ایبٹ آباد کے نوشیرواں اقبال کا نو ماہ کا بیٹا جگر کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ اسے علاج کے لیے لاہور لائے ہیں جہاں ڈاکٹر نے بچے کے ہاضمے کے لیے انہیں بیسوفک گولیاں لکھ دی ہیں۔ یہ گولیاں بھارت سے آتی ہیں جو آسانی سے نہیں ملتیں۔ انہوں نے دس ہزار روپے دے کر بلیک میں یہ گولیاں خریدی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ 30 ہزار تنخواہ پر ملازمت کرتے ہیں اور اتنی مہنگی دوا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بچے کی بیماری ان سے دیکھی نہیں جاتی۔ وہ اس کی صحت یابی کے لیے ہر کوشش کرنے کو تیار ہیں لیکن دوا نہ ملنے سے مایوسی کا شکار ہیں۔
کراچی کے محسن اقبال کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
چالیس سالہ محسن علی نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی والدہ مثانے کے کینسر میں مبتلا ہیں جن کی کیمو تھراپی کے لیے انہیں ہر ہفتے ایک بی سی جی انجکشن درکار ہوتا ہے۔
محسن علی بتاتے ہیں کہ یہ انجیکشن مارکیٹ میں عام دستیاب نہیں ہے اور تلاش بسیار کے بعد انتہائی مہنگا ملتا ہے۔ دراصل یہ انجکشن بھارت میں تیار ہوتا ہے جس کی اصل قیمت تقریباً سات ہزار روپے ہے لیکن مقامی مارکیٹ میں یہ 25 سے 30 ہزار روپے میں ملتا ہے۔
ان کے بقول چند ماہ پہلے جب ان کی والدہ کو بی سی جی انجکشن لگنا شروع ہوا تو اس وقت اس کی قیمت صرف ڈھائی ہزار روپے تھی تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے یہ انجکشن 30 ہزار روپے میں خریدا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ پوری مارکیٹ میں انجکشن نہیں مل رہا تھا۔ کسی نے بتایا ایک بڑے ہسپتال میں دستیاب ہے۔ وہ والدہ کو وہیں لے گئے۔ ہسپتال والوں نے انجکشن تو لگا دیا مگر سروسز چارجز کے نام پر ان سے 70 ہزار روپے اینٹھ لیے۔
'' بی سی جی انجیکشن کے لیے میں نے بہت لوگوں کو مارا مارا پھرتے دیکھا ہے۔''
ادویات کی کمیابی اور مہنگائی کا مسئلہ صرف بیسوفک گولیوں اور بی سی جی انجیکشن تک ہی محدود نہیں بہت سی دیگر ببیاریوں کی ادویات کا بھی یہی معاملہ ہے جن میں جلدی بیماری 'لیشمینیاسس' کی دوا بھی شامل ہے۔
یہ تینوں ادویات یورپ کے چند ملکوں میں بھی تیار ہوتی ہیں مگر وہ مہنگی ملتی ہیں جبکہ بھارت میں بننے والی دوا سستی پڑتی ہے اور ان کی درآمد پر بھی کوئی پابندی نہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2021ء میں پاکستان نے بھارت سے 194.22 ملین امریکی ڈالر کی دوائیں درآمد کیں تھیں۔ تاہم اتنی بڑی مقدار میں دوائیں منگوانے کے باوجود کینسر جیسے امراض کی دواؤں کی قلت اور بلیک میں فروخت ایک سوالیہ نشان ہے۔
بادشاہ آفریدی پشاور سے چند کلومیٹر دور ضلع خیبر کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل وہ اور ان کا پورا خاندان لیشمینیاسس میں مبتلا ہو گیا تھا اور انہیں اس کی دوا 'گلوکن ٹائم' حاصل کرنے میں انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دوا کا ایک ایک انجیکشن پندرہ ہزار روپے میں بھی خریدا ہے۔
گزشتہ سال عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گلوکن ٹائم کے حوالے سے الرٹ بھی جاری کیا تھا کہ کوئٹہ کی مارکیٹوں میں اسی نام سے نقلی انجیکشن فروخت کیا جارہا ہے۔ اس انتباہ کے بعد پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے اس پر ایکشن بھی لیا تھا۔
ایک دوا ساز کمپنی کے ڈائریکٹر تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت اور بعض دیگر ممالک سے دوائیں افغانستان کو برآمد ہوتی ہیں۔ پھر یہ افغانستان سے سمگل ہو کر پشاور اور کوئٹہ پہنچتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی دواؤں کی وارنٹی بھی نہیں ہوتی۔
ایبٹ آباد کے ممتاز یورالوجسٹ ڈاکٹر ناصر جمیل کہتے ہیں کہ پچھلے چند سال کے دوران پاکستان میں مثانے کے کینسر کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ خواتین میں اس بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر جلد تشخیص اور بروقت علاج ہو تو مثانے کا کینسر ٹھیک ہو سکتا ہے اور کنٹرول میں بھی رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں بی سی جی انجیکشن ہی مثانے کے کینسر کا بہترین علاج سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ڈاکٹر اسی کو مستند دوا کے طور پر تجویز کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اس انجکشن کے سوا اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔
ڈاکٹر ناصر بتاتے ہیں کہ اکثر و بیشتر مریض شکایت کرتے رہتے ہیں کہ 'بی سی جی' مارکیٹ میں نہیں مل رہا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی متبادل دستیاب نہیں ہے۔ اسی لیے معالج یہی انجکشن تجویز کرنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں ایک بڑی دوا ساز کمپنی کے ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بعض امراض کی دوائیں پاکستان میں تیار نہیں کی جاتیں بلکہ یہ بھارت سے امپورٹ ہوتی ہیں۔ گلوکن ٹائم، بی سی جی یا کینسر کی دیگرادویات مریضوں نے ہر صورت میں لینا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناجائز منافع کمانے کے لیے لازمی اہمیت کی انہی دواؤں کی قلت پیدا کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جونہی کوئی مخصوص دوا بیرون ملک سے آتی ہے تو چند افراد اس کا بڑا سٹاک خرید کر چھپا لیتے ہیں۔ بعد ازاں یہ دوا مہنگے داموں ضرورت مندوں کو بیچی جاتی ہے۔
ان کے خیال میں اس کا حل صرف یہی ہے کہ حکومت ان دواؤں کومناسب تعداد میں مارکیٹ میں رکھنے کے لیے اقدامات کرے۔
لاہور میں ماہر امراض کینسر ڈاکٹر ابرار احمد کہتے ہیں کہ خون کے سرطان کی ایک قسم (کرانک مائیلو لوکیمیا) میں مبتلا بیشتر مریض بتاتے ہیں کہ عام طور پر اس کی دوا دستیاب نہیں ہوتی ہے جس سے مریضوں کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔
لاہور میں ادویات کے ہول سیل ڈیلر اقبال اینڈ کو کے مالک محمد عرفان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بیسوفک اور بی سی جی انجیکشن جیسی دوائیں طویل عرصہ سے بلیک مارکیٹ کا حصہ بن چکی ہیں۔ بلیک مارکیٹ والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ دوائیں عام مارکیٹ میں نہ پہنچیں اور اس کے لیے یہ لوگ ہر ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔
محمد عرفان کے مطابق اس کا یہی حل ہے کہ یہ دوائیں مقامی طور پر تیار کی جائیں۔ اگر تیاری ممکن نہیں تو مارکیٹ میں ان کی وافر سپلائی کے اقدامات کئے جائیں وگرنہ مسئلہ برقرار رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں
علاج یا نشہ: کنٹرولڈ آئٹمز میں شامل کیٹامین دوا کی ضرورت سے زیادہ درآمد کے پیچھے کیا راز ہے؟
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)کے ترجمان اختر عباس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی دوا ساز کمپنی مستند دوا کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے درخواست دے تو اس پر فوری کاروائی جاتی ہے۔ ڈریپ نے ایسی کوئی دوا رجسٹر کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا ۔بعض دوائیں اندرون ملک تیار کرنے کے لیے کوئی بھی کمپنی درخواست نہیں دیتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ ان دواؤں کا استعمال کم ہے اور انہی دواؤں کے لیے ہی امپورٹ لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
اختر عباس کہتے ہیں کہ بی سی جی انجیکشن منگوانے کا لائسنس بھی پاکستان میں ایک کمپنی کے پاس موجود ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قلت کی وجہ مذکورہ کمپنی سے دریافت کی جائے گی اور دیگر ادویات کی عدم دستیابی کے معاملے کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کبھی کسی دوا کی ضرورت پڑتی ہے وہ فوری طور پر منگوائی جاتی ہے ۔ کوئی غیر سرکاری ادارہ منگوانا چاہے تو تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔گلوکن ٹائم انجیکشن کے لیےایک بین الاقوامی این جی او اور مختلف اداروں کواجازت دی گئی ہے۔
اختر عباس کہتے ہیں کہ تب بھی کوئی دوا نہ ملے تو ڈریپ صرف ایک مریض کے لیے بھی دوا امپورٹ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کا طریقہ بہت آسان ہے کہ ڈاکٹر کا لکھا نسخہ اور کیمسٹ کے ذریعے دوائی کا آرڈر ڈریپ کو دیں جو مختصر وقت میں دوا کا انتظام کر دے گا۔
تاریخ اشاعت 7 اگست 2023