ولسن وزیر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کی واحد اقلیتی نشست پر جولائی 2019ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ان اضلاع کی اقلیتی برادری کے مسائل جاننے کے لیے انہوں نے باجوڑ سے وزیرستان تک متعدد دورے کیے اور مسائل حل کرنے کی کوششیں کیں لیکن مسیحی کمیونٹی مسلسل بنیادی سہولیات سے محرومی کی شکایت کرتی ہے۔
ان اضلاع میں غیرمسلم اقلیتوں کی آبادی نہایت کم ہے جس کے باعث ان کے کئی مسائل بہت خاص اور یکتا ہیں۔ جن میں سے ایک مرنے والوں کی تدفین کا ہے جو ہر کمیونٹی کے لیے انتہائی حساس معاملہ ہوتا ہے۔
لوک سجاگ نے ان اضلاع میں مقیم مسیحی برادری کے سماجی رہنماوں سے رابطے کر کے اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
جمرود: قبضہ کون چھڑوائے
ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے ملک سیمسن مائیکل اپنے گھر کے قریب مسیحی قبرستان میں ملبے کے ایک ڈھیر کے قریب کھڑے دعا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈھیر کے مزید قریب جاکر ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہاں میرے والدین دفن ہیں"۔
مائیکل کے بقول انگریز سرکار نے 1909ء میں سولہ ایکڑ زمین مسیحی قبرستان کے طور پر مختص کی تھی لیکن یہاں ڈیڑھ سو کے قریب ہی قبریں ہیں کیونکہ باقی زمین پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر کے عمارات تعمیر کر لی ہیں۔رہی سہی کسر بائی پاس کی تعمیر نے پوری کردی اور اب قبرستان کے لیے کل دو کنال زمین بچی ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ زمین کی ملکیت واگزار کرانے کے لئے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے عدالت میں کیس دائر کیا جا چکا ہے۔
باجوڑ: صرف دو کنال زمین چاہیے
باجوڑ پختونخوا کی قبائلی پٹی کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ یہاں کی مسیحی برادری کے رہنما جمیل بسمل کافی عرصے سے کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے علاقے کے چالیس خاندانوں کے لئے قبرستان کی زمین کا بندوبست کر سکیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ آج کل انہیں تدفین کے لیے میت کو سو کلومیٹر دور ملاکنڈ یا 170 کلومیٹر دور نوشہرہ لے جانا پڑتا ہے۔"چند ہفتے پہلے رشتہ داروں کے ہاں ایک بچی فوت ہوئی تو ہم نے تیمرگرہ تک جانے کے لیے صرف دو گاڑیوں کو 35 ہزار روپے کرایہ ادا کرنا پڑا جبکہ نوشہرہ تک خرچہ اس سے دگنا ہوتا ہے اور پھر وہاں پر ایک دو دن کے قیام پر الگ خرچ آتا ہے"۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم نے صرف دو کنال زمین کا مطالبہ کیا تھا لیکن سیاسی جماعتوں اور ضلعی انتظامیہ کے وعدوں کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
میرانشاہ: قبرستان کینٹ میں شفٹ کرنا پڑا
شمالی وزیرستان میں میرانشاہ بازار کی پاکستان مارکیٹ کے قریب 'گورا قبرستان' مسیحیوں کے لئے مخصوص تھا لیکن علاقے میں بدامنی کی وجہ سے 1999ء کے بعد یہاں تدفین کا سلسہ بند ہو گیا تو حکومت نے کنٹونمنٹ کے اندر چار کنال زمین قبرستان کے طور پر مختص کر دی۔
خالد مسیح کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ وہاں کے دو سو سے زائد خاندانوں کے نمائندہ کے طور پر اُن کے مسائل کے حل کے لئے کام کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پرانا قبرستان کافی وسیع تھا لیکن مقامی لوگوں نے 2017ء میں اُس پر قبضہ کر کے مارکیٹیں تعمیر کر لیں اور اب وہاں مسیحیوں اور ہندووں کی جو اسی (80) کے قریب قبریں پہلے سے موجود ہیں ان کے علاوہ ایک انچ زمین بھی نہیں بچی۔
اُنہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلعی حکام کو اس حوالے سے کئی درخواستیں دی گئی ہیں کہ ہمارے پیاروں کی قبروں کا تقدس پامال ہو رہا ہے اور انہیں نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ ہمیں قبرستان کی قبضہ شدہ زمین کے بدلے دوسرے کسی مقام پر جگہ دی جائے۔
لنڈی کوتل: قبرستان چھوٹا پڑ رہا ہے
ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل کا مسیحی قبرستان کمیونٹی کے لیے چھوٹا پڑ رہا ہے۔ سماجی کارکن ملک ارشد مسیح کہتے ہیں کہ وہ پرانے قبرستان کے لئے مزید زمین کے حصول کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آنے والے چند سالوں میں قبرستان کا باقی رقبہ بھی پُر ہو جائے گا جبکہ متصل اراضی سیکورٹی فورسز کی ملکیت ہیں۔ ہم کئی بار اعلی حکام سے مزید زمین دینے کی درخواست کر چکے ہیں۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ضم اضلاع میں مسیحی برادری کی آبادی ایک لاکھ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مردم شماری میں صحیح تعداد سامنے نہ آنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع کی کل آبادی 50 لاکھ تھی جن میں سے صرف تین ہزار ایک سو افراد کا تعلق مسیحیت سے دکھایا گیا تھا۔
مہمند: جگہ مل گئی ہے لیکن چاردیواری نہیں
ضلع مہمند میں ستر مسیحی خاندان رہائش پذیر ہے اور علاقے میں مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں میت کو دو سو کلو میٹر دور پشاور کے گورا قبرستان یا وزیر باغ میں تدفین کے لئے لے جانا پڑتا ہے۔ یہاں سے میت کو پشاور لے جانے پر ایک لاکھ روپے تک تو صرف گاڑیوں کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اس عمل کی دیگر تکالیف علیحدہ ہیں۔
مسیحی برادری کے مقامی رہنما ملک شہریار مسیحی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ دو سال پہلے ضلعی حکام نے غلنئی ہیڈکواٹر کے قریب پہاڑ کے دامن میں آٹھ کنال زمین مسیحی برادری کے قبرستان کے لئے مختص کی تھی اور اُن کی باقاعدہ دستاویزات بھی فراہم کی گئیں تھیں لیکن چاردیواری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی میتوں کو وہاں دفنانا نہیں چاہتے۔
اُن کے بقول چاردیواری کے لیے ضلعی حکام سے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود تاحال کو ئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
وانا: نہ چار دیواری، نہ کوئی اور سہولت
وانا میں مسیحی تقسیم ہند سے پہلے کے آباد ہیں اور مختلف سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ضلع لوئر جنوبی وزیرستان کا صدر مقام ہے جہاں ڈیڑھ سو سے زیادہ مسیحی خاندان رہتے ہیں۔
آکاش مسیح مقامی سیاسی رہنما ہیں- وہ بتاتے ہیں کہ یہاں مسیحی قبرستان بائی پاس روڈ اور ائیرپورٹ کی دیوار کے درمیان واقع ہے جہاں چار سو سے زیادہ قبریں موجودہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب دیوار تعمیر کی گئی تو بھاری مشینری نے قبروں کو نقصان پہنچایا اور اُن کی بے حرمتی ہوئی۔ "شکایت کرنے کے بعد ملبہ تو ہٹا دیا گیا لیکن جب تک قبرستان کے اردگرد چاردیواری تعمیر نہیں ہوتی تب تک اس کی حفاظت ممکن نہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
خیبر پختونخوا میں بڑھتا ہوا مذہبی تعصب: 'اصل خطرہ اُن سے ہے جو قتل کے فتوے دیتے ہیں'
انہیں نے بتایا کہ قبرستان کی نشاندہی کے لیے کوئی سرکاری بورڈ بھی نہیں لگا ہوا۔
آکاش کہتے ہیں کہ قبرستان میں کوئی سہولت میسر نہیں۔ "یہاں پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ شدید گرمی اور سردی میں میت کے تدفین یا قبروں کی مرمت کے کام کے دوران نہ پانی ہوتا ہے نہ سایہ"۔
محکمہ اوقاف و مذہبی اُمور کی ڈپٹی سیکرٹری رضوانہ ڈار خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ مئی 2018ء میں انضمام کے بعد قبائلی علاقوں کی اقلیتی برادری کے اُمور کی ذمہ داری صوبائی محکمہ اوقاف اور مذہبی اُمور کے حوالے ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اب تک اُن کے پاس ان اضلاع سے ایسی ایک بھی درخواست موصول نہیں ہوئی جس میں قبرستان یا شمشان گھاٹ کے مسئلے کا ذکر ہو جبکہ دیگر منصوبوں جیسے سکالرشپ، ہنر، کاروبار کے لئے قرضے وغیرہ کے حصول کے لیے ان اضلاع کے نوجوان رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اگر ضم اضلاع کی اقلیتی برداری اپنا کوئی بھی مسئلہ لے کر ان کے دفتر آتی ہے تو وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گی۔
تاریخ اشاعت 13 جون 2023