوں، کالجوں، سرکاری دفاتر اور فوجی چھاؤنیوں میں پانی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ شہر میں 450 سے 500 کلومیٹر واٹر پائپ لائنیں بچھی ہیں اور کل 19 ہزار جائز کنکشن دیے گئے ہیں جن سے روزانہ پچانوے لاکھ گیلن پانی فرایم کیا جاتا ہے، جو ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
دریا کے کنارے پیاسا شہر: اول تو پانی ملتا نہیں اور ملتا ہے تو گندا ہوتا ہے
شہر میں پہلی واٹرسپلائی سکیم 1986 میں مکمل ہوئی تھی۔ لیکن 2005 کے تباہ کن زلزلے میں یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ ابتدا میں یونیسیف کے تعاون سے مرمت کرکے اسے بحال کیا گیا تھا۔ چند سال بعد مظفرآباد سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ (ایم سی ڈی پی) کے تحت تعمیر نو اور بحالی کے ادارے ایرا نے ساڑھے چار ارب روپے کی لاگت سے مظفرآباد شہر کے لیے ایک نئی واٹر سپلائی اسکیم تعمیر کروائی لیکن یہ سکیم مبینہ بدعنوانی کی نذر ہو گئی۔
عمران مختار کہتے ہیں کہ 2020 میں 54 کروڑ روپے کی لاگت سے واٹر سپلائی کی بہتری، بحالی اور مرمت کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد صورت حال بہتر ہوجائے گی۔
تاہم اکرم عزیز صورتحال میں بہتری کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ پی ایچ ای جو پانی فراہم کرتا ہے وہ خود اس کا ٹیسٹ کرنے کے بجائے کسی تیسرے فریق سے کرائے تو پانی کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 16 ستمبر 2023