اجڑے دیہات، بنجر زمینیں، کھاری پانی: لاکھڑا میں کوئلے کی کانوں نے ماحول اور زندگیاں برباد کر دیں

postImg

راشد لغاری

postImg

اجڑے دیہات، بنجر زمینیں، کھاری پانی: لاکھڑا میں کوئلے کی کانوں نے ماحول اور زندگیاں برباد کر دیں

راشد لغاری

سندھ میں لاکھڑا کے مقام پر تقریباً 200 دیہات کی زرخیز زمین پچھلے 38 سال میں رفتہ رفتہ بنجر ہو چکی ہیں۔ کبھی یہاں ہری بھری چراگاہیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب اس جگہ گھاس بھی نہیں اگتی اور میٹھے پانی کے کنویں کھاری ہو گئے ہیں۔

لاکھڑا میں وسیع رقبے پر کوئلے کی کان کنی ہوتی ہے اور یہاں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر ملک میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔ 1985 میں پہلی مرتبہ اس علاقے میں کوئلے کی کان کنی کا ٹھیکہ دیا گیا تھا جس کے بعد لاکھڑا کا قدرتی ماحول خراب ہوتا چلا گیا جو آج بدترین حالت کو پہنچ چکا ہے۔

مقامی گاؤں تاج محمدکھوسو کے رہائشی اکرم، ملوک اور یتیم کھوسو بتاتے ہیں کہ کوئلے کی کان کنی نے اس علاقے میں رہنے والوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

"کان کنی شروع ہونے سے پہلے اور اس سے کچھ عرصہ بعد تک اس علاقے میں سرسبز کھیت لہلہاتے تھے۔  برساتی نالے کے پانی سے کاشت کاری کی جاتی تھی۔ کنوؤں سے پینے کا صاف پانی ملتا تھا۔ لیکن کوئلے نے رفتہ رفتہ سب کچھ ختم کر دیا۔"

ان کا کہنا ہے کہ کوئلے نکالنے والی کمپنیاں دریائے سندھ سے پانی کے ٹینکر بھر کر مقامی آبادی کو دے جاتی ہیں جو پینا تو درکنار نہانے دھونے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ آلودہ پانی سے دیہات کے لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ پیٹ کی بیماریاں اور الرجی عام ہے۔ کوئلے کی کانوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کے باعث سانس کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن سے انسانوں کے علاوہ مویشیوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمپنیاں کان کنی کے علاقے میں توسیع کر رہی ہیں جس کے باعث لوگوں سے ان کے گاؤں خالی کرائے جا رہے ہیں۔

"زمین کا سروے ریکارڈ ہمارے نام پر ہے مگر کمپنیوں کے مالکان، مینجر اور ٹھیکیدار زمین حکومت سے لیز پر لینے کا دعویٰ کر کے قبضے کر رہے ہیں۔ اب کارو جبل، کیر تھر جبل اور تھانا بولا خان کے مقام تک کوئلہ نکالا جانے لگا ہے۔ اس سے مانجھند، کھانوٹ، دیہ لیلاں اور بھگڑا کے 100 سے زیادہ گاؤں متاثر ہو رہے ہیں۔"

 یہاں کام کرنے والی حاجی جمیل کول کمپنی کے مزدور رہنما نعیم خان کا کہنا ہے کہ کوئلے کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے کان کنی کے علاقوں میں بھی توسیع ہو رہی ہے۔
محکمہ توانائی کے ذیلی ادارے انسپیکٹوریٹ آف کول مائنز ڈویلپمنٹ کی جانب سے لاکھڑا کے لیے مقرر کردہ چیف انسپکٹر  قمر الدین سومرو کے مطابق اس علاقے میں 50 ہزار سے زیادہ رقبے پر 60 سے زیادہ کمپنیاں کوئلہ نکالنے کا کام کر رہی ہیں۔

کان کنی کرنے والی کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ جس علاقے میں کام کرتی ہیں وہاں لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار میسر آتا ہے۔

تاہم ملوک کے مطابق کان کنی کرنے والے بیشتر مزدور غیر مقامی ہیں اور مقامی لوگوں کو چھوٹا موٹا روزگار ہی دیا جاتا ہے۔

لاکھڑا کول مائنز لیبر یونین کے نائب صدر شرف الدین تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں مزدوری کرنے والوں میں مقامی لوگوں کا تناسب بہت کم ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ 80 فیصد مزدور خیبرپختونخوا سے آتے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کو کانوں کی دیکھ بھال یا چوکیداری اور گاڑیوں میں کوئلہ لوڈ کرنے کا کام ہی ملتا ہے۔

 کوئلے کی ان کانوں کے مزدوروں کو کام کے دوران ضروری تحفظ فراہم نہ کیے جانے کا مسئلہ بھی نمایاں ہے۔ مزدور شکایت کرتے ہیں کہ انہیں کام کے دوران حفاظتی کٹس نہیں دی جاتیں جس سے حادثات کی صورت میں جان جانے یا زخمی ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سندھ تحفظ ماحولیات ایجنسی حیدر آباد ریجن کے ڈائریکٹر عمران عباسی کہتے ہیں کہ کوئلے کی کمپنی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو مکمل سیفٹی کٹ، آکسیجن ماسک، ہیلمٹ، بوٹ اور دستانے فراہم کرے۔ ایسا نہ کرنے پر کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھرپارکر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار: 'ہماری زمینیں زبردستی لی جا رہی ہیں اور ہمارا رہن سہن بدلا جا رہا ہے'۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ حد سے زیادہ کھدائی کرنے اور مزدوروں کو سیفٹی کٹ نہیں دینے پر لاکھڑا کول مائنز میں کوئلے کی 13 کمپنیوں کو نوٹس دیے گئے۔

مقامی شہری گل شیر کھوسو کو شکایت ہے کہ جب کسی کان سے کوئلہ نکال لیا جاتا ہے تو اس کا منہ بند نہیں کیا جاتاجس کے نتیجے میں مال مویشی اس میں گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی مقامی فرد کان میں گر کر ہلاک ہو جائےتو اس پر کمپنی معاوضہ نہیں دیتی۔
"ایسے مواقع پر مزدور یونین بھی ہماری مدد نہیں کرتی کیونکہ اس میں اکثر عہدیدار دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانوں میں حادثے سے ہونے اولی موت پر سوات اور خیبر پختونخوا سے آنے والے مزدوروں کو 13 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں مگر مقامی لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔"

نعیم خان نے بتایا کہ ہر سال کانوں میں 40 سے زیادہ مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کی میتیں ان کے آبائی گاؤں یا شہر بھیج دی جاتی ہیں۔ بعض مزدور حادثات میں معذور ہوتے ہیں جن کا علاج ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ  یہاں محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے یہاں ہسپتال تعمیر کیا گیا ہے۔

تاریخ اشاعت 12 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

راشد لغاری حيدرآباد سنده سے تعلق رکھتے ہیں. بطور رپورٹر صحافی. ماحولیات, انسانی حقوق اور سماج کے پسے طبقے کے مسائل کے لیے رپورٹنگ کرتے رہیں ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.