اکیس سالہ عذیر (فرضی نام) بچپن میں اپنے سکول کے پرنسپل کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بنے اور ان تلخ احساسات کو بھلانا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ آج بھی انہیں اس بات پر سخت پچھتاوا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو انہوں نے اس وقت اپنے والدین کو آگاہ کیوں نہیں کیا اور اگر وہ ایسا کر لیتے تو شاید بہت سے دوسروں بچوں کو انہی جیسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
عذیر کا تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ہے۔ جب ان کی عمر سات سال تھی تو والدین نے انہیں شہر میں اچھی ساکھ کے حامل نجی سکول میں دوسری جماعت میں داخلہ دلایا۔ اس سکول کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ یہ ان کے گھر کے قریب تھا اور عذیر کے والدین کا خیال تھا کہ بچے کو سکول آنے جانے میں سہولت اور حفاظت رہےگی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن سکول کے پرنسپل نے ان سے ٹیوشن پڑھنے کو کہا۔ عذیر نے والدین نے سے بات کی تو انہوں نے اجازت دے دی اور انہوں نے روزانہ شام کے وقت پرنسپل کے گھر پڑھنے کے لیے جانا شرو ع کر دیا۔
جب وہ چھٹی جماعت میں پہنچے اور اس دوران امتحانات ہونے لگے تو ایک دن پرنسپل نے انہیں کہا کہ اگر وہ اس کی بات مان لیں تو اول پوزیشن لے کر پاس ہو جائیں گے ورنہ انہیں فیل کر دیا جائے گا۔
عذیر سمجھ نہ پائے کہ ان سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔ اسی دوران پرنسپل نے ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بھی بنا لی۔
عذیر یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اس ہولناک واقعے کے بعد انہیں کیا ردعمل دینا چاہیے۔ وہ خوف اور شرمندگی کے مارے خاموش رہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پرنسپل نے اسے معمول بنا لیا۔
"وقت کے ساتھ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ مجھے ویڈیو عام کرنے کی دھمکی دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ مجھ میں کسی کو یہ سب کچھ بتانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے میں نے آٹھویں جماعت پاس کر کے سکول چھوڑ دیا۔"
لیکن سکول کے پرنسپل نے تب بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور ویڈیو دوسرے لوگوں کو دکھانے کی دھمکی دے کر اسے بلیک میل کرتا رہا اور عذیر اس کا کہنا مانتے رہے۔ عذیر جانتے تھے کہ ویڈیو میں صرف انہی کا چہرہ دکھائی دیتا ہے اور اگر وہ پرنسپل کی شکایت کریں گے تو اس کے خلاف بظاہر کوئی ثبوت نہیں ہو گا۔
جب وہ بارہویں جماعت میں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ اسی سکول کے ایک بچے نے اسی پرنسپل کے ہاتھوں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بچے کی بات کسی نے نہ سنی اور اس سے ثبوت مانگا گیا۔ چونکہ بچہ ثبوت مہیا نہ کر سکا اس لیے پرنسپل بے قصور قرار پایا۔
یہ دیکھ کر عذیر نے پرنسپل کے خلاف کارروائی کرنے کی ٹھانی اور کچھ لوگوں سے مدد مانگی، انہوں نے بھی ان سے بھی ثبوت طلب کیے۔ عذیر نے انہیں پرنسپل کے فون سے خود کو بھیجے گئے پیغامات سنائے جن میں وہ ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر اپنا مطالبہ منوانے کی کوشش کرتے سنائی دیے۔
تاہم جو لوگ بظاہر ان کی مدد پر آمادہ تھے، ان کی نظر میں یہ ثبوت ناکافی تھے، وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی ویڈیو ہو جس کے ذریعے اس پرنسپل کو بے نقاب کرنا آسان ہو۔
عذیر کا کہنا تھا کہ اس گھناؤنے کردار کو روکنے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کے لیے تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ پرنسپل کے پاس گئے اور کسی طرح اس کے ساتھ اپنی ویڈیو بنا کر ان لوگوں کو دکھائی۔ لیکن انہوں ںے ان کی مدد کرنے کے بجائے الٹا ان کا مذاق اڑایا۔
ہر طرف سے مایوس ہو کر انہوں نے اکیلے جدوجہد کا فیصلہ کیا اور ہمت کر کے پولیس کے پاس گئے اور ثبوت ان کے سامنے رکھ دیے۔ پولیس نے پرنسپل کو گرفتار کرلیا۔ تاہم چند روز کے بعد پرنسپل نے عذیر کے خاندان سے سمجھوتہ کر لیا اور کیس واپس لینے کے بدلے علاقہ چھوڑ گیا۔
عذیر کو افسوس ہے کہ جب انہوں ںے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی سے دوسروں کو آگاہ کیا تو کسی نے ان کی مدد نہ کی اور الٹا ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان سے نفرت کی گئی۔
2021 سے اب تک صرف مظفرآباد شہر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 20 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ڈی ایس پی سید اشتیاق گیلانی کے مطابق ان میں سے 19مقدمات میں چالان ہوچکا ہے جبکہ ایک مقدمہ زیر تفتیش ہے۔ 14 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان میں نامزد ملزموں میں بیشتر لوگ متاثرین کے عزیز، رشتہ دار اور ہمسائے ہیں۔
اشتیاق گیلانی کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کو عموماً چھپایا جاتا ہے، بہت کم لوگ اس بارے میں پولیس کے پاس رپورٹ درج کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ خاموشی اختیار کرنے سے ان واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ملتان میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں ملزموں کی اکثریت بری کیوں ہو جاتی ہے؟
انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین سال میں پولیس کے پاس ایسے مقدمات تواتر سے آنے لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے لوگوں کی تربیت کریں اور آگاہی مہمات چلائیں تاکہ ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس طاہر قریشی نے بتایا کہ رواں سال پورے آزاد کشمیر میں اب بچوں کے خلاف جنسے زیادتی کے 51 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
آزاد کشمیر اسمبلی نے 2020 میں پینل کوڈ کی شق 352 اے اور 377 اے میں ترامیم کی تھیں جن کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت، عمر قید یا جنسی صلاحیت سے محرومی و دس سے پچاس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
نئے قانون کے تحت عدالت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مقدمات کا ٹرائل 60 دن کے اندر مکمل کرے اور اگر یہ فیصلہ اس عرصہ میں نہ ہو سکے تو عدالت کو مزید 30 دن کی مہلت دی جائے گی۔ قانون کے تحت ایسے مقدمات کی تفتیش ڈی ایس پی یا اس سے بڑے رینک کا افسر ہی کر سکتا ہے۔
تاہم قانون میں ترامیم کے باوجود، جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزا دینے کی شرح بہت کم ہے اور فوری ٹرائل کے قانون کے باوجود مہینوں اور سالوں تک مقدمات چلتے رہتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 2 اکتوبر 2023