وفاقی حکومت ایک ایسے قانون کی منظوری دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کے باعث مسیحی طلاق ایکٹ میں ترامیم ہو جائیں گی اور پاکستانی مسیحیوں کے لیے طلاق کا حصول آسان ہو جائے گا۔
اس قانون کا مسودہ اگست 2019 میں وفاقی وزارتِ انسانی حقوق نے تیار کیا تھا۔ جب یہ مسودہ تیار ہو گیا تو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بیان دیا کہ اسے جلد ہی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ مگر لگ بھگ دو سال گزر جانے کے باوجود ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ مسودہ ابھی تک وفاقی سیکرٹریٹ کی کسی الماری میں پڑا ہوا ہے۔
حکومت اور مسیحی برادری میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ چرچ کے رہنما اس قانون کی سختی سے مخلف کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسے مذہبی احکامات کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
چرچ کے ایک نمائندے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسیحی مذہبی رہنما شادی شدہ جوڑوں کو طلاق کا حق دینے کے حامی نہیں ہیں کیونکہ وہ شادی کو ایک مذہبی رسم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کے مطابق شادی خدا کی جانب سے بنایا گیا ایک بندھن ہے جسے انسان خود ختم نہیں کر سکتے۔ ان کے خیال میں اس کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں اُن مذہبی شرائط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں جن کے تحت انہیں یکجا کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والی مسیحی رکن قومی اسمبلی شنیلا روتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ اس مجوزہ قانون کی مخالفت ہو رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جماعت اس وقت تک اس کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر سکتی جب تک اسے مسیحی مذہبی قیادت کی متفقہ منظوری نہ مل جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ "ہم مسیحی برادری کے اندرونی خاندانی معاملات میں مداخلت کا الزام اپنے سر نہیں لے سکتے یہی وجہ ہے کہ اس قانون کی منظوری تاخیر کا شکار ہے"۔
تاہم وفاقی وزارتِ انسانی حقوق کے حکام کے مطابق اس مسودہِ قانون کی مخالفت کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے چرچ کے رہنماؤں اور مسیحیوں کی غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے ساتھ نو عدد مشاورتی اجلاس کیے جن کا مقصد اس مسودے کی تیاری ہی تھا۔ وزارتِ قانون کے ایک اعلیٰ سطحی افسر کا کہنا ہے کہ ان اجلاسوں میں اس پر سنگین اعتراضات کیے گئے لیکن شیریں مزاری نے اسے پارلیمنٹ میں لے جانے کا اعلان تب ہی کیا جب یہ اعتراضات دور ہو گئے تھے۔
مسیحی طلاق کے قانون میں ضیا کا کردار
موجودہ مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ 7 کا نفاذ 1869 میں برطانوی دور میں عمل میں آیا تھا۔ اس کی رو سے ہندوستان میں عدالتوں کو مسیحی جوڑوں کے درمیان طلاق کے معاملات میں انگلینڈ کے سِول قانون کے مطابق فیصلہ دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے 34 سال بعد بھی یہ دفعہ اس قانون کا حصہ رہی تاہم اس کے بعد وزارتِ قانون کے افسروں نے نشاندہی کی کہ اس دفعہ کی وجہ سے یہ قانونی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے کہ ایک خود مختار ملک کی عدالتیں کسی اور ملک کے قانون کی پیروی کر رہی ہوتی ہیں۔ اسی لیے 1981 میں جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت دفعہ 7 کو ختم کر دیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے استاد اور انسانی حقوق کے کارکن صابر مائیکل کہتے ہیں کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کی وجہ قانونی نہیں بلکہ سیاسی تھی۔ ان کے مطابق "جس طرح ضیا الحق پاکستانی معاشرے میں مسلمانوں پر مذہبی رنگ چڑھا رہے تھے اسی طرح وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے مسیحی بھی کٹر مذہبی راہ اختیار کریں۔ اسی لیے انہوں نے یہ دفعہ ختم کر کے مذہبی رہنماؤں کو مسیحی خاندانی معاملات میں ایک اہم کردار دلا دیا"۔ صابر مائیکل یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاست کے حمایت یافتہ پادریوں نے اس کام میں حکومت کو اعانت مہیا کی۔
حقیقت یہ ہے کہ دفعہ 7 کو ختم کرتے وقت مسیحی برادری سے کوئی وسیع تر مشاورت نہیں کی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کسی مسیحی رہنما نے اس دفعہ کو ختم کرنےکی مخالفت نہ کی۔ مسیحیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کاشف اسلم اس معاملے میں مسیحیوں کی خاموشی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "پاکستان میں رہنے والے مسیحیوں کی بڑی اکثریت کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ان سے کون سی چیز واپس لی جا رہی ہے"۔
اس دفعہ کا خاتمہ پہلی مرتبہ 1988 میں اس وقت ایک عوامی مسئلے کے طور پر سامنے آیا جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔ کاشف اسلم کے مطابق "ان کے دور میں پاکستان میں خواتین کے حقوق پر گفتگو کا آغاز ہوا کیونکہ ان کی حکومت نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن پر دستخط کیے تھے۔
اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام بننے والے اس کنونشن کی دنیا کے بہت سے دیگر ممالک نے بھی تائید کی تھی اور اس کے تحت پاکستان اپنے ہاں خواتین کے حالات زندگی میں بہتری لانے کا پابند تھا۔ کاشف اسلم کا کہنا ہے کہ "ان دنوں مسیحی برادری کے بعض سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے ضیا حکومت کی جانب سے اپنی برادری کے خلاف ہونے والی نا انصافی پر آواز اٹھانا شروع کی"۔
نتیجتاً بے نظیر بھٹو کی وزارتِ قانون نے ایک ایسا قانونی مسودہ تیار کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے مسیحی خواتین کو کڑی مذہبی شرائط پوری کیے بغیر طلاق کے حصول میں مدد مل سکے۔ تاہم مسیحی مذہبی رہنماؤں کی مخالفت کے باعث یہ کوشش ناکام رہی۔
تقریباً تین دہائیوں کے بعد دفعہ 7 ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بنی جب 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ اس کا خاتمہ غیر آئینی ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ امین مسیح نامی شخص کی درخواست پر دیا جس نےعدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اور اس کی اہلیہ ایک دوسرے سے علیحدگی چاہتے ہیں مگر اس کے لیے وہ ایک دوسرے پر بدچلنی کا الزام عائد کرنا نہیں چاہتے جو کہ مذہبی احکامات کی رو سے مسیحی جوڑوں میں علیحدگی کی ایک بنیادی وجہ ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو بعض مسیحی مذہبی رہنماؤں نے لاہور ہائی کورٹ کے بڑے بینچ میں چیلنج کیا ہوا ہے جس پر حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ کاشف اسلم کے مطابق "اس فیصلے کی کڑی مخالفت کی گئی۔ اس کے مخالفین کا استدلال ہے کہ سیکشن 7 کی بحالی سے مسیحی برادری میں طلاقیں عام ہو جائیں گی"۔
اس تنازعے کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ ضیا الحق کے صدارتی حکم نامے کو منسوخ کر دے کیونکہ بہرحال یہ ایک آمر حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت یہ راستہ اختیار کرنے سے گریزاں ہے۔
اس کے لیے وہ اسی وجہ کا سہارا لے رہی ہے جسے بنیاد بناتے ہوئے ضیاالحق نے دفعہ 7 کو ختم کیا تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس دفعہ کی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے مسیحی خاندانوں پر انگلینڈ کے شہری قوانین کا اطلاق ہو گا۔ان کے بقول "پاکستانی ریاست اپنے ہاں کوئی غیر ملکی قانون کیسے رائج کر سکتی ہے؟"
مسیحی برادری میں اتفاقِ رائے کیوں ممکن نہیں؟
موجودہ شکل میں طلاق کا مسیحی قانون کسی جوڑے کو صرف اسی صورت میں علیحدگی کی اجازت دیتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک ثابت کر دے کہ دوسرا بد چلنی (یعنی ناجائز جنسی تعلقات) کا مرتکب ہوا ہے۔
لیکن پاکستان میں بیشتر مسیحی خواتین ان پڑھ اور غریب ہیں۔ ان کے لیے عدالت میں یہ ثابت کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے کہ ان کے مرد بد چلنی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوپر بد چلنی کا الزام بھی نہیں لینا چاہتیں کیونکہ اس طرح ان کی سماجی اور خاندانی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
لہٰذا کوئی متبادل طریقہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مسیحی خواتین اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ اگر مسیحی میاں بیوی میں سے کوئی ایک اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر لے تو اس کی شادی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔
شنیلا روتھ کا کہنا ہے کہ مسیحی برادری میں طلاق کے لیے بد چلنی کی شرط سبھی کو ناپسند ہے کیونکہ "اس سے مسیحی عورت کو سنگین مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں"۔ ان کے مطابق پاکستانی مسیحیوں میں یہ آگاہی بھی پھیل رہی ہے کہ اس شرط کو تبدیل ہونا چاہیے اور نا موزوں شادیوں کو ختم کرنے کے لیے کسی اور بنیاد پر کوئی اور طریقہ وضع کیا جانا چاہیے۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کیسے ہو کیونکہ اس سلسلے میں کی جانے والی بہت سے کوششیں پہلے ہی ناکام ہو چکی ہیں۔
ان میں سے ایک کوشش خود شنیلا روتھ نے کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ 2013 اور 2018 کے درمیان پنجاب اسمبلی کی رکن کے طور پر انہو ں نے اس معاملے پر ایک قانون کا مسودہ تیار کیا تھا مگر اس وقت کی حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔
کاشف اسلم کے مطابق اسی دوران کیتھولک چرچ آف پاکستان نے بھی مسیحی طلاق ایکٹ میں ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی۔ چونکہ پاکستان میں مسیحیوں کی اکثریت کیتھولک چرچ سے وابستہ ہے اس لئے اس نے 2016 میں اس حوالے سے ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا۔
چرچ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیم نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے زیرِ اہتمام منعقد کئے گئے اس اجتماع میں 12 مسیحی فرقوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ لاہور میں ہونے والا یہ اجتماع دو ماہ تک جاری رہا جس کے دوران تفصیلی بات چیت کے بعد اس کے شرکا بالآخر طلاق کے لیے کوئی راستہ نکالنے پر متفق ہو گئے۔
بعد ازاں اس اجتماع کے شرکا نے انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مسودہ قانون تیار کیا جس کا مقصد مسیحی عائلی قوانین میں متعدد ترامیم کرنا تھا جن میں ایک یہ بھی تھی کہ مسیحی جوڑوں کے لیے طلاق کا عمل آسان بنایا جائے۔ یہ مسودہ قانون سینیٹر کامران مائیکل کو بھیجا گیا جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔ تاہم مسیحی برادری کے اندرونی اختلافات کے باعث وہ اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کر سکے۔
رجعت پسند مسیحی مذہبی رہنما اس قانون کی اس لیے مخالفت کر رہے تھے کہ اس سے طلاق کا اختیار انسان کے ہاتھ میں آ جاتا اور یوں مسیحی شادی ایک مقدس بندھن کے بجائے دو افراد کے درمیان شراکت بن جاتی۔ لیکن سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی اس سے خوش نہیں تھیں کیونکہ اس میں مسیحی عورت کو طلاق لینے کا حق اس طرح نہیں دیا گیا تھا جس طرح یورپ اور شمالی امریکہ کی مسیحی عورتوں کو حاصل ہے۔
کاشف اسلم بتاتے ہیں کہ طلاق کی مخالفت صرف کیتھولک چرچ تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان میں ہر مسیحی فرقے میں یہی صورتحال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''درحقیقت یہ فرقے ہی طلاق کے حوالے سے نئے قانون کی منظوری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ چونکہ ان کی تعداد 238 کے قریب ہے اس لئے طلاق کے قانون میں ترامیم کے حوالے سے ان کے لئے اتفاق رائے پر پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے"۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "پاکستانی مسیحیوں میں کبھی کسی بات پر اتفاق ہوا ہی نہیں"۔
یہ عدم اتفاق ہی اگست 2019 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اور مسیحی برادری کے رہنماؤں کے مابین بات چیت ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ بنا۔ اس بات چیت میں حکومت کی جانب سے شیریں مزاری اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے حصہ لیا تھا جبکہ مسیحی برادری کے نمائندوں میں تمام بڑے فرقوں کے نمائندوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں کے ارکان بھی شامل تھے۔
وفاقی وزارت انسانی حقوق کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس بات چیت کے مثبت نتائج کو صرف ایک مذہبی گروہ کے محض ایک نمائندے نے سبوتاژ کر دیا۔ نتیجتاً مسیحی طلاق ایکٹ میں اصلاحات کا عمل غیرِ معینہ مدت کے لیے تاخیر کا شکار ہو گیا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 6 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 24 مارچ 2022