ملتان کے محمد عرفان موٹر سائیکلوں اور کاروں کی نمبر پلیٹیں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے دس سالہ بیٹے عبدالمتین کو چند برس قبل سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ وہ مختلف ڈاکٹروں اور حکیموں سے دوا لیتے رہے مگر افاقہ نہ ہوا۔ اس کے بعد ان کے بیٹے کو بخار بھی رہنے لگ، جب اس میں تیزی آتی تو بچہ نڈھال ہو جاتا اور کچھ دن بعد اس کی حالت قدرے سنبھل جاتی۔
عرفان نے بتایا کہ انہیں کسی جاننے والے نے ملتان چلڈرن کمپلیکس سے بچے کا علاج کرانے کا مشورہ دیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے معائنے اور میڈیکل ٹیسٹ کے بعد چلڈرن ہسپتال میں بچوں کے ماہر سرطان سے چیک اپ کرانے کو کہا۔
ماہر سرطان نے انہیں بتایا کہ بچے میں خون کے کینسر کی واضح علامات ہیں اور اس کا فی الفور علاج ضروری ہے۔عبدالمتین کو ستمبر 2019ء میں ہسپتال داخل کیا گیا جہاں اس کی بیماری ٹی سیل اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا کا علاج شروع ہو گیا جسے مختصراً 'ٹی آل' کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر نے امید دلائی کہ علاج کے بعد بچہ تندرست ہو جائے گا۔ تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصہ عبدالمتین کا علاج جاری رہا۔ جولائی 2020ء میں بچہ مکمل طور پر تندرست ہو گیا اور اب معمول کی صحت مند زندگی گزار رہا ہے۔
میاں چنوں کے کاشت کار محمد نصیر بتاتے ہیں کہ ان کا تیرہ سالہ بیٹا ریحان علی اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس کی تلی بڑھی ہوئی تھی اور اس میں انفیکشن بھی تھا۔ ایک مقامی ڈاکٹر کے مشورے پر وہ اسے چلڈرن کمپلیکس ملتان لے آئے جہاں خون کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ان کے خاندان میں پہلے ایسا کوئی مریض نہیں تھا۔
جنوری 2020ء میں بچے کا علاج شروع ہوا۔ ڈیڑھ برس زیرعلاج رہنے کے بعد ان کا بیٹا زندگی کی طرف لوٹ آیا۔چلڈرن کمپلیکس کینسر وارڈ کے سربراہ نے ریحان کو صحت مند قرار دیا اور وہ خوشی خوشی گھر واپس آ گئے۔
تاہم کچھ عرصہ کے بعد ریحان کی طبیعت پھر بگڑ گئی۔ میڈیکل ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ریحان پر کینسر نے دوبارہ حملہ کیا ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب اس کا علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے جس کی سہولت چلڈرن ہسپتال ملتان میں میسر نہیں۔
وہ بچے کو چلڈرن ہسپتال لاہور لے گئے جہاں انہیں بمشکل داخلہ ملا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں رش کا یہ عالم تھا کہ ایک بیڈ پر دو بچے بھی زیرعلاج تھے۔ علاج کے دوران ریحان کو تیز بخار بھی رہنے لگا۔
نصیر کا کہنا ہے کہ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ڈاکٹروں اور عملے کا رویہ ہمدردانہ نہیں تھا۔ کئی مرتبہ وہ ریحان کے پاس آ کر کہتے کہ تم لوگ اپنا اور ہمارا وقت ضائع کر رہے ہو، اس بچے کے زندہ رہنے کی امید بہت کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ریحان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی اور بالآخر وہ انہیں روتا چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا۔
چلڈرن ہسپتال ملتان جنوبی پنجاب کی واحد علاج گاہ ہے جہاں کینسر کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کینسر سے متعلق شعبہ اونکالوجی میں 2021ء میں داخل ہونے والے مریض بچوں کی تعداد 239 تھی۔ 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 260 ہو گئی جبکہ رواں برس اگست تک 183 بچے چلڈن ہسپتان میں داخل ہو چکے ہیں۔ یوں ہر گزرتے سال کے ساتھ یہاں آںے والے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا اس ہسپتال میں شعبہ اونکالوجی کے سربراہ ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب میں بچوں میں کینسر کا مرض بڑھ رہا ہے۔
یہ اعداد وشمار ان بچوں کے ہیں جو ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ دیہات میں رہنے والوں کی اکثریت اس کا علاج نہیں کرواتی جہاں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری کروموسوم میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ زرعی ادویات کا استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور چند وائرس کے انفیکشن خون کے کینسر کے امکان کو بڑھا دیتے ہیں۔ دو سال سے 13 سال تک کے بچے اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر خاندان میں کسی ایک بچے کو یہ مرض ہو جائے تو خاندان کے باقی بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری طور پر ان کا معائنہ کرانا ضروری ہے۔ نیز پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی ضرور کروائیں اس کی بدولت کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'اب تو 20، 20 سال کے جوان منہ کے کینسر کے مریض ہیں': کیا سندھ پولیس گٹکا مافیا کو ختم کر پائے گی؟
ڈاکٹر سید شاذف علی باقری کنسلٹنٹ ہیماٹالوجسٹ اونکالوجسٹ کے طور پر ملتان کے ایک نجی ہسپتال میں کینسر کے مریض بچوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خون کا کینسر پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں مریضوں کا ایسا ریکارڈ موجود نہیں جس سے صورت حال کا درست اندازہ لگایا جا سکے مگر پرائیوٹ ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ وہ مریض ہیں جو زیادہ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں جبکہ اکثریت یہاں کا رخ نہیں کرتی۔
انہوں نےبتایا کہ کینسر کی ادویات کی قلت بھی اس کے علاج میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ علاج بہت مہنگا ہے۔ کیمو کا انجکشن پہلے مارکیٹ میں 40 سے 50 ہزار میں کا مل جاتا تھا، اب اس کی قیمت ایک لاکھ روپے سے بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیوٹ علاج پر 10 لاکھ روپے سے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ بچوں میں صرف خون ہی کا نہیں دوسری اقسام کا کینسر بھی بڑھ رہا ہے۔ ان میں گردوں، ہڈیوں اور رسولی کے کینسر شامل ہیں۔
"چونکہ کینسر کی تمام ادویات درآمدت کی جاتی ہیں اس لیے ڈالر مہنگا ہونے سے ان کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔"
ماہر امراض سرطان ڈاکٹر قراة العین ہاشمی نے بتایا کہ کینسر نے جنوبی پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ناقص خوراک اور ہمارے غیر صحت مندانہ رہن سہن کا بھی اس مرض کے پھیلاؤ میں اہم کردار ہے اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے عوام میں اس کی آگاہی ہونا بہت ضروری ہے۔
"اکثر بیماری مرض کے پہلے مرحلے میں ہسپتال نہیں پہنچتے۔ عموماً مریض حالت خراب ہونے پر ہسپتال لائے جاتے ہیں جو تشویش ناک بات ہے۔ اگر مریض بروقت ہسپتال پہنچ جائیں تو ان کے علاج میں آسانی ہو گی اور اس مرض میں موت کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جا سکے گا۔"
تاریخ اشاعت 14 ستمبر 2023