بشریٰ شہزاد کو 2018 میں اپنی چھاتی میں ایک گلٹی محسوس ہوئی۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گلٹی کس نوعیت کی ہے چنانچہ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے شوہر شہزاد ملک کو بتایا جنہوں نے مشورہ دیا کہ انہیں کسی ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کرانا چاہیے-
اس معائنے کے لیے وہ لاہور کے علاقے صدر میں اپنے گھر کے قریب ہی ایک ہومیو پیتھک معالج کے پاس چلی گئیں جس نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد چند ہومیو پیتھک دوائیں تجویز کیں اور کہا کہ یہ گلٹی چربی جمع ہونے کے باعث بنی ہے لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔
بشریٰ ایک سال تک دوائیں کھاتی رہیں مگر گلٹی اپنی جگہ موجود رہی۔ پریشانی کے عالم میں وہ ایک مرتبہ پھر اسی معالج کے پاس گئیں جس نے انہیں دوبارہ یقین دہانی کرائی کہ اس گلٹی سے ان کی صحت کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔
لیکن کچھ ہی عرصہ بعد گلٹی پہلے سے زیادہ سخت ہو گئی، اس میں درد رہنے لگا اور اس کے ارد گرد جِلد پر سیاہ دھبے بھی نمودار ہو گئے۔ یہ دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو گئیں۔ جب انہوں نے اپنے شوہر کو اس کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا تھا کہ شاید کسی انفیکشن کے باعث ایسا ہوا ہے۔
اس صورتِ حال پر مشورہ کرنے کے لئے بشریٰ نے ایک اور ہومیو پیتھک معالج سے رجوع کیا جس نے پہلے معالج کی طرح انہیں یہی بتایا کہ یہ گلٹی چربی جمع ہونے کا نتیجہ ہے۔ تاہم اس نے یہ بھی تجویز کیا کہ انہیں چھاتی کا ایکس رے کرا لینا چاہیے۔
انہیں یہ ایکس رے کرانے میں بھی تاخیر ہو تی رہی کیونکہ وہ اسے اکیلے جا کر نہیں کرانا چاہتی تھیں لیکن ان کے صحافی شوہر کے لیے وقت نکالنا آسان نہیں تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنے 18 سالہ اکلوتے بیٹے علی ملک کو اپنی حالت کے بارے میں بتایا۔ وہ انہیں فوراً سر گنگا رام ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے جو دوسرے درجے پر پہنچ چکا ہے لیکن وہ علاج کے ذریعے ابھی بھی اس سے چھٹکارا پا سکتی ہیں۔
ڈاکٹروں نے انہیں ہومیو پیتھک دوائیں فوری طور پر ترک کرنے اور کیمو تھراپی کرانے کا کہا جس میں ایلو پیتھک دواؤں کے ذریعے کینسر کے خلیوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن بشریٰ نے ان کا مشورہ نظر انداز کرتے ہوئے ہومیو پیتھک دواؤں کا استعمال جاری رکھا۔ علی کہتے ہیں کہ "میری والدہ نے کیمو تھراپی کروانے سے اس لئے انکار کیا کہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ یہ نہایت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے"۔
تاہم چند ہی ہفتوں میں ان کی چھاتی کی گلٹی مزید بڑی ہو گئی۔ علی کے مطابق ان کی والدہ کو یہ "ایک چھوٹی سی بند مُٹھی کی طرح محسوس ہوتی تھی"۔ ڈاکٹروں نے انہیں بائیوپسی کروانے کو کہا جو ایک ایسا ٹیسٹ ہے جس میں گلٹی سےچند ریشے لے کر ان کا بغور معائنہ کیا جانا تھا۔
اس ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ کینسر ان کے پورے جسم میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ ایسے میں فوری طور پر کیمو تھراپی شروع کرنا ہی اس کا پھیلاؤ روکنے کا واحد طریقہ تھا۔ لیکن تیزی سے گرتی صحت کے باوجود بشریٰ کیمو تھراپی کرانے پر رضامند نہیں تھیں۔
اگرچہ ان کا کینسر چوتھے درجے میں داخل ہو چکا تھا جس میں مریض کا بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر بھی وہ ہومیو پیتھک دوائیں ہی لیتی رہیں۔
جب ان کے لیے کھانا، بولنا اور سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تو ان کے اہلِ خانہ انہیں ایک ہسپتال لے گئے تاکہ ان کےپھیپھڑوں میں جمع ہونے والا پانی خارج کیا جا سکے۔ اس علاج کے دوران ان کی حالت بری طرح بگڑ گئی۔ ان کے بیٹے علی کا کہنا ہے کہ "ان پر کسی دوا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ تیزی سے موت کی جانب بڑھ رہی تھیں"۔
مئی 2020 کی 19 تاریخ کو 54 سال کی عمر میں بشریٰ کا انتقال ہو گیا۔
لاہور ہی کی رہائشی نبیلہ مسعود کی بھی تقریباً ایسے ہی حالات میں ستمبر 2018 میں موت واقع ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 51 سال تھی۔
انتقال سے تقریباً نو مہینے پہلے نبیلہ کو اپنی دائیں چھاتی میں جلن اور سنسنی سی محسوس ہونے لگی لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ ان کی والدہ قریب المرگ تھیں اور وہ ان کی نگہداشت، نجی سکول میں استانی کی حیثیت سے اپنی نوکری اور گھریلو کاموں میں اس قدر مصروف تھیں کہ ان کے پاس اپنا طبی معائنہ کرانے کا وقت ہی نہیں تھا۔
لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ان کی متاثرہ چھاتی کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے اور وہ اب بھاری اور سخت ہو چکی ہے۔ کئی سال پہلے ان کی والدہ کو بھی چھاتی کا کینسر ہو چکا تھا اس لیے وہ جانتی تھیں کہ یہ علامات خطرناک ہو سکتی ہیں۔
خوف سے کانپتی ہوئی وہ فوراً رائے ونڈ روڈ پر واقع کینسر کیئر ہسپتال پہنچیں۔ نجی شعبے میں چلنے والا کینسر کے علاج کا یہ ہسپتال کینسر کے معروف معالج ڈاکٹر شہریار نے قائم کیا ہے۔ وہاں ان کی چھاتی کے ایکس رے کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ ان کا کینسر تیسرے درجے پر ہے اور ان کے جگر کو بھی متاثر کر چکا ہے۔
ان کا بیٹا لاہور میں ایک ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلائے جانے والے ہسپتال میں دندان ساز ہے۔ اس تشخیص کے بعد اس نے اپنی والدہ کے علاج کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی اور لاہور کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال سے بھی رجوع کیا جو وزیر اعظم عمران خان نے کینسر کے باعث انتقال کرنے والی اپنی والدہ کی یاد میں بنایا ہے۔
چونکہ نبیلہ کے شوہر نوکری سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ان کے بچوں کو برسرِ روزگار ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا لہٰذا ان کا خاندان شوکت خانم ہسپتال میں 'پرائیویٹ' مریض کے طور پر ان کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہسپتال سے درخواست کی کہ انہیں 'مفت' مریض کے طور پر داخل کر لیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہسپتال میں ان کا پہلا معائنہ ایک ماہ بعد ہوا اور اگلے معائنے کے لیے بھی تین ماہ بعد کی تاریخ ملی۔
دوسرے معائنے سے پہلے ہی جب ان کے جسم میں درد ناقابل برداشت ہو گیا تو ان کے اہلِ خانہ انہیں فوری طور پر جناح ہسپتال لے گئے جس کا شمار لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس ہسپتال میں کینسر کے علاج کی سہولیات اچھی نہیں ہیں تو وہ فوری طور پر انہیں ایک نجی ہسپتال میں لے گئے۔
لیکن اس ہسپتال کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ نبیلہ کی بڑی بیٹی نمرا علیم شکایت کناں ہیں کہ "کوئی بھی دم توڑتے مریض کی نگہداشت کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا تھا"۔ وہ کراچی میں ایک نجی کمپنی میں کام کرتی تھیں مگر اپنی والدہ کی دیکھ بھال کے لیے نوکری چھوڑ کر لاہور واپس آ گئی تھیں۔
انہوں نے بہت سے دیگر ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے بھی رجوع کیا مگر کوئی بھی ان کی والدہ کے علاج پر تیار نہ ہوا۔ بالاآخر انہیں اتفاق ہسپتال میں جگہ ملی جو لاہور میں ایک ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چلایا جاتا ہے۔ وہاں کینسر کے علاج کے ماہر ڈاکٹر نے ان کی والدہ کے طبی ریکارڈ کا معائنہ کر کے کہا کہ وہ چھ مہینے سے زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گی۔
نمرا کہتی ہیں کہ "یہ سب کچھ دیکھنےکے بعد میں یہ دعا کرتی کہ میری والدہ کو جلد موت آ جائے کیونکہ ان کا درد سے تڑپنا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا"۔
وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی والدہ کے صحت یاب نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت تاخیر سے اپنا معائنہ کروایا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ یہ رہی کہ انہیں شوکت خانم ہسپتال میں معائنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔ نمرا کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ہمیں مختلف ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی جانب سے علاج کے لیے متضاد مشورے بھی ملتے رہے"۔
نینا خالد کسی نہ کسی طرح اس ناقص تشخیص اور نا مناسب علاج کےچکر سے بچ نکلنے میں کامیاب رہیں۔
ان کی عمر 26 سال ہے اور وہ ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہیں۔ 2017 میں انہیں اپنی دائیں چھاتی میں چھوٹی سی گلٹی محسوس ہوئی تاہم انہوں نے اسے انفیکشن سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد انہیں اس گلٹی میں سوئیاں سی چبھتی محسوس ہونے لگیں۔ چنانچہ ایک رشتہ دار کے مشورے پر وہ لاہور کے علاقے ڈیفنس میں واقع ایک نجی ہسپتال میں اپنا معائنہ کرانے چلی گئیں۔
وہاں ایک ڈاکٹر نے ان کی گلٹی کی بائیوپسی کی اور انہیں یقین دلایا کہ انہیں چھاتی کا کینسر نہیں ہے۔ اس ڈاکٹر نے کینسر کے شبے کو مکمل طور پر دور کرنے کے لیے کوئی اور ٹیسٹ کرنے کے بجائے اسی دن سرجری کر کے گلٹی کو ان کے جسم سے نکال دیا اور انہیں گھر بھیج دیا۔ اگلے تین سال تک انہیں کبھی کبھار چھاتی میں درد کے علاوہ کوئی اور تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ لیکن مارچ 2020 میں انہیں سکول میں پڑھاتے ہوئے چکر آیا اور وہ گر کر بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں پھر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اس کا سبب ان کی چھاتی میں پائی گئی گلٹی بھی ہو سکتی ہے۔
اسی سال اکتوبر میں نینا نے محسوس کیا کہ گلٹی دوبارہ بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی ان کے سینے میں ہونے والے درد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ فوری طور پر لاہور کے جنرل ہسپتال میں گئیں اور اپنا معائنہ کروایا جہاں 11 نومبر 2020 کو ان میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ بعد ازاں انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے لاہور میں قائم کردہ انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسنز اینڈ اونکولوجی (اِنمول) میں داخلہ مل گیا جہاں صرف کینسر کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں نے فوری طور پر ان کی کیمو تھراپی شروع کر دی۔
یہ تمام علاج مفت تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں صرف ابتدائی معائنوں کے لیے 20 ہزار روپے ادا کرنا پڑے۔
اگرچہ اس علاج کے دوارن وہ اپنے چمک دار سیاہ لمبے بالوں سے محروم ہو گئیں تاہم وہ خوش ہیں کہ انہیں کینسر سے نجات مل چکی ہے۔
کینسر کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ
بریسٹ ہیلتھ گروپ انیشی ایٹو چھاتی کے کینسر کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کام کرنے والا ایک عالمگیر طبی ادارہ ہے جو ثبوتوں کی بنیاد پر اس مرض کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے نے پاکستان میں چھاتی کے کینسر میں تشویش ناک حد تک اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کا "غالب امکان ہے کہ پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں چھاتی کا کینسر ہو سکتا ہے"۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں نوجوان خواتین میں چھاتی کا کینسر زیادہ عام ہے۔ مغرب میں عام طور پر خواتین میں یہ بیماری اوسطاً 60 سال کی عمر کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے مریضوں کی شرح 5.2 گنا زیادہ اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح 2.8 گنا زیادہ ہے۔
دیگر اعداد و شمار بھی ایسی ہی مایوس کن صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بریسٹ ہیلتھ گلوبل انیشی ایٹو کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ 2017 میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی تعداد 34,038 اور 90,000 کے درمیان تھی۔ (دونوں ہندسوں میں اتنا بڑا فرق اس لیے ہے کہ پاکستان میں اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے بارے میں سائنسی طور پر مرتب شدہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں)۔ اسی جائزے کے مطابق 2017 میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر سے 16,323 اموات ہوئیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (آئی اے آر سی) کے مشترکہ اقدام گلوبل کینسر آبزرویٹری کے مطابق بھی 2020 میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد 13,725 کےلگ بھگ تھی جو جنوبی ایشیا میں انڈیا کے بعد کسی بھی ملک میں اس بیماری سے مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
بریسٹ ہیلتھ گلوبل انیشی ایٹو کے جائزے کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے باعث اس قدر بلند شرح اموات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا 50 فیصد خواتین کے کینسر کی تشخیص بہت تاخیر سے اور اس وقت ہوتی ہے جب یہ مرض خطرناک صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ بالائی سطور میں بیان کیے گئے تینوں واقعات سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔
فیصل آباد میں قائم سرکاری ادارے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسنز (پی آئی این یو ایم) نے جنوری 2019 میں کوشش کی کہ اس تاخیر کی وجوہات کا کھوج لگایا جائے۔ اس سلسلے میں 200 خواتین سے بات کی گئی جس سے یہ بات سامنے آئی کہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین اپنا طبی معائنے کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں اور یہی اس تاخیر کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اسی طرح کراچی میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال اور کرن کینسر ہسپتال کے ایک مشترکہ جائزے میں 499 ایسی خواتین مریضوں کا ریکارڈ دیکھا گیا جو فروری 2015 اور اگست 2017 کے درمیان چھاتی کے کینسر میں مبتلا رہی تھیں۔ ان میں 69.9 فیصد خواتین تیسرے اور چوتھے درجے کے کینسر میں مبتلا تھیں جسے بیماری کی تشخیص میں تاخیر کی واضح علامت کہا جا سکتا ہے۔
اسی جائزے سے پتہ چلا کہ 55.2 فیصد خواتین سینے میں گلٹی محسوس ہونے کے بعد بھی ڈاکٹروں کے پاس نہ گئیں جبکہ 26 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہیں اپنے شوہروں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے جیسے سماجی دباؤ کے ڈر سے علاج کرانے میں رکاوٹ پیش آئی۔
کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والے ایک بین الاقوامی آن لائن رسالے کینسر رپورٹس کے مطابق چھاتی کے کینسر کا پتا چلانے کا ایک قومی پروگرام شروع کر کے ایسی خواتین کو فوری معائنے کی سہولت دی جا سکتی ہے جن کے لیے بہت سی وجوہات کی بنا پر ہسپتال جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے پروگراموں سے چھاتی کے کینسر کی علامات کو ابتدائی مرحلے میں ہی پہچانا جا سکتا ہے اور اس طرح اس بیماری سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
تاہم پاکستان میں ایسا کوئی پروگرام موجود نہیں۔ اسی لیے ملک میں چھاتی کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔
پی اے ای سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چھاتی کا کینسر اب پاکستان میں کینسر کی سب سے عام قِسم بن چکا ہے۔ ملک بھر میں پی اے ای سی سے منسلک 18 ہسپتالوں اور لیبارٹریوں سے حاصل کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2017 کے درمیان کینسر کے 102,022 مریض سامنے آئے۔ ان میں 22.6 فیصد چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین تھیں۔ اس عرصہ میں ہر طرح کے کینسر میں مبتلا 57,213 خواتین کی نشاندہی ہوئی جن میں 22,599 (تقریباً 40 فیصد) چھاتی کے کینسر میں مبتلا تھیں۔
اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 اور 2019 میں پی اے ای سی سے ملحقہ کینسر ہسپتالوں میں داخل ہونے والی چھاتی کے کینسر کی مریض خواتین کی تعداد کسی بھی دوسری قسم کے کینسر کے مریضوں سے زیادہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں میں ایڈز کا پھیلاؤ:'میں نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی کی جان کیسے بچاؤں'۔
لیکن پاکستان میں اس بیماری کے زیادہ مہلک ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے یہاں اس میں مبتلا بیشتر مریضوں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے جن کے پاس بجٹ کی کمی کے باعث خاطر خواہ سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔ کینسر رپوٹس نے انکشاف کیا ہے کہ کینسر کا علاج کرنے والا ایک پاکستانی ڈاکٹر (اونکولوجسٹ) اپنے پورے پیشہ وارانہ کیریئر میں اوسطاً 17,000 مریضوں کو دیکھتا ہے اور ایک ریڈی ایشن اونکولوجسٹ اپنے پورے پیشہ وارانہ کیریئر میں کینسر کے 12,500 مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ پنجاب میں بھی، جہاں طبی سہولیات ملک کے دیگر حصوں سے بہتر سمجھی جاتی ہیں، ایک اونکولوجسٹ ہر سال اوسطاً 1300 سے 1500 مریضوں کا معائنہ کرتا ہے۔
قومی سطح پر مریضوں کے اندراج کی ضرورت
پاکستان میں حکومت کو کینسر سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں بنانے میں مدد دینے کی غرض سے اس بیماری سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے اور ان کا تجزیہ اور تشریح کرنے کے لیے تین ادارے ہیں۔ ان میں ایک کراچی کینسر رجسٹری ہے جو صرف کراچی شہر یا ملک کی مجموعی آبادی کے تقریباً آٹھ فیصد کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسرا ادارہ پنجاب کینسر رجسٹری ہے جو شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی سرپرستی اور نگرانی میں چلایا جاتا ہے جبکہ تیسرا ادارہ پاکستان اٹامک انرجی کینسر رجسٹری ہے جو پی اے ای سی نے وفاقی حکومت کے نیشنل کینسر کنٹرول پروگرام کے تحت قائم کیا ہے۔
اگرچہ پنجاب کینسر رجسٹری 2008 میں فعال ہو گئی تھی تاہم ابھی تک اس کا کام ضلع لاہور تک محدود ہے جہاں پنجاب کی مجموعی آبادی کا صرف 10 فیصد رہتا ہے۔ اسی طرح صوبے بھر کے 27 طبی ادارے اس رجسٹری سے منسلک ہیں جن میں سے 18 کا تعلق صرف لاہور سے ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کینسر رجسٹری سے بھی 18 ادارے منسلک ہیں جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں موجود ہیں۔ پاکستان میں کینسر کے 80 فیصد مریضوں کا علاج انہی طبی اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ رجسٹری 2015 سے کینسر کے مریضوں کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہے تاہم اس کی پہلی تین سالہ رپورٹ (جو 2015 سے 2017 کے درمیانی عرصہ سے متعلق ہے) 2019 میں شائع ہوئی تھی۔ جون 2021 میں شائع ہونے والی اس کی رپورٹ میں بھی تازہ ترین اعداد و شمار موجود نہیں ہیں بلکہ اس کے بجائے یہ رپورٹ 2018 اور 2019 کے اعداد و شمار بتاتی ہے۔
پی اے ای سی میں نیوکلیئر میڈیسنز اور اونکولوجی کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر محمد شعیب مالی اور انسانی وسائل کی کمی کو کینسر کے مریضوں کے بارے میں معلومات کے فقدان کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ان وسائل کی عدم موجودگی میں اکثر اوقات ملحقہ اداروں کے ساتھ رابطہ کرنا اور ان سے بروقت تازہ ترین اور حتمی معلومات لینا مشکل ہو جاتا ہے"۔
جہاں تک پورے ملک کے لیے واحد قومی کینسر رجسٹری کی بات ہے تو وفاقی حکومت نے 2015 میں اس کے قیام کی منظوری دے دی تھی تاہم ابھی تک اس کا دائرہ کار صرف آٹھ بڑے سرکاری ہسپتالوں تک ہی محدود ہے۔
صحت عامہ کے ماہر اور قومی وزارتِ صحت کے ساتھ کام کرنے والے کنسلٹنٹ ڈاکٹر غلام نبی قاضی کے مطابق قومی کینسر رجسٹری سے ملحقہ اداروں کی تعداد اس قدر کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے طبی ادارے پہلے ہی دوسری رجسٹریوں سے منسلک ہیں۔ان کے بقول ان رجسٹریوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ کینسر کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد قومی رجسٹری کے تحت آنے والے ہسپتالوں سے ہٹ کر دوسرے طبی مراکز میں علاج کروا رہی ہے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ کینسر پر قابو پانے کے لیے واقعتاً ایک واحد قومی رجسٹری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کینسر کے حوالے سے کبھی کبھار اور علاقائی اعتبار سے بے ربط اعداد و شمار جمع اور شائع کرنے کے بجائے ملک بھر میں باقاعدگی سے قابل بھروسہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے، انہیں ترتیب دینے اور ان کا تجزیہ کرنےکی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینسر کی زد پر آنے والے لوگوں کے تحفظ کے لیے ایسی جامع معلومات کا موجود ہونا ناگزیر ہے کیونکہ ان کے بقول ان معلومات کی موجودگی میں ایسے مرتکز اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے پاکستان میں ایسی بہت سی خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچایا جا سکتا ہے جنہیں زندگی میں کسی مرحلے پر یہ بیماری لاحق ہونےکا خدشہ ہو۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ31 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 30 مئی 2022