'بیٹا بستر مرگ پر تھا اور ہم دیسی ٹوٹکے کرتے رہے'، خضدار میں ہیضے کی وبا بے قابو کیوں ہوئی؟

postImg

فضل تواب

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'بیٹا بستر مرگ پر تھا اور ہم دیسی ٹوٹکے کرتے رہے'، خضدار میں ہیضے کی وبا بے قابو کیوں ہوئی؟

فضل تواب

loop

انگریزی میں پڑھیں

بارہ سالہ شکور کی طبیعت اچانک خراب ہوئی تو والدین نے اسے گھر میں موجود دیسی دوا (پھکی) کھلا دی مگر افاقہ نہ ہوا۔ رات کو اسے پیٹ درد کے ساتھ قے بھی شروع ہو گئی۔ بیٹے کی بیماری کو دیکھ کر ان کے والد محمد خیر پریشان ہو گئے اور اسے ساتھ لے کر 25 کلومیٹر دور طبی مرکز آڑنجی کو چل پڑے۔

 محمد خیر بتاتے ہیں کہ راستے میں پورالی ندی میں شدید طغیانی تھی جسے دیکھ کر مجبوراً انہیں واپس لوٹنا پڑا۔ شکور رات بھر درد سے بے چین رہا اور صبح دم توڑ گیا۔

یہ یکم جولائی کا واقعہ ہے۔ محمد خیر کے بقول بیٹے کی وفات کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ اسے ہیضہ تھا اور پورے گاؤں میں یہ وبا پھوٹ پڑی تھی۔

سینتیس سالہ محمد خیر ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے گاؤں ہمنار میں رہتے ہیں۔ یہ علاقہ وڈھ شہر سے 60 کلومیٹر اورخضدار سے تقریباً 80 کلومیٹر دور ہے۔

ہیضہ پھوٹنے کے بعد محکمہ صحت نے خضدار میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ ڈی جی ہیلتھ نور محمد قاضی کا کہنا ہے کہ کسی اور علاقے سے بھی ہیضے کی شکایت آ سکتی ہے اس لیے پورے ضلع کے ہسپتالوں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

محکمہ صحت نے 7جولائی کو خضدار اور 8 جولائی کو کوئٹہ اور لسبیلہ سے میڈیکل ٹیمیں متاثرہ علاقے بھجوا دی تھیں۔

اس حوالے سے بنیادی مرکز صحت آڑنجی میں ایک بیس کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں طبی عملہ ادویات لے کر پہنچ گیا ہے۔

سماجی کارکن گل احمد بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پرجب ہیضے کی وبا کا شور اٹھا تو تبھی انتظامیہ جاگی۔اس ایک ہفتے کے دوران آڑنجی، ہمنار اور دیگر علاقوں میں اس وبا سے دو بچوں سمیت تین افراد ہلاک اور درجنوں متاثر ہو چکے تھے۔

آڑنجی اور ارد گرد کےتین گاؤں وبا سے زیارہ متاثر ہوئے ہیں جہاں سیکڑوں لوگ آباد ہیں۔

متاثرہ دیہات خضدارشہر سے 60 تا 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے جہاں انٹرنیٹ، بجلی یا مواصلاتی نظام تودور صاف پانی، تعلیم اور سڑک جیسی بنیادی سہولیات کا بھی کوئی تصور نہیں۔

یہاں سفر کے لیے بڑی گاڑیاں استعمال ہوسکتی ہیں۔ بعض مقامات پر یہ گاڑیاں بھی نہیں جا پاتیں اور مقامی لوگ پیدل یا گدھے اور اونٹوں پر مسافت طے کرتے ہیں۔

آڑنجی میں ایک بنیادی مرکزصحت موجود تو ہے مگر یہاں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں۔

محمد خیر کا کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں ہمنار میں کوئی طبی سہولت ہے ہی نہیں۔ بیٹا بستر مرگ پر تھا اور ہم دیسی ٹوٹکے استعمال کرتے رہے۔ آڑنجی ہسپتال پہنچنے کے لیے میلوں پیدل یا گدھے پر جانا پڑتا ہے۔ زچگی کا معاملہ ہو تب بھی یہی حال ہوتا ہے۔

گل احمد یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ علاقے میں صاف پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث یہاں کے لوگ تالابوں اورجوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔اس لیے یہاں بیماریاں بھی عام ہیں اور ہیضے کی وبا کا سبب بھی یہی ہے۔

خضدار کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر بشیر احمد بنگلزئی تصدیق کرتے ہیں کہ ابتدائی تحقیقات میں ہیضہ پھوٹنے کی وجہ ناقص پانی کا استعمال ہی نظر آتی ہے۔

انہوں ںے بتایا کہ پیٹ درد، دست اور قے (الٹیاں ) ہیضے ہی کی علامات ہیں۔ تاہم اب اس وبا صورتحال پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے اور مشتبہ مریضوں کے خون اور علاقے سے پانی کے نمونے لیبارٹری کو بجھوا دیے ہیں۔

بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر نور محمد قاضی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خضدار کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے اس لیے متاثرہ علاقے میں ڈیوٹی سے انکار پر ایڈہاک ڈاکٹر لعل بخش کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ مزید تین ڈاکٹروں کے خلاف بھی کاروائی کی جا رہی ہے۔ چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر غلام سرور، سنئیر میڈیکل افسر ڈاکٹر احمد علی اور ڈاکٹر عبدالوہاب کو بھی ایمرجنسی ڈیوٹی پر آڑنجی جانے کے تحریری احکامات دیئے گئے تھے مگر انہوں نے تعمیل نہیں کی۔

ڈائریکٹر جنرل کے مطابق وبا پر قابو پانے کے لیے کام کرنےو الی ٹیموں میں سپیشلسٹ ڈاکٹر، پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ اور پیرامیڈکل سٹاف سمیت دیگر عملہ شامل ہے۔ وبا کے بارے میں تازہ ترین حالات سے باخبر رہنے اور ٹیموں سے رابطے کے لیے کوئٹہ میں کنٹرول روم بھی قائم کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'

ڈی ایچ او بتاتے ہیں کہ دور دراز متاثرہ علاقوں تک رسائی کے لیے طبی ٹیموں کو دو تین روز تک کڑی مشکلات کا سامنا رہا۔ بارشوں سے پہاڑی ندی 'پورالی' میں طغیانی تھی ۔پانی کم ہوا تو تب ہی  طبی عملے اور ادویات کو موٹرسائیکلوں، گدھوں اور اونٹوں پر متاثرہ علاقوں تک پہنچایا گیا۔

ڈی ایچ او خضدار بھی آڑنجی پہنچے اور مرکز صحت کے علاوہ ایک مسجد میں بھی طبی کیمپ قائم کردیا گیا ہے۔
ڈی ایچ او بشیر احمد نےتصدیق کی ہے کہ تین گاؤں کلی کباد چوٹ، کلی دوشی آبادار اور کلی ہمنار میں 60 سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔ انہوں نے ہلاکتوں کی بھی تردید نہیں کی۔

گل محمد کہتے ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں صرف ایمرجنسی اقدامات کی حد تک کام کیا گیا ہے۔ وبا کے بعد صوبائی دارالحکومت سے تین سو کلومیٹر دور واقع علاقوں کو کون پوچھے گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے یہاں صاف پانی اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں تاکہ لوگوں کی مشکلات کم ہو سکیں۔

تاریخ اشاعت 20 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فضل تواب فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ وہ گزشتہ دس سالوں سے بلوچستان سے سماجی، سیاسی، معاشی اور سیکورٹی پر رپورٹ کررہے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.