سکول بند، اساتذہ غیرحاضر، چمن میں تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد بڑھنے لگی

postImg

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سکول بند، اساتذہ غیرحاضر، چمن میں تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد بڑھنے لگی

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

چمن کے نعمت اللہ نے اپنےتین بچوں کو پڑھائی سے اٹھا کر مزدوری پر لگا دیا ہے۔ ان کے گاؤں کا پرائمری سکول پانچ سال پہلے بند ہو گیا تھا اور وہ بچوں کو شہر میں داخل کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔

نعمت اللہ چمن شہر کے جنوب میں 20 کلو میٹر فاصلے پر واقع کلی (گاؤں) برج متکزئی کے رہائشی ہیں۔ اس گاؤں کے پرائمری سکول میں 25 بچے زیر تعلیم تھے۔ جب یہ سکول بند ہوا تو  گاؤں والوں نے کئی بار محکمہ تعلیم اور ڈپٹی کمشنر  کو آگاہ کیا مگر انتظامیہ نے سکول میں تدریس دوبارہ شروع کرنے کا کوئی بندوبست نہ کیا۔

نعمت اللہ ریڑھی پر خوبانی کا شربت بیچتے ہیں اور اپنے گھر کے 16 افراد کے واحد کفیل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے تینوں بچے دوسری اور تیسری جماعت میں پڑھتے تھے  استاد کی غیر حاضری کے باعث سکول اچانک بند ہو گیا تو ان کے پاس بچوں کی پڑھائی چھڑانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

"میرا گیارہ سالہ بیٹا علی محمد اور 12 سالہ احمد علی اب درزی کے پاس کام کرتے ہیں اور دس سالہ شیرعلی موٹر سائیکل ورکشاپ پر جاتا ہے۔ تینوں بچے صبح سویرے کام پر نکلتے اور شامل کو واپس آتے ہیں۔ اس طرح ہمیں ماہانہ 35 ہزار روپے تک آمدنی ہو جاتی ہے۔"

چمن کے شمس محلے میں رہنے والے سراج الدین کسٹم ہاؤس کے سامنے لسی بیچتے ہیں۔ وہ طویل عرصہ سے بیمار ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے زیادہ کام کرنا ممکن نہیں۔ ان کے دس سالہ بیٹے فرید احمد مقامی عیسیٰ خان پرائمری سکول میں پڑھتے تھے لیکن اب ایک سال سے وہ بھی والد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

سراج الدین بتاتے ہیں کہ انہیں ایک عشرے سے گردوں کی بیماری لاحق ہے۔ ان کا آٹھ افراد پر مشتمل کنبہ ہے اور مہنگائی نے ان کی مشکلات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دی ہیں۔ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے وہ بیٹے کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

چمن شہر کے وسط میں قائم جمعہ خان پرائمری سکول دہائیوں سے بند پڑا ہے۔ لوگ اسے 'الیکشن سکول' کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ یہ صرف الیکشن کے دنوں میں کھلتا ہے۔

محلہ جمعہ خان کے محمدہاشم کے گھر کے قریب یہ سکول 35 برس سے خالی پڑا  ہے۔ اس سکول میں استاد بھی تعینات ہیں جو گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔سکول کی کھڑکیاں دروازے اور مین گیٹ چوری کر لیے گئے اور اس کی عمارت کھنڈر بن چکی ہے۔

شہر میں نجی سکولوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ان میں بہت سے سکول ایسے ہیں جو کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں بند ہوئے اور پھر مہنگائی بڑھنے کے باعث طلبہ گھٹتی ہوئی تعداد کی وجہ سے دوبارہ نہیں کھل سکے۔

پرائیوٹ سکول ایسوسی ایشن چمن کے صدر رحمت اللہ اچکزئی بتاتے ہیں کہ 2020ء میں 71 سکول رجسٹرڈ تھے اب صرف 52 رہ گئے ہیں۔ تین سال میں مہنگائی کی وجہ سے 19 رجسٹرڈ پرائیوٹ سکولز بند ہوچکے ہیں۔شہر میں پانچ مزید نجی سکول بند ہونے جارہے ہیں۔

"ان بچوں نے یا تو سرکاری سکولوں میں داخلے لے لئے ہیں یا پھر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ یوں نجی سکولوں کے 60کے قریب اساتذہ بھی بے روزگار ہو گئے ہیں۔"

بلوچستان میں رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ (آر ٹی ایس ایم)نامی ادارہ سرکاری سکولوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اس ادارے کا ہر ضلع میں ایک افسر ہے جو صرف سیکرٹری ایجوکشن کو جوابدہ  ہے اور انہی کو رپورٹ بھیجتا ہے۔

چمن کے آر ٹی ایس ایم افسر جہانزیب اچکزئی نے انکشاف کیا ہے کہ ضلع میں37 سکول بند پڑے ہیں اور 40 اساتذہ ڈیوٹی سے مستقل غیرحاضر رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں رپورٹ متعلقہ حکام کو ارسال کردی گئی ہے۔ تاہم مزید کارروائی محکمے کی صوابدید ہے۔

جہانزیب  اچکزئی بتاتے ہیں کہ ضلع میں سرکاری سکولوں کی کل تعداد 246 ہے۔ ان میں دو ہائیر سکینڈری سکول (لڑکوں اور لڑکیوں  کے لیے)اور 21 ہائی سکول ہیں جن میں 13 لڑکوں اور آٹھ لڑکیوں کے ہیں۔

 ضلع میں مڈل سکولوں کی تعداد 29 ہے جن میں 18 لڑکوں اور گیارہ لڑکیوں کے ہیں۔ 194 پرائمری سکولوں میں 160 لڑکوں اور 34 گرلز پرائمری سکول ہیں۔ٓ دو مڈل اور 35 پرائمری سکول بند پڑے ہیں جن میں 25 سکول لڑکوں اور دس لڑکیوں کے ہیں۔

آر ٹی ایس ایم  کی مطابق ضلع میں اساتذہ کی تعداد 650 ہے۔ ان میں دوردراز کے علاقوں میں تعینات 40 اساتذہ عرصہ دراز سے غیر حاضر ہیں۔ 50 کے قریب اساتذہ عیوضی (اپنی جگہ خلاف ضابطہ کسی اور شخص سے ڈیوٹی کرانے والے) ہیں۔

جہانزیب اچکزئی نے بتایا کہ 2018 میں غیر حاضر اساتذہ اور بند سکولوں کی تعداد 150 سے زیادہ تھی۔ مسلسل رپورٹنگ پر 2019 میں محکمہ تعلیم نے 94 پرائمری سکول کھول دیے اور ان میں اساتذہ کو تعینات کردیا گیا۔

 2021ء میں مزید 13 سکول دوبارہ کھولے گئے۔ 2022ء میں مزید 21 بند سکول فعال ہوئے جبکہ رواں سال کوئی بند سکول کھولا نہیں جا سکا۔

تاہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر چمن محمود اچکزئی ضلع میں صرف 28 پرائمری سکول غیر فعال ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع میں 650 اساتذہ تعینات ہیں جن میں دس مستقل غیر حاضر ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ لنڈی کاریز ہائی سکول، مردہ کاریز ہائی سکول، سباون گرلز ہائی سکول اور ہائر سکینڈری گرلز سکول میں دس عیوضی اساتذہ کام کر رہی ہیں۔

"ہم نے عیوضی استادوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ ان کی تنخواہوں سے پچیس ہزار روپےکاٹ لیے گئے ہیں اور انہیں تین ماہ کے لیے معطل کردیا گیا ہے۔"

محمود اچکزئی  کا ماننا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران طلباء و طلبات کے تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے والدین نے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں سے نکال کر سرکاری داروں میں داخل کرا دیا ہے۔

محمود اچکزئی بتاتے ہیں کہ2021ء میں ضلع کے سکولوں میں بچوں کی تعداد 15 ہزار تھی۔ 2022 ء میں یہ بڑھ کر ساڑھے 16 ہزار ہوئی اور رواں سال ساڑھے 19 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں 15 ہزار بچے اور ساڑھے چار ہزار بچیاں ہیں۔ آئندہ سال یہ تعداد 24 ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔

ضلع میں چار غیر سرکاری تنظیمیں تعلیم پر کام کررہی ہیں۔ ان میں  قطر چیریٹی اور سیو دی چلڈرن واش رومز کی تعمیر اور مرمت میں مدد فراہم کرتی ہیں۔انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) سٹیشنری  اور یونیسف سکولوں کی مرمت میں مددکررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آواران کے چار سال سے بند پڑے کمیونٹی سکول: لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل غارت ہو گیا

بلوچستان میں یونیسف کے نمائندے جمیل کاکڑ نے بتایا کہ ان کا ادارہ سکولوں کی مرمت کے ساتھ ان میں اے ایل پی سنٹر قائم کر رہا ہے۔ ان مراکز میں سے آٹھویں تک تعلیم صرف دوسال میں مکمل کرائی جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اے پی ایل سنٹر وہاں دیے گئے ہیں جہاں سرکاری سکول نہیں ہیں۔ افغان مہاجرین  کے علاقوں اور مدرسوں کو بھی ان مراکز کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس سال ادارے نےشہر سے باہر چار سنٹر بنائے ہیں جبکہ شہر بھر میں 18 اے ایل پی سنٹرز فعال ہیں جن میں ساڑھے سات سو کے قریب بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ یونیسف ان مراکز میں بچوں کو سٹیشنری اور کتابیں  مفت فراہم کررہا ہے۔

مقامی سماجی تنظیم عوامی تحریک کے رہنما حاجی رحمت اللہ پہلوان دعویٰ کرتے ہیں کہ مہنگائی اور سرکاری سکول بند ہونے کی وجہ سے چمن میں15 ہزار سے زیادہ بچوں نے تعلیم چھوڑ دی ہے۔ محکمہ تعلیم کے افسر صرف کاغذی کاروائی تک محدود ہیں۔ اگر ڈپٹی کمشنر نے سکولوں کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہ کیا تو احتجاج کیا جائےگا۔

تاریخ اشاعت 7 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حضرت علی عطار کا تعلق بلوچستان کے ضلع چمن سے ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے مختلف نیوز ایجنسز اور پاکستان کے بڑے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.