فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے مدثر نذر اور ان کے بیٹے محمد طیب کی زندگی گزشتہ چند ہفتوں میں یکسر تبدیل ہو گئی ہے اور ان کا سماجی میل جول نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
مدثر نے اہلخانہ اور قریبی دوستوں کے علاوہ دیگر افراد کے فون سننا بند کر دیئے ہیں جبکہ طیب نے گھر سے نکلنا یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا ختم کر دیا ہے۔
مدثر کے قریبی دوست کے مطابق "بچے کے باپ کا کہنا ہے کہ اس کا دل کر رہا ہے کہ وہ اپنا کاروبار سمیٹے، گھر فروخت کرے اور کسی دوسرے شہر شفٹ ہو جائے کیونکہ شہر کے لوگ اسے جینے نہیں دے رہے ہیں۔"
باپ، بیٹے کی زندگی میں یہ تبدیلی گزشتہ ماہ ہونے والے اس واقعہ کے بعد آئی ہے جب مدثر نے اپنے 12 سالہ بیٹے سے جنسی زیادتی کی کوشش کرنے کے الزام میں مقامی مذہبی شخصیت قاری ابوبکر معاویہ کے خلاف تھانہ سٹی تاندلیانوالہ میں مقدمہ درج کروایا تھا۔
پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق 22 مارچ کو محلہ جناح کالونی کے رہائشی مدثر نذر کا 12 سالہ بیٹا محمد طیب مغرب کی نماز پڑھنے محلہ اسلام پورہ کی مسجد قدس میں گیا تھا۔
اس دوران، ایف آئی آر کے مطابق ملزم ابوبکر معاویہ اسے اپنے ساتھ مسجد سے ملحقہ مکان میں لے گیا اور اسلحے کے زور پر اس سے زیادتی کی کوشش کر رہا تھا کہ بچے کا والد اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گیا۔ مدثر کو دیکھ کر ملزم اسلحہ لہراتے ہوئے موقع سے فرار ہو گیا۔
اگرچہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا لیکن چند روز بعد ہی مدعی اور متاثرہ بچے کی جانب سے عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہونے کے بعد ملزم کو پولیس نے رہا کر دیا تھا۔
اس مقدمے میں جوڈیشل مجسٹریٹ نعمان طاہر چوہدری کی طرف سے 30 مارچ کو جاری کیے گئے کورٹ آرڈر میں تحریر ہے کہ "مدعی مقدمہ اور متاثرہ بچے کی طرف سے ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات سے منحرف ہونے کے بعد ملزم کو اس مقدمہ سے ڈسچارج کیا جاتا ہے۔"
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کے مطابق پولیس حراست سے رہائی کے چند دن بعد ابوبکر معاویہ نے تاندلیانوالہ کی اسی مسجد میں جمعہ کی نماز کا خطبہ دیتے ہوئے اپنے خلاف درج مقدمے کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں احمدی/ قادیانی اور اہل تشیع کمیونٹی کے افراد ملوث ہیں۔
تاندلیانوالہ کے مقامی صحافی محمد ابرار نے بتایا ہے کہ اس ایف آئی آر کے اندراج کے فوری بعد مدعی مقدمہ پر ملزم کو معاف کرنے اور صلح کے لیے دباؤ ڈالنے کا آغاز ہو گیا تھا۔
"پہلے مسجد کی انتظامی کمیٹی نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی، پھر انجمن تاجران تاندلیانوالہ کے صدر اور دیگر عہدیدار متحرک ہو گئے اور اگلے ہی روز علامہ ابتسام الہی ظہیر تاندلیانوالہ پہنچ گئے۔"
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ بچے کے والد ابتدا میں ملزم کو معاف کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے لیکن جب انہیں ہر طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے عدالت میں اپنا بیان واپس لے لیا۔
بیان واپس لینے کا اعلان علامہ ابتسام الہیٰ کی "کچہری" میں کیا گیا تھا جس میں اہل محلہ، چند دیگر علما، اور مدثر بھی موجود تھے۔
2019ء میں سپریم کورٹ اس طرز کی پنچایتوں اور جرگوں کو خلاف قانون اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (UDHR)، شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW) کے تحت پاکستان کے کیے گئے بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔
اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملک میں جرگوں یا پنچایتوں کے کام کرنے کا طریقہ آئین کے آرٹیکل 4، 8، 10-A، 25 اور 175 (3) کی خلاف ورزی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور عام شہریوں کی جانب سے ابتسام الہی ظہیر اور پولیس اور حکومت پر تنقید کا سلسلہ بڑھا تو پولیس نے تین اپریل کو ایس ایس پی انویسٹیگیشن کیپٹن (ر) محمد اجمل، ایس پی صدر شمس الحق درانی، اور ڈی ایس پی لیگل شہزاد علیانہ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی۔
کمیٹی کے سربراہ ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ بچے کے والد اور متاثرہ بچے کے بیان کے بعد مجسٹریٹ کی عدالت سے ملزم کو ڈسچارج کرنے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا ابتسام کی "کچہری" کی وڈیو میں نظر آنے والے افراد کے بیانات لے لیے گئے ہیں۔ پولیس ہائیکورٹ کی ہدایت کی روشنی میں اگلا اقدام طے کرے گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملزم ابوبکر معاویہ کے خلاف سات اپریل کو لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں ایک دس سالہ بچے سے زیادتی کے الزام میں بھی مقدمہ درج ہوا تھا اور ملزم اس وقت شاہدرہ پولیس کی تحویل میں ہے۔
"عدالت تھانہ سٹی تاندلیانوالہ میں درج ایف آئی آر کو بحال کر دیتی ہے تو پولیس ملزم کو اس کیس میں دوبارہ حراست میں لے کر ازسرنو تفتیش کا عمل شروع کر سکتی ہے۔"
تاہم فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار کی رکن ماریہ رستم ایڈووکیٹ کا ماننا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کے سبب اب اس کیس میں ملزم کو سزا ہونے کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادتی کی کوشش یا جنسی ہراسانی کا الزام میڈیکل یا فرانزک رپورٹ کے ذریعے ثابت کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
" ایسے واقعات میں عینی شاہد یا متاثرہ فریق کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے لیکن اس کیس میں مدعی اور متاثرہ بچے کو مبینہ دباؤ کے ذریعے بیان بدلنے پر مجبور کر کے ملزم کو سزا ہونے کا یہ راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ مدعی نے اپنے بیان سے منحرف ہو کر اپنی قانونی پوزیشن مزید کمزور کر لی ہے۔
"جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے والے کے خلاف پولیس خود تعزیرات پاکستان کی دفعہ 182 کی کارروائی کر سکتی ہے۔ ملزم کی طرف سے بچے کے والد کے خلاف پی پی سی 499 اور 500 کے تحت جھوٹا مقدمہ کرنے یا ہتک عزت کا کیس بھی دائر ہو سکتا ہے۔"
بچوں کے تحفظ سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم "ساحل" کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2023ء میں بچوں سے جنسی بدسلوکی کے دو ہزار 21 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ایک ہزار 64 لڑکے اور 957 لڑکیاں شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جنسی بدسلوکی کے سب سے زیادہ 491 واقعات فیصل آباد میں پیش آئے جبکہ قصور میں 179، راولپنڈی میں 133، سیالکوٹ میں 99، گوجرانوالہ میں 93، لاہور میں 91، اسلام آباد میں 67، سرگودھا میں 53، شیخوپورہ میں 51 اور وہاڑی میں 45 بچوں کو جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
ساحل کے لیگل ایڈوائزر امتیاز احمد سومرہ ایڈووکیٹ نے بتایا ہے کہ بچوں سے جنسی بدسلوکی یا زیادتی کے زیادہ تر واقعات سماجی دباو کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔
"اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں متاثرہ بچوں کی عمر پانچ سے 15 سال کے درمیان ہوتی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو ڈر اور خوف کی وجہ سے کسی کو نہیں بتاتے ہیں یا پھر والدین بدنامی کے خوف سے انہیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔"
امتیاز کہتے ہیں کہ اس طرح کے مقدمات میں ریاست کو خود مدعی بننا چاہیے تاکہ متاثرہ فریق کے پیچھے ہٹ جانے کے باوجود ملزموں کورہائی کا موقع نہ ملے سکے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس میں بچوں سے متعلق جرائم کی تفتیش کے لیے استعداد کار بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔"
"جنسی بدسلوکی یا زیادتی کا شکار متاثرہ بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پولیس، عدلیہ اور معاشرہ عموما اس حوالے سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام نظر آتا ہے۔"
نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق بھی اس کیس میں مقامی کمیونٹی اور مذہبی شخصیات کے کردار کو افسوس ناک قرار دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'جنسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی تو ثبوت مانگے گئے، مدد کرنے کے بجائے مذاق اڑایا گیا'
"متاثرہ بچے کے والد کو پنچایت میں بیٹھا کر دباو ڈالا گیا کہ وہ شکایت واپس لے حالانکہ مقامی لوگوں اور مذہبی علماء کا فرض بنتا تھا کہ وہ متاثرہ بچے اور اس کے والد کا ساتھ دیتے۔"
انہوں نے بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ 2021ء میں جنسی زیادتی کی تعریف میں بچوں سے غیر فطری فعل بھی شامل ہے اور اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ فریقین میں صلح یا سمجھوتہ ہونے کے باوجود کیس ختم نہیں ہو گا۔
"این سی آر سی کے پلیٹ فارم سے ہم اس ایشو پر آگاہی کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس واقعہ کے بعد ہم نے مذہبی علماء کی ایک ہنگامی میٹنگ بلا کر انہیں اپیل کی ہے کہ وہ مساجد میں خطبوں کے ذریعے لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کریں۔"
عائشہ رضا کے مطابق اس سلسلے میں انہوں نے وزارت انسانی حقوق کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ وزارت مذہبی امور اور وزارت داخلہ کی مشاورت سے مدرسوں میں بچوں کے مستقل قیام کے باعث انہیں درپیش جنسی جرائم کے خطرات سے بچانے کے لیے پالیسی مرتب کی جائے۔
"اس طرح کے واقعات میں عام طور پر آس پاس کے لوگ، رشتے دار، معلم اور اساتذہ ہی ملوث ہوتے ہیں اس لیے بچوں کی تربیت اشد ضروری ہے کہ وہ اپنے قریبی افراد کے غلط روئیوں کو پہچان کر اپنا تحفظ یقینی بنا سکیں۔"
تاریخ اشاعت 20 اپریل 2024