سکردو میں رہنے والے 85 سالہ حاتم خان کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر میدانی علاقوں میں مقیم اپنے بچوں سے ملنے جانا آسان نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے ہمت کی اور 5 اپریل 2021 کو اپنے بیٹے کے پاس لاہور چلے آئے کیونکہ اس سے ان کی ملاقات ہوئے کئی مہینے گزر چکے تھے۔
لاہور میں قیام کے دوران حاتم خان کے اہلِ خانہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے لگے اور ان کی بیوی، بیٹے اور چند پوتے پوتیوں میں اس بیماری کی علامات دکھائی دینے لگیں۔ چند روز بعد وہ خود بھی بیمار پڑ گئے اور ان میں بھی وائرس کی علامات پائی جانے لگیں۔تاہم انہی دنوں ان کی ایک بیٹی کو اسلام آباد میں ہنگامی نوعیت کا کوئی مسئلہ درپیش ہوا اور انہیں فوری طور پر وہاں جانا پڑا۔
اسلام آباد میں انہیں خبر ملی کہ ان کے کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا ہے۔ چونکہ بہت سال پہلے انہیں دمہ کی بیماری لاحق ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے پوری طرح کام نہیں کرتے تھے اس لئے کورونا سے متاثر ہونے کے بعد انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی اور ان کے خون میں آکسیجن کی مقدار 90 کی نارمل سطح سے گر کر 60 پر آ گئی۔
افراتفری کے عالم میں ان کے اہلخانہ انہیں ایک ہسپتال میں لے گئے جہاں انہیں کورونا سے متاثرہ افراد کے لیے بنائے گئے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کر لیا گیا۔اس ہسپتال میں چند روز تک ماسک اور سلنڈر کے ذریعے آکسیجن لینے کے بعد ان کی حالت بہتر ہو گئی جس کے بعد ان کے اہلِ خانہ انہیں گھر لے آئے۔
گھر واپسی کے کچھ دن بعد ایک مرتبہ پھر ان کے خون میں آکسیجن کی سطح کم ہو گئی۔ تاہم اس مرتبہ ان کے بچے فوری طور پر کوئی ایسا ہسپتال نہ ڈھونڈ سکے جہاں انہیں آکسیجن مل سکتی۔ اس وقت وفاقی دارالحکومت کے طبی مراکز میں دستیاب آکسیجن صرف وہاں زیرِ علاج مریضوں کی ضروریات کے لئے ہی کافی تھی لہٰذا کوئی ہسپتال کسی ایسے نئے مریض کو داخل نہیں کر رہا تھا جسے آکسیجن درکار تھی۔
یوں ایک طرف حاتم خان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو دوسری طرف ان کے بچے ان کے لیے آکسیجن کا بندوبست کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے۔ بالآخر ان کی بہو نے اس سلسلے میں مدد کے لئے اپنے بھائی سے رابطہ کیا جو گلگت بلتستان کے گورنر ہیں۔
اس رابطے کے بعد گورنر نے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بات کی جنہوں نے اگلے دن حاتم خان کے اہلِ خانہ کو بتایا کہ انہیں لاہور میں اندرون شہر ایک دکان سے آکسیجن کا سلنڈر مل سکتا ہے۔
لیکن اسی دوران حاتم خان کی طبیعت بگڑتی چلی جا رہی تھی لہٰذا جب آکسیجن کا سلنڈر ان کے پاس پہنچا تو وہ جانکنی کے عالم میں تھے۔ بالآخر 2 مئی کو وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
مقصود بی بی کو بھی بر وقت آکسیجن نہ ملنے پر بڑی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لاہور کے شمال مشرق میں واقع مناواں نامی گاؤں کی رہائشی ہیں۔اپریل 2021 کے آخر میں انہیں ہلکا سا بخار ہوا اور بعد میں کورونا سے ملتی جلتی علامات سامنے آنے لگیں تو انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک
ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے انہیں بخار دور کرنے کی دوا دے دی۔ لیکن چند روز بعد انہیں سانس لینے میں اس قدر دشواری ہوئی کہ ان کی بیٹی انہیں فوراً لاہور کے جناح ہسپتال میں لے آئیں جہاں ایک ہی ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا کہ وہ کورونا کا شکار ہو چکی ہیں۔
تاہم ان کے ٹیسٹ کے مثبت آنے کے باوجود ہسپتال نے انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی بیٹی کے مطابق ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کی والدہ کی حالت زیادہ خراب نہیں ہے اس لیے انہیں ہسپتال میں داخل کر کے آکسیجن دینے کی ضرورت نہیں۔
مگر چار روز بعد مقصود بی بی کے خون میں آکسیجن کی مقدار کم ہو کر خطرناک سطح پر آ گئی لہٰذا انہیں دوبارہ جناح ہسپتال لایا گیا اور کورونا کے مریضوں کے لیے بنائے گئے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کر دیا گیا۔ جب اس وارڈ میں ان کی حالت معمول پر نہ آ سکی تو ڈاکٹروں نے انہیں اسی ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختص انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا۔
مئی کے دوسرے ہفتے تک وہ اسی وارڈ میں زیرعلاج تھیں۔
مقصود بی بی کی بیٹی کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو یہ سب کچھ صرف اس لیے جھیلنا پڑا کیونکہ انہیں کورونا کی تشخیص ہوتے ہی آکسیجن نہیں مل سکی تھی۔
لیکن جناح ہسپتال کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ مریضوں کو آکسیجن دینے کے معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لے رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کوویڈ کی تیسری لہر کے دوران مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کے نتیجے میں ہسپتال کو کہیں آکسیجن کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی لیے وہ صرف انہی مریضوں کو آکسیجن دے رہے ہیں جن کی حالت نازک ہوتی ہے۔
جناح ہسپتال کے کورونا وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹر سعد طاہر کا کہنا ہے کہ وبا کی پہلی لہروں کے مقابلے میں اس مرتبہ ان کے ہسپتال میں زیادہ تعداد میں ایسے مریض آ رہے ہیں جنہیں آکسیجن کی فوری ضرورت ہے۔ ان کے مطابق ہسپتال میں اب تک آکسیجن کی کوئی کمی نہیں لیکن انتہائی نگہداشت اور ایمرجنسی وارڈ میں مسلسل آکسیجن استعمال ہو رہی ہے اس لیے آنے والے دنوں میں اس کی قلت کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
جناح ہسپتال میں کورونا کے مرکزی رابطہ افسر ڈاکٹر کاشف بشیر کا بھی کہنا ہے کہ مارچ 2021 کے آغاز سے لے کر مئی کے دوسرے ہفتے کے درمیان تک ان کے ہسپتال میں آکسیجن کا استعمال دگنا ہو گیا ۔
سرکاری اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کورونا کی تیسری لہر کے دوران جناح ہسپتال میں وبا کی دوسری لہر کے مقابلے میں دو گنا زیادہ آکسیجن استعمال ہو رہی ہے۔ عام حالات میں اس ہسپتال میں روزانہ 800 سے 900 کلو پاسکل آکسیجن استعمال ہوتی ہے تاہم کورونا کی پہلی لہر کے دوران اس کی ضرورت روزانہ 1800 کلو پاسکل تک پہنچ گئی- دوسری لہر میں یہ ضرورت 3000 کلو پاسکل پر چلی گئی جبکہ تیسری لہر میں یہ بڑھ کر 6000 کلو پاسکل ہو چکی ہے۔
کاشف بشیر کے مطابق اس بڑھتی ہوئی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہسپتال نے اپنے آکسیجن کے ذخائر ایک ہزار کیوبک میٹر سے بڑھا کر دو ہزار کیوبک میٹر کر دیے ہیں۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آکسیجن کی طلب اب بھی بڑھ رہی ہے اور اگر پنجاب حکومت کے پالیسی سازوں نے ہسپتالوں کے منتظمین کی شکایات نہ سنیں تو بحرانی صورتحال جنم لے سکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا کے آغاز سے اب تک دیکھا جائے تو اس بیماری کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں پر پوری طرح عمل نہیں ہو سکا کیونکہ پالیسی سازوں، ڈاکٹروں اور عام لوگوں میں رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
آکسیجن کی طلب اور رسد
پاکستان میں بنیادی طور پر جن تین شعبوں میں آکسیجن استعمال ہوتی ہے ان میں سے آج کل طبی شعبہ سب سے زیادہ اس گیس کا استعمال کر رہا ہے۔ اس شعبے میں ہسپتال اور دوا ساز کمپنیاں شامل ہیں۔
طبی شعبے کے علاوہ بحری جہاز توڑنے کی صنعت میں بھی بڑے پیمانے پر آکسیجن استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، پلپ، کاغذ، کیمیائی مادوں، شیشہ سازی اور پٹرولیم کی صنعتیں بھی آکسیجن استعمال کرتی ہیں۔ہر روز صرف لاہور میں قائم صنعتوں میں آکسیجن کے 1200 سے 1300 سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کورونا وبا کے دوران سکول چھوڑنے والے بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟
بیشتر بڑی فیکٹریوں اور بڑے ہسپتالوں کے پاس اپنے آکسیجن پلانٹ ہوتے ہیں جن سے وہ اپنی ضرورت کی گیس پیدا کرتے ہیں۔ ایسے پلانٹ لگانے والی ایک کمپنی، آسک ایسوسی ایٹس، نے صرف 2020 میں مختلف صنعتی اداروں میں 12 نئے پلانٹ نصب کیے ہیں۔
اسی طرح غنی گیس، بھوانی گیس، شریف آکسیجن، آغا گیس، پاکستان آکسیجن لمیٹڈ اور ملتان کیمیکلز پاکستان میں آکسیجن بنانے والی بڑی کمپنیاں ہیں۔ فائن گیس نامی ایک کمپنی بھی کچھ عرصہ پہلے تک ایک لاکھ ٹن سالانہ آکسیجن بناتی تھی لیکن اس نے حال ہی میں یہ کام بند کر دیا ہے۔
منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے وفاقی وزیر اسد عمر کہتے ہیں کہ گیس کی موجودہ ملکی رسد کو بڑھانے کے لئے حکومت نے 6000 ٹن آکسیجن، 5000 آکسیجن سلنڈر اور 20 آکسیجن ٹینک درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تا کہ ہسپتالوں اور مریضوں کو گیس کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ آکسیجن کی ممکنہ کمی کے پیشِ نظر حکومت نے ایسی صنعتوں کو بھی اس کی فراہمی پر پابندی لگا دی ہے جن کے پاس اپنے آکسیجن پلانٹ نہیں ہیں۔
کورونا وبا کے شروع کے دنوں میں ایسے اقدامات کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ اس وقت پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ آکسیجن بنا رہا تھا۔ اسد عمر دعویٰ کرتے ہیں کہ 2020 میں پاکستان میں آکسیجن کی روزانہ پیداوار 487 ٹن تھی ( جو ان کے مطابق اب 725 ٹن ہو چکی ہے)۔
یہاں یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ عام حالات میں ہمارے ہاں طبی شعبے میں آکسیجن کا استعمال دوسرے بہت سے ممالک سے کم ہوتا ہے۔ ویت نام کی مثال لے لیجیے جس کی 97 ملین آبادی پاکستان کی 207 ملین آبادی سے کہیں کم ہے لیکن وہاں کورونا سے پہلے روزانہ 250 ٹن آکسیجن استعمال ہو رہی تھی جبکہ، برطانیہ میں قائم ایک کاروباری مشاورتی کمپنی گیس ورلڈ کی اہل کار کرینہ کوچا کے مطابق، پاکستان میں یہ مقدار 100 سے 110 ٹن روزانہ تھی جو اب بڑھ کر 300 سے 500 ٹن ہو چکی ہے۔
کورونا کی تیسری لہر آنے کے بعد سے یہ سوال کئی بار پیدا ہوا ہے کہ کیا پاکستان میں تمام ممکنہ مریضوں کو آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وفاقی سطح پر کورونا سے متعلق پالیسیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر کی طرف سے 19 اپریل کو دیے گئے ایک بیان سے بھی ان خدشات کو تقویت ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کورونا کی تیسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ جون 2020 کے مقابلے میں اب ہسپتال میں آنے والے کورونا کے مریضوں کی تعداد 30 گنا بڑھ گئی ہے۔ بعد میں ایک بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیسری لہر کے دوران جن لوگوں کو آکسیجن کی ضرورت پڑ رہی ہے ان کی تعداد گزشتہ سال جون کے مقابلے میں 57 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
آکسیجن کی ممکنہ قلت کے حوالے سے ان خدشات کا نتیجہ اس کی طلب میں بڑے پیمانے پر اضافے کی صورت میں نکلا۔ نا صرف ہسپتال اور دوا ساز کمپنیاں مزید آکسیجن کی تلاش میں ہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑی تعداد میں عام لوگ بھی اس کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔
آکسیجن کی یہ بڑھتی ہوئی طلب ہر اس بڑے ہسپتال میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کورونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس وبا سے پہلے لاہور کے جنرل ہسپتال میں آکسیجن کا روزانہ استعمال 1200 سے 1400 کیوبک میٹر تک تھا جو اس بیماری کی تیسری لہر میں 2000 سے 2200 کیوبک میٹر تک پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح لاہور کے سروسز ہسپتال میں اس وقت روزانہ 9000 سے 10000 کیوبک میٹر آکسیجن روزانہ استعمال ہو رہی ہے جبکہ کورونا سے پہلے یہ طلب 3200 سے 4500 کیوبک میٹر تک تھی۔
یہ بھی پڑھیں
کورونا وبا کی پیدا کردہ مالی مشکلات: افغان مہاجرین اپنے بچوں کی تعلیم چھڑانے پر مجبور۔
نتیجتاً آکسیجن کی قیمتیں بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہیں۔
محمد رضوان (فرضی نام) لاہور میں آکسیجن کی فروخت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اس کی قیمت میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کورونا سے پہلے اس کی فی کیوبک میٹر قیمت 40 سے 45 روپے تک تھی جو اب 150 روپے پر پہنچ چکی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ آکسیجن کے سلنڈر خرید کر ذخیرہ کر رہے ہیں تا کہ ان کی مصنوعی قلت پیدا کر کے وہ انہیں بھاری قیمت پر بیچ سکیں۔
آکسیجن بنانے والی ایک کمپنی کے جنرل مینجر طاہر محمود سمجھتے ہیں کہ گیس کی قیمتیں صرف سلنڈر بیچنے والی دکانوں پر ہی بڑھی ہیں کیونکہ اگر آکسیجن بنانے اور تقسیم کرنے والوں نے یہ قیمتیں بڑھائی ہوتیں تو ہسپتال اور صنعتی ادارے بھی گیس مہنگی ہونے کی شکایت کر رہے ہوتے۔
اگرچہ فی الوقت ہسپتالوں میں عمومی طور پر آکسیجن کی قلت نہیں ہے لیکن بعض جگہوں پر اس کی فراہمی میں انتظامی مشکلات ضرور حائل ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پنجاب کے دور دراز قصبوں اور چھوٹے شہروں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگے تو وہاں کے طبی مراکز میں ہر وقت آکسیجن کی ضروری مقدار کی موجودگی یقینی بنانا کافی مشکل ہو گا کیونکہ ایسے قصبوں اور شہروں کے پاس بڑے پیمانے پر آکسیجن جمع کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ بڑے شہروں سے آکسیجن کی مسلسل ترسیل پر انحصار کرتے ہیں جو سلنڈر میں بھر کر ان تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس ترسیل
میں کسی طرح کی رکاوٹ ان طبی مراکز میں موجود مریضوں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر مظفر گڑھ کے ضلعی ہسپتال کو روزانہ آکسیجن کے قریباً 100 سلنڈر درکار ہوتے ہیں۔ اگر کسی روز لاہور یا ملتان سے یہ سلنڈر مظفر گڑھ نہ پہنچیں تو ان پر انحصار کرنے والے مریضوں کے سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 3 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 1 دسمبر 2021