میانوالی کے علاقے کندیاں کی بیس سالہ سمرین٭ نے مقامی گرلز ڈگری کالج سے اپنی گریجوایشن مکمل کی ہے۔ رواں سال جنوری میں ایک روز وہ کالج سے چھٹی پر گھر جانے کے لیے سڑک پر اپنی دوستوں کا انتظار کر رہی تھیں تو انہیں محسوس ہوا عقب سے کوئی انہیں چھونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں ایک اجنبی شخص موجود تھا۔ اسے دیکھ کر وہ خوف کی مارے ساکت ہو گئیں۔ اسی دوران ان کی دوست بھی وہاں پہنچ گئیں جنہیں دیکھ کر وہ شخص بھاگ گیا۔
سمرین کا کہنا ہے کہ جب کسی خاتون کے ساتھ اچانک ایسا واقعہ پیش آئے تو ابتدا میں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ عام طور پر ایسے واقعات میں خواتین وقتی طور پر اعتماد کھو دیتی ہیں اور شور بھی نہیں کر پاتیں۔
سمرین نے بتایا کہ انہوں نے اس واقعےکا گھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا کہ کہیں گھر والے انہیں کالج جانے سے ہی نہ روک دیں۔ تاہم انہوں نے کالج کی پرنسپل کو اس سے ضرور آگاہ کیا جس پر انتظامیہ نے کالج کے باہر چوکیدار کھڑا کر دیا گیا تاکہ طالبات کے ساتھ دوبارہ ایسا نہ ہو۔
یہ گورنمنٹ گرلز کالج کندیاں کی کسی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ چند ماہ قبل بھی ایف ایس سی کی طالبہ ثمینہ٭ کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
اٹھارہ سالہ ثمینہ کے گھر اور گرلز کالج کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے اس لیے زیادہ تر وہ پیدل ہی آتی جاتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز حسب معمول وہ چھٹی کے بعد گھر جا رہی تھیں۔ ابھی وہ کالج سے نکلی ہی تھیں کہ گلی میں چند لڑکوں نے ان پر آوازے کسنا شروع کردیئے۔اور کافی دور تک ان کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ ہانپتے کانپتے گھر پہنچیں اور والدہ کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد اگرچہ والدہ نے ان کے لیے رکشے کا انتظام کردیا ہے۔ تاہم یہ انہیں اچھا نہیں لگتا۔ ان کے والد دیہاڑی دار مزدور ہیں اور اضافی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن اب وہ بھی پیدل کالج نہیں جا سکتیں کیونکہ اس واقعےکا خوف ان کے دل میں بیٹھ گیا ہے۔
ضلع میاںوالی پنجاب میں صنفی تعلیمی فرق کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔یہاں مردوں میں شرح خواندگی 73 فیصد اور خواتین میں 41 فیصد ہے۔ہراسانی کے واقعات تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند طالبات کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں اور یہ اس علاقے میں سکولوں اور کالجوں کی طالبات کو درپیش اہم ترین مسئلہ ہے۔
کندیاں ڈیڑھ لاکھ آبادی کے ساتھ ضلعے کا دوسرا بڑا شہر ہے۔اور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج یہاں کا واحد سرکاری کالج ہے۔ یہاں اس وقت چار سو سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں۔
کندیاں میں گرلز کالج 2016 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کی عمارت شہر سے 9 کلو کے فاصلے پر کندیاں موڑ پر واقع تھی۔ تاہم یہاں کلاسز شروع ہو تے ہی شہریوں نے تنقید شروع کر دی اور کہا جانے لگا کہ ہمای بچیاں شہر سے اتنا دور تعلیم حاصل کرنے نہیں جا سکتیں۔
اس وقت یہاں سے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر سبطین خان نے دسمبر 2018ء کو بوائز ڈگری کالج کو اس نئی عمارت میں شفٹ کرا دیا اور گرلز کالج کو شہر کے محلہ اسلام آباد میں بوائز کالج کی جگہ منتقل کر دیا گیا۔
گرلز کالج شہر میں تو آگیا مگر گنجان آباد علاقہ ہونے کی وجہ سے 'کالج والوں' کی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔یہاں کالج کا کل رقبہ آٹھ کنال ہے اور پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ہے۔ تنگ گلیوں میں ایک گاڑی کھڑی ہو جائے تو پیدل گزرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔اور محلے کے مکین کالج آتی جاتی بچیوں پر غصہ اتارتے ہیں۔
مسز طوبیٰ احمد یہاں لیکچرار تھیں۔اب وہ میانوالی ڈگری کالج میں تدریسی فرائضی انجام دے رہی ہیں ۔وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال کالج کے سامنے اسی محلے کے ایک رہائشی نے ان کی کھڑی گاڑی سے اپنی گاڑی ٹکرا دی اور الٹا انہیں دھمکیاں دیں۔
طوبیٰ احمد نے پرنسپل کو واقعے سے آگاہ کیا اور تھانے میں رپورٹ درج کرانے کا ارادہ ظاہر کیا۔مگر اہل خانہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ میانوالی ٹرانسفر کرا لیں ورنہ خواہ مخواہ انہیں تھانے کچہری کے چکر لگانے پڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تو میانوالی شفٹ ہو گئی ہیں۔مگر بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ یہاں بچیاں پڑھیں ۔ وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ لوگ اساتذہ کو تنگ اور طالبات کو ہراساں کرتے ہیں تاکہ کالج بند ہو جائے۔
اس کالج کی پرنسپل شازیہ نے طالبات کو ہراساں کیے جانے پر کبھی ضلعی انتظامیہ سے مدد نہیں مانگی۔وہ کہتی ہیں کہ جب تک والدین بچیوں کا ساتھ نہیں دیں گے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔اکثر بچیاں ڈر سے گھر میں ایسے کسی واقعے کا تذکرہ تک نہیں کرتیں۔
پرنسپل ایسے واقعات کا اعتراف کرتی اور کہتی ہیں کہ انہوں نے گلی میں چوکیدار کھڑا کیا ہےاور سی سی سی ٹی وی کیمرہ بھی لگوا دیا ہے۔وہ اس سے زیادہ اور کر کیا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ طالبات کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔کالج کے راستے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے کئی بار ڈپٹی کمشنر کو مراسلہ لکھا ہے لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ ہائر سیکنڈری گرلز سکول جرنیلی روڈ پر ہے اور گرلز کالج سے متصل ہے۔سکول کا رقبہ بھی 52 کنال ہے۔اگر وہاں سے سڑک بن جائے تو مسائل کم ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
'والدین "بدنامی" کے خوف سے نکل آئیں تو خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کا موثر تدارک ممکن ہے'
چالیس سالہ محمد منیر زرگر کالج کی پچھلی گلی میں رہتے ہیں اور یہیں دس سال سے جیولری کا کاروبار کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کالج کی گاڑیوں نے اس علاقے میں مقامی لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ خریداری کے لیے آنے والوں کو رکشے سے اتر کر پیدل بازار تک آنا پڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی دکان پر گاہک کم ہورہے ہیں۔ اگر متبادل راستہ فراہم کیا جائے تو اہل محلہ اور کالج دونوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کندیاں کے سابق ناظم ملک حبیب نے بتایا کہ پہلے ان کی بچیوں کو پڑھنے کے لیےمیانوالی جانا پڑتا تھا۔ اب شہر میں سہولت ملی ہے تو کچھ لوگ شر پسندی کر رہے ہیں۔بچیوں کے والدین کو آگے آنا ہوگا۔
ماہر نفسیات نازیہ ناہید کہتی ہیں کہ ہراسانی منفی سماجی رویہ ہے۔ مرد جہاں کہیں بھی عورت کو نہتا اور بے بس دیکھتے ہیں انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔کم عمر طالبات اکثر ری ایکٹ نہیں پاتیں۔والدین کو لڑکیوں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے۔
ایڈوکیٹ مسزز نائلہ مشتاق دھون اس حوالے سے کہتی ہیں کہ عوامی مقامات،گلی کوچوں یا کہیں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف سزا کا قانون موجود ہے۔ لیکن اس حوالے سے شعور اور ارادے کی کمی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ509 کے تحت اگر کوئی شخص کسی خاتون کی اپنے الفاظ یا رویے سے بے تو قیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ 394 اے کے تحت نا مناسب گانا گانے والے کو بھی تین ماہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
٭ فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں
تاریخ اشاعت 19 ستمبر 2023