تھرپارکر میں گندے پانی کا ذخیرہ: 'پانی زندگی دیتا ہے لیکن اس نے ہماری بقا کو مشکل بنا دیا ہے'۔

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں گندے پانی کا ذخیرہ: 'پانی زندگی دیتا ہے لیکن اس نے ہماری بقا کو مشکل بنا دیا ہے'۔

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

گورانو کے کنوؤں کا پانی سیاہ ہو چکا ہے۔ سندھ کے مشرقی ضلعے تھرپارکر میں واقع اس گاؤں کے 42 سالہ رہائشی لچھمن ایک مقامی کنوئیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "پانی زندگی دیتا ہے لیکن یہاں اس نے ہماری بقا کو مشکل بنا دیا ہے"۔

دو ہزار افراد سے زیادہ آبادی پر مشتمل گورانو اسلام کوٹ نامی قصبے سے 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کئی سو ایکڑ پر محیط ایک مصنوعی آبی ذخیرہ بنایا گیا ہے جس میں کوئلے کی کان کنی کے دوران نکلنے والا پانی اکٹھا کیا جاتا ہے۔

اس پانی کی بدبو کئی سو میٹر کے فاصلے سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کے اندر ایسے بہت سے سوکھے ہوئے درخت بھی دور سے دیکھے جا سکتے ہیں جن کی ٹہنیاں خشک اور تنے سیاہ پڑ چکے ہیں۔ اگرچہ ذخیرے کے چاروں طرف خاردار تاروں اور جھاڑیوں سے بنی باڑ لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ قریب سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن بعض مقامات پر اس کا پانی باڑ کے اس قدر قریب ہے کہ اس کی سیاہ رنگت با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ پانی ایک پائپ لائن کے ذریعے ایک ایسے علاقے سے لایا جاتا ہے جسے سرکاری دستاویزات میں تھر کول فیلڈ بلاک II کا نام دیا گیا ہے۔ اس فیلڈ میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نامی کاروباری ادارہ (جو سندھ کی صوبائی حکومت اور اینگرو نامی نِجی کمپنی کے اشتراک سے وجود میں آیا ہے) مقامی کانوں سے کوئلہ نکال کر اس سے بجلی پیدا کر رہا ہے ۔

تھر کول فیلڈ بلاک II میں کوئلہ نکالنے کا کام 2016 میں شروع ہوا۔ اسی سال کے آغاز میں گورانو میں آبی ذخیرہ بنانے کا کام بھی شروع ہو گیا حالانکہ بلاک II کی کانیں اس سے 47 کلومیٹر شمال میں واقع ہیں۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے ترجمان محسن ببر کہتے ہیں کہ آبی ذخیرے کے لیے اس گاؤں کا انتخاب اس کی جغرافیائی خصوصیات کی وجہ سے کیا گیا جو، ان کے مطابق، پانی کو بڑے پیمانے پر جمع کرنے کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔

لیکن مقامی لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ذخیرے کی تعمیر کوئلے کی کانوں سے ملحقہ علاقے میں کیوں نہیں کی گئی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے کسی ایسی جگہ بنایا جانا چاہیے تھا جہاں کا زیرِ زمین پانی کھارا ہے اور انسانی استعمال کے قابل نہیں نہ کہ ان کے علاقے میں جہاں (2016 سے پہلے) زیرِ زمین پانی صاف اور میٹھا تھا۔

اسی بنا پر وہ کہتے ہیں کہ گورانو میں اس آبی ذخیرے کی تعمیر دراصل سندھ انوائیرنمنٹ ایکٹ 2014 کی شق 11 کی خلاف ورزی ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ "کوئلے کی کان کنی اور بجلی بنانے کے عمل کے دوران خارج ہونے والے پانی کے ذخیرے کسی ایسی جگہ کے قریب تعمیر نہیں کیے جا سکتے جہاں زیرِ زمین صاف پانی کے ذخیرے موجود ہوں"۔

اسی طرح مقامی لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ذخیرے کی تعمیر انہیں بتائے بغیر ہی شروع کر دی گئی تھی حالانکہ اس کے لیے استعمال کی جانے والی زمین سے سینکڑوں مقامی لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔

نتیجتاً اس کے ارد گرد واقع دیہات کے باسیوں نے اس کی تعمیر کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع کی جس کے تحت 3 مئی 2016 کو اسلام کوٹ پریس کلب کے سامنے درجنوں عورتوں، مردوں اور بچوں نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا جو چھ سو 36 دن جاری رہی۔

لچھمن بھی ان ہڑتالیوں میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ان کا مطالبہ تھا کہ آبی ذخیرے کی جگہ تبدیل کر کے اسے انسانی آبادیوں سے دور منتقل کیا جائے، اس کے لیے استعمال کی جانے والی زمین کے بدلے میں مقامی لوگوں کو زرِ تلافی دی جائے اور کوئلے کی کان کنی اور بِجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں ایسے مقامی نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کی جائیں جن کا روزگار ذخیرے کی تعمیر سے متاثر ہوا ہے۔

اسی دوران گورانو کے کچھ رہائشیوں نے ایک مقامی وکیل لیلا رام کی مدد سے 23 جون 2016 کو سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی جس میں کہا گیا کہ آبی ذخیرے کی تعمیر سے مقامی آبادی پر شدید منفی سماجی، ماحولیاتی اور اقتصادی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس لیے اس کی جگہ تبدیل کی جائے۔ لیکن لچھمن افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت نے اس پر کوئی فوری کارروائی نہ کی بلکہ پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی "اس مقدمے کی شنوائی ابھی تک جاری ہے"۔

آبی ذخیرے کے کچھ متاثرین نے 22 دسمبر 2016 کو کراچی پریس کلب کے سامنے بھی ایک احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جو اگلے 22 دن تک جاری رہا۔

لیکن ان کا احتجاج بے نتیجہ رہا۔ لچھمن کے مطابق نہ تو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے ان کے مطالبات سننے کے لیے ان سے کبھی  کوئی بات چیت کی اور نہ ہی سندھ حکومت اور مقامی منتخب نمائندوں نے ان کی شکایات دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔

اس کے بجائے اکتوبر 2021 کے تیسرے ہفتے میں صوبائی حکومت نے تھر کول فیلڈ بلاک III میں بھی کوئلے کی کان کنی کی منظوری دے دی جس کے بعد مقامی لوگوں کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ "عنقریب یہ ذخیرہ چار ہزار ایکڑ تک پھیل جائے گا"۔ (تاہم محسن ببر کا دعویٰ ہے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، گورانو کے آبی ذخیرے کا کل رقبہ 15 سو ایکڑ سے زیادہ نہیں جس میں سے ابھی صرف پانچ سو ایکڑ میں پانی جمع ہو رہا ہے۔)

پانی کی آلودگی کے شواہد

عطا اللہ رند تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ ارضیات ہیں۔ وہ تھر ٹیکنیکل فورم نامی ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم سے بھی منسلک ہیں۔ اس تنظیم نے حال ہی میں تھر کول فیلڈ بلاک II سے نکلنے والے پانی کی ایک تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ہے (جو ابھی شائع نہیں ہوئی-) ان کے مطابق اس رپورٹ سے یہ نتیجہ واضح طور پر نکالا جا سکتا ہے کہ "نہ صرف گورانو کے آبی ذخیرے میں موجود پانی بلکہ اس کے ارد گرد واقع 12 دیہات کا زیرِ زمین پانی بھی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اسے نہ تو پیا جا سکتا ہے اور نہ ہی زرعی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے"۔

ان کا کہنا ہے کہ آبی ذخیرے کے پانی کی جانچ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں حل شدہ کیمیائی ذرات کی مقدار سات ہزار سے آٹھ ہزار مِلی گرام فی لٹر ہے جبکہ عالمی ادارہِ صحت کے قائم کردہ معیار کے مطابق انسانی استعمال کے لیے موزوں ترین پانی میں ایسے ذرات کی مقدار تین سو ملی گرام فی لٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح ان کے مطابق سلیمان حجام، شِو جو تاڑ، گورانو، نیبو جی دھانی اور الھے جی دھانی جیسے دیہات کے کنوؤں میں پایا جانا والا پانی اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اسے پینے والے انسان اور مویشی بیمار ہو رہے ہیں۔

عطا اللہ رند کا یہ تجزیہ مقامی لوگوں کے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پائے جانے والے کنوؤں کا پانی کافی عرصے سے ایک سیاہ اور بد بودار سیال کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس کی وجہ سے آبی ذخیرے کے ارد گرد واقع دیہات میں رہنے والے لوگوں کو صاف پانی کی تلاش میں ہر روز تین سے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کاتنڑ نامی گاؤں جانا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق مقامی پانی کی خرابی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی طرف سے گورانو میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے لگایا گیا ریورس اوسموسس (آر او) پلانٹ بھی پینے کے لائق پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پلانٹ کا پانی استعمال کرنے والے لوگوں میں ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔

لچھمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ "آبی ذخیرہ بد بودار زہریلے مواد، مچھروں اور دیگر کیڑوں کی افزائش گاہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے مقامی دیہات میں ملیریا، ہیضہ اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔"

ان شکایات کی تصدیق ایک یورپی تحقیقاتی ادارے، سنٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر، کی مئی 2020 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق کوئلے کی کان کنی اور اس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تھرپارکر میں دمہ، ملیریا، ہیضہ، قبل از وقت پیدائش اور معذوری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے جا رہے ہیں'۔

لچھمن اور ان کے ساتھی دیہاتی کہتے ہیں کہ ان کا علاقہ ان سارے مسائل سے محفوظ رہ سکتا تھا اگر آبی ذخیرے کو کہیں اور بنایا جاتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی تعمیر درحقیقت حکومت کے اپنے ہی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے جن کی رو سے اسے انسانی آبادیوں سے کم از کم پانچ کلومیٹر دور بنایا جانا چاہیے تھا۔

ان کے خیال میں ذخیرے کی تعمیر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کو دیے گئے بجلی بنانے کے لائسنس کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ، ان کے مطابق، اس لائسنس کے اجرا کے وقت کمپنی کو واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ نہ صرف ایسے آلات لگائے گی جو بجلی گھر سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں پر قابو پا سکیں بلکہ وہ کان کنی اور بجلی کی تیاری کے دوران خارج ہونے والے "آلودہ پانی کو صاف کرنے کے لیے بھی واضح اور ماحول دوست حکمت عملی ترتیب دے گی۔"

گورانو کے آبی ذخیرے کی آلودگی ظاہر کرتی ہے کہ کمپنی ابھی تک ایسی کوئی حکمتِ عملی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔

تاہم محسن ببر اس حوالے سے پائی جانے والی عوامی شکایات کو درست نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آبی ذخیرے کے ارد گرد زیرِ زمین پانی کے آلودہ ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنی کمپنی کی طرف سے کرائے گئے ایک کیمیائی تجزیے کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس تجزیے میں ذخیرے کے آس پاس واقع کنوؤں کے پانی میں مضرِ صحت ذرات کی موجودگی ثابت نہیں ہو سکی۔

تاریخ اشاعت 27 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.