وڈیو ثبوت کے باوجود خیرپور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا کیسے بری ہو گیا؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

وڈیو ثبوت کے باوجود خیرپور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا کیسے بری ہو گیا؟

اشفاق لغاری


•    خیرپور کا ریٹائرڈ استاد سارنگ شر بچوں کے ساتھ نہ صرف جنسی زیادتی کرتا رہا بلکہ اس قبیح عمل کی وڈیوز بناتا رہا جو فیس بک اور واٹس ایپ پر شیئر کی جاتی رہیں۔

•    دوسرے لوگوں نے بچوں کو پہچان کر ان کے والدین کو سارنگ کے اس جرم سے آگاہ کیا۔

•    پھر کیا ہوا؟ مقدمے کی ٹائم لائن - جس میں بلآخر سارنگ بری ہو گیا۔

•    گواہی کے وقت والدین اپنے بیانات سے کیوں مکر گئے؟

•    وڈیو ثبوت کیوں کام نہ آئے؟ پولیس نے کیا کردار ادا کیا؟

کیا سندھ حکومت کو سارنگ شر کی بریت کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنی چاہیے؟


 

یہ جولائی 2020ء کی بات ہے جب کرونا وبا عروج پر تھی۔ بازار سنسان تھے اور سکول کالج بند۔

زاہد حسین ٹھری میرواہ سے کراچی تک جانے والی ایک وین سروس میں ڈرائیور کا کام کرتے ہیں۔ ٹھری میر واہ سندھ کے ضلع خیرپور کا ایک شہر ہے۔ زاہد کے سات بچے ہیں۔ گو معیشت کا پہیہ بہت سست روی سے چل رہا تھا لیکن گزربسر کے لیے وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔

ان کا ہمسایہ سارنگ شر اسی سال فروری میں ہائی اسکول ٹیچر کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا جس کے بعد اس نے اپنی اوطاق (بیٹھک) میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔

زاہد نے اپنے 11 سالہ لڑکے کو سارنگ شر کے پاس ٹیوشن پڑھنے بٹھا دیا تھا تاکہ اس کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔

زاہد ایک روز اپنی وین کراچی لے کر جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھا مسافر ان کا واقف کار تھا۔ زاہد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ فون پر اپنا فیس بک اکاؤنٹ دیکھ رہا تھا جب اچانک اس نے پریشان ہو کر زاہد کو ایک وڈیو دکھائی جو کسی اور نے شیئر کی تھی اور اس کی فیڈ میں آ گئی تھی۔ وڈیو میں ایک شخص ایک نو عمر لڑکے  کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا تھا۔

وہ لڑکا زاہد کا بیٹا تھا اور زیادتی کرنے والا اس کا استاد سارنگ شر تھا-

یہ سمجھنا تو کچھ مشکل نہیں کہ زاہد پر کیا بیتی ہوگی۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آئی کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔

زاہد نے بتایا کہ جب وڈیو زیادہ پھیل گئی تو اس وقت کے ایس ایس پی خیرپور، امیر سعود مگسی ان کے گھر آئے اور "میرے متاثر بیٹے سے ملے اور ہمیں انصاف دلوانے کی یقین دہانی کروائی"۔

ابھی یہ وڈیو زیادہ عام نہیں ہوئی تھی کہ اسی طرح کی ایک اور وڈیو سامنے آ گئی۔ اس وڈیو میں بھی سارنگ شر ہی ایک بچے سے جنسی زیادتی کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس بار اس کا شکار ٹھری میرواہ کے ٹرانسپورٹر سکندر جاںوری کا دس سالہ بیٹا تھا۔

سکندر نے جب یہ وڈیو دیکھی تو اس وقت وہ کراچی میں تھے۔ ایک روز بعد جب وہ اپنے شہر واپس پہنچے تو شاہ محلہ کے رہائشی ریڈیو، ٹی وی میکنیک رفیق احمد سومرو کے 13 سالہ بیٹے کے ساتھ جنسی زیادتی کی وڈیو بھی فیس بک اور واٹس ایپ پر چل رہی تھی۔

والدین طیش میں تھے اور یہ سب ان کے لیے قابل برادشت نہیں تھا۔

پھر کیا ہوا؟

1.    15 جولائی 2020ء کو زاہد حسین نے سارنگ شر کے خلاف اپنے لڑکے کے ساتھ زیادتی کی ایف آئی آر درج کروائی۔ دوسری ایف آئی آر دوسرے بچے کے والد سکندر علی جانوری نے 16 جولائی 2020ء کو کروائی اور تیسری ایف آئی آر تیسرے بچے کے والد رفیق احمد سومرو نے 29 جولائی 2020ء کو درج کروائی۔

2.    پولیس نے سارنگ شر کے خلاف غیر فطری جنسی فعل کرنے، دھمکانے، بدنام کرنے کی دفعات کے ساتھ ساتھ نقصان پہنچانے کی غرض سے سوشل میڈیا  پر جنسی عمل کی وڈیو وغیرہ کی تشہیر کرنے سے متعلق پیکا ایکٹ کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کیا اور ملزم کو 17 جولائی 2020ء کو رانی پور سے گرفتار کر لیا۔

3.    عوامی ردِعمل کو دیکھتے ہوئے پولیس نے ملزم پر دہشتگردی کے دفعات بھی لگا دیں جس کی وجہ سے اسے خیرپور میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت پیش کیا جاتا رہا جہاں اس کی ضمانت کی درخواست رد کر دی گئی۔

4.    ملزم کے وکیل نے دہشتگردی کی شق شامل کرنے پر اعتراض کیا جو عدالت نے رد کر دیا۔ ملزم نے اسے ہائی کورٹ سکھر میں چیلنج کر دیا جس کے حکم پر دسمبر 2022ء میں مقدمے سے دہشتگردی کی شقیں خارج کر دی گئیں اور مقدمہ ٹرائل کے لیے سیشن کورٹ خیرپور میں آ گیا۔

5.    مقدمہ ایڈیشنل اینڈ سیشن جج-4 کی عدالت میں چلا جہاں تمام گواہیاں ہوئیں لیکن بچوں کے والدین اپنے پہلے بیانات سے مکر گئے۔

6.    متاثرہ بچوں نے عدالت میں یہ اقرار تو کیا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی لیکن عدالت میں موجود ملزم کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔

7.    میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی شواہد نہیں ملے اور ڈی این اے میچ نہیں ہوا۔

8.    پیش کردہ شواہد میں موجود یو ایس بی میں محفوظ وڈیوز عدالت میں دیکھی ہی نہیں گئیں، نہ ہی وڈیوز کی فارینزک کروائی گئی۔

9.    ایڈیشنل اینڈ سیشن جج-4 کی عدالت نے 27 اپریل 2023ء  کو ملزم سارنگ شر کو شواہد نے ملنے پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے تین مقدمات میں بری کر کے سینٹرل جیل خیرپور سے رہا کردیا۔

10.    سارنگ کی بریت کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت کے ترجمان و مشیر برائے قانون مرتضی وہاب نے حال ہی میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں مئی 2023ء میں چیلنج کرے گی۔

والدین اور بچے اپنے بیانات سے کیوں مکر گئے؟

بچوں کے والدین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جیسے ہی ملزم کو گرفتار کیا گیا، اس کے ورثا، بچوں اور برادری نے ان سے معافیاں مانگنی شروع کر دیں۔ "وہ ہمیں  جب اور جہاں ملتے، بات ہوتی تو گڑگڑا کر معافی مانگتے"۔

سکندر جانوری نے بتایا کے میرے گھر میں ملزم کے خاندان کی پانچ بیٹیاں، پانچ قرآن پاک ہاتھوں میں لے کر معافی طلب کرنے آئیں۔

"میرے بچوں نے رو رو کر کہا، ابو انہیں معاف کر دو، اور میں نے معاف کر دیا۔

معاف کرنے کا اعلان اور اعتراف میں نے دہشتگردی کی عدالت میں بھی کیا اور ٹرائل کورٹ میں بھی کیا جہاں ہماری گواہی ہوئی۔ ہم نے تحریری صورت میں بھی عدالت میں صلح نامے کا اقرار کیا"۔

لیکن اب انہیں اپنے کیے پر تاسف ہے۔

"مگر جب وہ رہا ہو کر آیا تو اس نے ہمارا دل دکھایا، وہ گلے میں ہار پہن کر گھوم رہا ہے، بچوں  میں پیسے تقسیم کر رہا ہے، ہار پہننے اور پیسے تقسیم کرنے کی وڈیوز بنوا کر سوشل میڈیا پر وائرل کروا رہا ہے"۔

سکندر نے کہا کہ جب وہ پھنسا ہوا تھا تو اس کا اور اس کے عزیز و اقارب کا رویہ کچھ اور تھا جب رہا ہوکر آیا ہے تو ان کی حرکتیں دکھ دایتی ہیں۔

رفیق سومرو نے کہا کہ معافی تلافی کے وقت جو باتیں ہوئی تھیں ان میں یہ شامل تھا کہ سارنگ رہائی کے بعد ان کی گلی سے نہیں گزرے گا۔

"اس بات پر بھی عمل نہیں ہوا تو باقی باتوں پر کیا ہوگا؟"

انہوں نے بتایا کہ وہ تو قانونی معاملات سے اتنے واقف نہیں، مقدمے میں سب کچھ پولیس نے کیا۔

ان کے مطابق پولیس نے ملزم کے موبائل فون کا ٹیکنیکل تجزیہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور نمبر کو شاملِ تفتیش کیا۔

"پولیس نے جو کہا ہم وہ کرتے رہے اور وہ سب کچھ ملزم کے ہی حق میں گیا۔اب جب عدالت نے ملزم کو رہا کر دیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں۔ خدا کی عدالت بڑی ہے"۔

وڈیوز بطور ثبوت کیوں کام نہ آئیں؟

نامور قانون دان اور انسانی حقوق کے سرگرم رکن جبران ناصر کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس کو پولیس اور پراسیکیوشن نے درست انداز میں نہیں چلایا۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس کیس میں جو دہشتگردی کی دفعات ڈالی گئی تھیں وہ بنتی ہی نہیں تھیں اور جو سائبر کرائم ایکٹ کا سیکشن 21 ڈالا گیا تھا، اس کی تفتیش ہی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'اگر کوئی بچہ جیل سے نکل کر کہتا ہے کہ اس پر جنسی تشدد نہیں کیا گیا تو وہ یقیناً جھوٹ بول رہا ہے'۔

"اس دفعہ کے تحت تفتیش ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو کرنا چاہیے تھی، وہ نہیں ہوئی۔ ملزم سے جو موبائل فون برآمد/ضبط کیا گیا اس کا فارینزک تجزیہ نہیں کروایا گیا۔ ایک موقع پر وڈیوز کے شواہد پیش کیے گئے لیکن ان کی بھی فارینزک نہیں کروائی گئی تھی اور بغیر فارینزک فوٹوز اور وڈیوز کی قانوناً کوئی حیثیت نہیں ہوتی"۔ (فارینزک تجزیے سے ماہرین یہ پتا لگاتے ہیں کہ آیا تصاویر، وڈیوز اصل ہیں یا کسی کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے انہیں بنایا یا تبدیل کیا گیا ہے۔)

جبران نے کہا: "بچوں کے ساتھ زیادتی کس دن ہوئی، اس کا اندازہ نہیں۔ کچھ دن گزر جانے کے بعد جسمانی معائنہ، کپڑوں اور ڈی این اے سیمپل سے کوئی شواہد ملنا ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ اس زیادتی کے بعد بچے کتنی بار نہائے ہوں گے، ان کے کپڑے دھوئے گئے ہوں گے، انہوں نے کتنی بار رفع حاجت کی ہوگی۔"

ان کے مطابق یہ بات طے ہے کہ وہ ثبوت ڈھونڈے گئے جن کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ ضائع ہو چکے ہوں گے اور جن ثبوتوں کو مٹایا نہیں جا سکتا تھا، ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

جبران کے مطابق اگر اب بھی سندھ حکومت فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرتی ہے تو سب سے بڑی گواہی یو ایس بی میں موجود وڈیوز ہی ہوں گی اور ان کی فارینزک ہونا لازمی ہے۔

تاریخ اشاعت 4 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.