شہناز کارنیل طلاق نہیں لے سکتیں کیونکہ ان کا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح اکثر انہیں کام نہیں ملتا کیونکہ وہ جن لوگوں کے پاس کام لینے جاتی ہیں ان میں سے بیشتر کی خواہش ہوتی ہے کہ شہناز عیسائیت ترک کر کے مسلمان ہو جائیں۔
جب وہ اٹھارہ سال کی تھیں تو ان کی شادی ہو گئی۔ اس وقت ان کے شوہر کی عمر پینتیس سال تھی۔ وہ ہر وقت ان کے کردار پر شبہ کرتا اور انہیں اپنے بھتیجوں سے بات کرنے جیسی معمولی باتوں پر مارا پیٹا کرتا تھا۔ ان کا شوہر اکثر اس طرح کی باتوں پر ان پر تشدد کرتا کہ وہ عمر میں اس سے چھوٹی ہیں یا اسے ہر وقت اس کی پسند کا کھانا پیش کیوں نہیں کیا کرتیں۔
وہ بتاتی ہیں: 'ایک مرتبہ ایسٹر کے موقع پر میں گھر پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ جب وہ گھر واپس نہ آیا تو میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ چرچ چلی گئی۔ وہ رات کے وقت واپس آیا تو اس نے مجھے اس بات پر مارا پیٹا کہ میں اس کے بغیر چرچ کیوں گئی تھی'۔ اس کے بعد شہناز کے شوہر نے ان کو گھر سے نکال دیا۔
وہ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن کے قریب بہار کالونی نامی مسیحی آبادی میں دو کمروں کے ایک پرانے اور خستہ گھر میں رہتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک وہ ایک گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھیں مگر اب بے روزگار ہیں اور کئی ماہ سے وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی مدد سے ہی گزارا کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'مجھے صرف مسیحی گھرانوں میں ہی کام مل سکتا ہے کیونکہ مسلمان خاندان اپنے باورچی خانے میں مسیحیوں کو ملازم نہیں رکھتے۔ لیکن آج کل کورونا وائرس کی وبا کے باعث مسیحی خاندان بھی لوگوں کو ملازم رکھنے سے گریز کر رہے ہیں'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک مسلمان گھرانے میں ملازمت کے دوران انہیں کہا گیا کہ اگر وہ بہتر زندگی چاہتی ہیں تو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو جائیں۔ 'اس گھرانے کے سربراہ نے مجھے کہا کہ اسلام قبول کر کے اس کے ماموں سے شادی کر لوں'۔ لیکن شہناز کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل نہیں کریں گی خواہ انہیں 'ہمیشہ غربت میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے'۔
تشدد کے اسباب اور اثرات
جب وہ اپنی شادی کے بعد کئی سال تک حاملہ نہ ہوئیں تو ان پر ہونے والے جسمانی تشدد نے مزید کریہہ صورت اختیار کر لی۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ 'میرے شوہر کے ہاتھ میں چھڑی، کپڑے دھونے کے تھاپے اور بیلن سمیت جو بھی چیز آتی اس سے مجھے مارنا شروع کر دیتا تھا اور یہ نہیں دیکھتا تھا کہ مجھے کہاں ضرب لگ رہی ہے۔ ایک مرتبہ اس نے میرا بازو پکڑ کر مروڑا اور اسے توڑ ڈالا'۔
اگرچہ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ایک معمولی سا آپریشن ہو جانے سے وہ حاملہ ہو سکتی ہیں، لیکن وہ اپنی ذات پر پیسے خرچ نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ انہیں گھر چلانا ہوتا تھا۔ 'میری ساری آمدنی گھر کا کرایہ ادا کرنے اور کھانے کا سامان اور دوائیں خریدنے پر خرچ ہو جاتی تھی'۔
ان کا شوہر اکثر انہیں اکیلا چھوڑ کر کئی کئی ماہ تک گھر سے غائب ہو جاتا تھا۔ وہ بتاتی ہیں 'وہ اپنی مرضی سے واپس آتا، کئی ماہ گھر میں رہتا اور پھر دوبارہ غائب ہو جاتا تھا۔ بہت پہلے اس نے مجھے پیسے دینا بھی بند کر دیے تھے۔'
جولائی 2020 میں جب کورونا وائرس کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ان کی نوکری ختم ہوئی تو ان پر تشدد کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا اور ان کے شوہر نے ایک مرتبہ پھر گھر چھوڑ دیا۔ تب سے اب تک شہناز کو اس کی کوئی خبر نہیں اور وہ نہیں جانتیں کہ وہ کب واپس آئے گا۔
وہ کہتی ہیں 'جب وہ آتا ہے تو مجھ پر بوجھ اور تشدد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ میں اس رشتے کو ختم کرنا چاہتی ہوں'۔
لیکن سالہا سال تک تشدد جھیلنے کے باوجود شہناز اس شادی کو ختم نہیں کر سکتیں جس نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں رائج مسیحی عائلی قوانین کے تحت انہیں طلاق کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت میں طلاق کے لیے درخواست دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ایسا شوہر نہیں چاہیے جو ان کا خیال نہیں رکھ سکتا اور اپنی مرضی سے ہی گھر آتا ہے۔ لیکن اس درخواست پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان میں مسیحی خواتین کے لیے طلاق کا حصول تقریباً نا ممکن ہونے کے معاملے پر سجاگ سے بات کرتے ہوئے چرچ آف پاکستان کے بشپ ڈاکٹر الیگزنڈر جان ملک کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں نافذ قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے۔
وہ کہتے ہیں: 'اکثر اوقات شادی کے بعد خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کو علم ہوتا ہے کہ ان کے شوہر نشہ کرتے اور شراب پیتے ہیں یا ان کے بیٹیوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے قوانین کے تحت ان خواتین کو کوئی ایسی سہولت میسر نہیں ہے کہ وہ ایسی نا خوشگوار شادی سے چھٹکارا پا سکیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 23 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 5 فروری 2022